جس طرح پی ڈی پی کے باغی ممبران کو اچانک محبوبہ مفتی میں تمام خامیاں نظر آئیں بالکل اسی طرح محبوبہ مفتی کو بھی اچانک بی جے پی اور نئی دلی کے سارے عیب اور کشمیر مخالف منصوبے سمجھ میں آ گئے ۔ ان انتشاری بیان بازیوں اور منافقانہ بیانات کے جو بھی نتائج نکلیں وہ ایک طرف لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پی ڈی پی کے مرحو م لیڈر مفتی محمد سعید سے لیکر محبوبہ مفتی تک تمام پارٹی قیادت نے اپنی قوم سے اس حد تک جھوٹ بولا اور اتنی زیادہ بار اپنے ہی لوگوں کے اعتماد کو زمین بوس کیا کہ عام آدمی کا سیاست اور سیاستدانوں پر سے بھروسہ پوری طرح اٹھ چکا ہے اور اب جو کوئی بھی ظلم و زیادتیوں کے خلاف بات کرنے کی جسارت کرے یا پھر کشمیر مسئلہ کے منصفانہ حل کی خلوص دل سے کوشش کرے لوگ اس سے ڈرامہ بازی اور حصول اقتدار کیلئے اچھل کود کا نام دیتے ہیں۔ یوں پورے سیاسی منظر نامے کو انتشاری کیفیت کی نذر کرنے کا بے حد گندہ کام مفتی خاندان نے انجام دیکر شیخ خاندان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اب محبوبہ مفتی کی بات تک سننے کیلئے جہاں کوئی کشمیری تیار نہیں وہاں وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ دلی کی ٹی وی چینلوں پر جا کر کشمیریوں کو صفائی دینے کی بیہودہ کوششیں کر رہی ہیں ۔ ان کی طرف سے بی جے پی کا اُن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو با جواز بنانے کی دلیل ایک ایسے انسان کو بھی انتہا درجے کا غصہ دلا رہی ہے جو زندگی میں مشکل ترین حالات میں بھی تیز لب و لہجہ سے کبھی بات نہ کیا ہو ۔ وہی محبوبہ مفتی جو بی جے پی کو فرشتوں سے بھی بڑھ کر اُن کی قصیدہ خوانی میں مشغول رہتی تھیں اور رات دن نریندر مودی ، امت شاہ اور راج ناتھ سنگھ سمیت ہر چھوٹے بڑے سنگ پریوار کے لیڈر کی تعریفیں کرتے تھکتی نہیں تھیں آج اقتدار سے بیدخل کئے جانے کے بعد بالکل وہی سیاست کرنے لگی ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ۔ بلا وجہ جماعت اسلامی کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹنے والی محبوبہ مفتی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر انہیں جماعت اسلامی کے چوٹی کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کیلئے دلی کا دبائو تھا لیکن اُن کے بقول وہ ایسا کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوئیں تو بھلا اننت ناگ اسلام آباد میں جماعت اسلامی سے وابستہ باپ اور بیٹے کو کس کے حکم سے ایک ہی بیڑی میں جکڑا گیا۔ آج آسیہ اندرابی کی دلی منتقلی پر بے شرمی کے ساتھ واویلا کرنے والی محبوبہ مفتی کو بتا دینا چاہئے کہ اننت ناگ کے تھانوں میں اُن کے دور میں کئی لڑکیوں کو کیونکر حوالات میں بند کیا گیا اور ساتھ ہی آسیہ اندرابی پر اُن کے دور میں کون کون سے عتاب نازل کئے گئے ۔ اگر محبوبہ مفتی جماعت اسلامی پر اپنے نام نہاد اور جھوٹ پر مبنی احسانات جتلانا چاہتی ہیں تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ریاستی اسمبلی کے اپنے ساتھی( راقم انجینئر رشید) کو این آئی کی ذلت آمیزی سے نہیں بچا سکتی تو بھلا جماعت اسلامی کے کارکنوں کی خاطر آسمان سے تارے توڑ لانا اُن کے بس کی کیسے بات ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ صحیح ہے کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر شکنجہ کسنے کی اجازت نہیں دی تو کیا اس سے یہ بات صاف ثابت نہیں ہوتی کہ انجینئر رشید ، میاں قیوم ، ایاز اکبر، شاہد یوسف، شاہد الاسلام ، الطاف فنتوش ، ظہور وٹالی ، شبیر شاہ ، نعیم خان، معراج الدین کلوال اور دیگر لوگوں کی این آئی کے ہاتھوں تنگ طلبی اور گرفتاری میں براہ راست محبوبہ مفتی کا ہاتھ ہے ۔ ویسے بھی یہ اب گھر گھر کی بات ہے کہ این آئی اے کی چھاپہ ماری میں محبوبہ مفتی کی کابینہ کے کئی وزراء کا زبردست رول رہا ہے ۔ پی ڈی پی نے اپنے قیام کے وقت کشمیر مسئلہ کے حل کی خاطر کوششیں کرنے کا عزم دکھایا اور ریاست کے مسلم اکثریتی کردار بچانے کی قسمیں کھائیں اسی جھانسے میں آکر اہل کشمیر نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا اور شیخ خاندان کے طلسماتی کرتبوں کا بُت پاش پاش کیا ۔ یہ بات ہر کسی کو ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پی ڈی پی کا روز اول سے ہی مدعا اور مقصد مزاحمتی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا تھا ۔ اگر فاروق عبداللہ اور عمر صاحب دن میں سو بار قسمیں کھا کر اعلان کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی ہیں لیکن اہل کشمیر نے کبھی ان تلخ حقیقت کو نہیں سمجھا کہ مفتی محمد سعید صرف ہندوستانی ہی نہیں بلکہ بذات خود اپنی ذات میں ایک چھوٹا موٹا ہندوستان تھے ۔ محبوبہ مفتی کو چاہئے کہ وہ ایک لمبی مدت کیلئے مختلف اہم امورات پر بات نہ کرے کیونکہ اُن کی ہر بات سے نہ صرف اہل کشمیر اور اہل انصاف کو بیحد تکلیف ہوتی ہے بلکہ ہر اس آوازکو جو کہ ظلم اور جبر کے خلاف خلوص دل سے لڑنے کی جسارت کرے محبوبہ مفتی کے دوغلے پن اور منافقانہ کردار کی وجہ سے طعنہ بازیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ کون اس بات کو بھلا سکتا ہے کہ عام لوگوں سے لیکر مختلف سیاسی پارٹیوں نے مرحوم مفتی صاحب اور ان کی صاحبزادی سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے کا مشورہ دیا تھا لیکن تب مفتی صاحب شائد اس بھرم میں تھے کہ وہ جب ہندوستان کے وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے تو نریندر مودی ان سے ملاقات کیلئے وقت مانگتے لیکن شائد مفتی صاحب یہ بات بھول چکے تھے کہ مودی جی اب گجرات کے وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ ہندوستان کے انتہائی طاقتور وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ اس حد تک انا کا شکار ہیں کہ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے قد آور سیاستدانوں کی نہ صرف مودی جی نے چھٹی کر دی بلکہ ان سے ہاتھ ملانا بھی ان کو گوارا نہیں ۔ محبوبہ مفتی آج جو بھی کہیں وہ سب قابل مذمت ہے اور قابل نفرت ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر کشمیریوں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر سنگ پریوار کے حوالے کیا اور ہر اس دلیل کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا جو ان کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی مخالفت پر مبنی تھی ۔ اپنی سیاسی کشتی کو بیچ بھنور میں ڈوبتے دیکھ کر محبوبہ مفتی اب کبھی جماعت اسلامی کو بیچ میں لاتی ہے تو کبھی کوئی اور لن ترانیاں سنا رہی ہیں لیکن اہل کشمیر کی عزت نفس کو جو چوٹ انہوں نے پہنچائی ، جس طرح کشمیریوں کو انہوں نے بے بس جانور کی طرح خونخوار شکاریوں کے حوالے کیا اور ریاست کے اکثریتی تشخص کو پار پار کرنے کے علاوہ حریت پسند قیادت کے حوصلوں کو توڑنے کی مجرمانہ اور بے رحمانہ کوششیں کیں اس سے فراموش کرنا کسی کشمیری کیلئے ممکن نہیں ۔ آسیہ اور نیلوفر کے غم میں تب مرثیہ خوانی کرنے والی محبوبہ مفتی اپنے دور اقتدار میں اُن کے نام لینے کو بھی ملک دشمنی سمجھ بیٹھی تھیں ۔ کون نہیں جانتا کہ جب مفتی صاحب نے سرکار سنبھالنے کے چند دن بعد مسرت عالم کو جیل سے چھوڑنے کی ہمت دکھائی تو اُن کی حالت کس قدر غیر ہوئی ۔ محبوبہ مفتی کے آج کے دعووں میں معمولی سی بھی صداقت ہوتی تو باپ بیٹی نے تب ہی اقتدار کو لات مار کر تاریخ رقم کی ہوتی۔ آج ان کی ہر بات اہل کشمیر کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی دیدہ دانستہ کوشش ہے اور ایسا کرکے محبوبہ مفتی کو حاصل تو کچھ نہیں ہوگا لیکن اُن کے اپنے لوگ بھی اُن کا مذاق اڑانے کیلئے نہ صرف مجبور ہونگے بلکہ اُن کی ذہنی حالت پر بھی شک کریں گے ۔ بے شک محبوبہ مفتی کشمیریوں کو اس قدر ذلیل کر چکی ہیں کہ مرحوم شیخ صاحب کی روح اس بات کو لیکر تذبذب میں ہوگی کہ کشمیریوں کے ساتھ محبوبہ مفتی اور مفتی صاحب نے زیادہ دھوکہ کیا یا انہوں نے ۔مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ اقتدار سے چلے جانے کے بعد محبوبہ مفتی کو جموں کشمیر میں جمہوریت صرف اس لئے خطرے میں نظر آرہی ہے کیونکہ اُن کے اپنے کل تک کے دمچھلوں نے اُن سے بغاوت کی ہے ۔ آئندہ دنوں میں سیاسی منظر نامہ جیسا بھی ہوگا لیکن ایک بات واضح ہے کہ گذشتہ چار برسوں کی حکمرانی کے دوران جس قدر اہل کشمیر نے خود کو محکوم و مجبور پایا اس کی ساری ذمہ داری مرحوم مفتی صاحب اور اُن کی بیٹی پر ہی عائد ہوگی۔ ہر جھوٹ کو ایک نہ ایک دن لوگوں کے سامنے بے نقاب ہونا ہی پڑتا ہے ۔ دلی میں بیٹھے مفتی صاحب کے تب کے وہ آقا آج لمبی آہیں بھرتے ہونگے جنہوں نے انتہائی چالاکی اور فریب کاری سے مفتی صاحب کے ہاتھوں میں قلم دوات اور سبز جھنڈا تھاما تھا لیکن آج نہ مفتی صاحب کے قلم میں کچھ مزید جھوٹ لکھنے کی طاقت باقی رہی اور نہ ہی دوات میں کچھی لکھنے کیلئے سیاہی باقی رہی ہے جبکہ پی ڈی پی کا سبز جھنڈا اب کشمیریوں کو اپنے ارمانوں ، قربانیوں اور حقوق کا کفن نظر آ رہا ہے اور پی ڈی پی کے اس جھنڈے کے ساتھ اب اتنی ہی نفرت کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے جتنی کہ این سی کے لال جھنڈے کے ساتھ ۔