مفتی محمد سعید کے فوت ہونے کے بعدپارٹی اورمخلوط حکومت کا بامحبوبہ مفتی پر آن پڑا۔ ان کے والد نے چونکہ بی جے پی سے اتحاد کر کے ریاستی حکومت تشکیل دی تھی جسے سنیئر مفتی نے’’ قطبین کا ملن‘‘ سے تعبیرکیا تھا،اس کا صاف مطلب تھا کہ اُنہیں یہ شدید احساس تھا کہ وہ کوئی اچھا کام کرنے جا رہے ہیں ۔ وادی کے عوام بھی ان کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے جب تک کہ اگلا الیکشن نہیں آجاتا جس کے لئے ۶؍برس کا انتظارلازمی تھا۔ممکن ہے کہ مفتی صاحب کو اس بے جوڑ گٹھ جوڑ سے کچھ انہونی سوجھی ہو لیکن بی جے پی کیوں ایک دم سے تیار ہو گئی ،یہ سوچنے کی بات ہے۔بی جے پی کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ پہلے اقتدار حاصل کرو؛باقی سب اپنے آپ ہو جائے گا ۔بھاجپا تھنک ٹینک نے مفتی صاحب کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے بین بین اپناجو منصوبہ بنایا ہوگا،اس کی کانوں کان خبر مفتی کو نہیں ہوگی۔مفتی نے یہ سوچ کر بھی پی ڈی پی ۔ بھاجپا مخلوط حکومت بنائی تاکہ مرکز سے منہ مانگا بجٹ حاصل کرکے ریاست کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرسکیں لیکن کوئی ضروری نہیں کہ بی جے پی کی بھی یہی سوچ ہو کہ وہ ریاست جموں کشمیر کی ترقی چاہے۔اس حقیقت کا مشاہدہ کوئی بھی کر سکتا ہے کہ ان ساڑھے ۴؍سال کی مرکزی حکومت اور کم و بیش۴؍برس طویل مخلوط ریاستی حکومت میں کہیں کوئی ترقیاتی کام نہ ہوئے ۔بی جے پی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ملے گا کہ ریاست میں کیوں ترقیاتی کام نہیں ہوئے کیونکہ اس کا مقصد صرف اقتدار پر قابض ہونا تھا، پہلے تو شراکت داری کر کے اور پھر اپنے سیاسی حلیف کو تن تنہا کرکے ۔ خیر مفتی صاحب کے بعد محبوبہ ۳؍مہینوں تک گو مگو کی کیفیت میں رہیں کہ بی جے پی کے ساتھ حکومت جاری رکھی جائے یا نہیں، کیونکہ وہ عوام بالخصوص وادی کے غصے کو سمجھ چکی تھیں۔وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ جب وادی میں ستمبر ۲۰۱۴ء میں سیلاب آیا تھا،اُس وقت مرکزی حکومت نے ریاست کی کوئی خاطر خوواہ مدد نہیں کی تھی جب کہ مفتی صاحب اُس وقت حیات تھے ۔ باتیں ، دعوے اور وعدے تو بہت ہوئے تھے لیکن زمین پر کچھ دکھائی نہ دیا۔ چنانچہ جموں کشمیر جیسی حساس ریاست میں ۳؍ماہ تک کوئی حکومت نہ رہی۔اگر یہی حالت کسی دوسری ریاست میں ہوتی جہاں بی جے پی کو چھوڑ کر کوئی اور پارٹی مستفید ہوتی ہوئی دکھائی دیتی، تو بی جے پی آسمان سر پر اُٹھا لیتی لیکن اس نے انتظار کیا کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسرامتبادل نہیں تھا اور اس وقت بھی جموں کشمیر کا سخت دَل بدل قانون اس کے آڑے آیا۔ مخلوط حکومت جوں توں قائم ہوئی۔حکومت تو کہنے کو’’ ٹھیک ٹھاک‘‘ چل رہی تھی لیکن ایک دن اچانک بی جے پی نے دلی سے محبوبہ مفتی حکومت سے اپنی حمایت واپس لینے کا اعلان کر دیا،جس کی آخری دم تک کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو بھی ٹی وی خبروں سے ا س بابت پتہ چلا۔ ویسے بھی نوٹ بندی کی طرح مودی حکومت سارا کام اچانک ہی کرتی ہے۔ بہر حال محبوبہ سمجھ ہی نہ پائیںکہ ان کی غلطی کیا تھی یا ان کی پارٹی سے ایسا کون سا دیش دروہی کام انجام پا گیا جس کی سزا اُنہیں یون بے آبرو کرکے دی گئی ہے۔خیر انہیں اپنے منصبِ وزارت عالیہ سے استعفیٰ دینا پڑا ۔ اس طرح پی ڈی پی اپنی سیاسی حلیف بی جے پی کے ہاتھوں سر راہ رُسوا ہوئی ۔ ۱۸؍جون ۲۰۱۸ء گورنر راج قائم ہو گیالیکن گورنر نے اسمبلی کو معطل رکھا اور ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت یعنی بی جے پی کی ایماء پرہی ا یسا کیا گیا۔اُس وقت گورنر این این ووہرا تھے۔اپوزیشن این سی اور کانگریس نے اسمبلی معطلی کے خلاف احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ بنگ کیا جائے لیکن محبوبہ خاموش رہیں ، یہ سوچ کر کہ ممکن ہے کہ بی جے پی کچھ کھیل کھیلنے کے بعد اُن سے پھر رجوع کرے ۔اپنی وزارتِ عالیہ کے دوران پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی سیاسی ساکھ پوری طرح مجروح ہو چکی تھی۔وادی میں وہ کسی عوامی پروگرام میں بلا خوف وخطر شرکت ہی نہیں کر سکتی تھیں۔وہ جہاں جاتیں ، وہاں عوام کی جانب سے اپنی ناراضگی جتانے کے لئے ہنگامہ ہو جاتا اور لوگ ان سے اُلٹے سیدھے سوالات پوچھتے رہتے۔ان پیچیدہ حالات میں اور خاص کر ۲۰۱۶ ء میں جب پی ڈی پی اور بی جے پی اتحادکا عروج نصف النہار پر تھا، وادی میں جنگجوئیت کو کافی بڑھاوا مل گیا اور لوگوں کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا،وادیٔ کشمیر کی سیاحت نچلی سطح پر پہنچ گئی اور مزید معیشت تباہ وبربادہو کر رہ گئی، تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی اور اس سے پیدا شدہ غم ووغصہ ظاہر کر نے نوجوانوں وہ دوسرے راستے اختیار کئے جس کا مظاہرہ دنیا وادی میں احتجاجوں ، جھڑپوں اور دوسری تبا ہ کن صورتوں میں دیکھ رہی ہے ۔ ا س سے پی ڈی پی کو بڑا سیاسی دھچکا لگا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے باوجود محبوبہ بی جے پی سے لو لگائے ہوئے تھیں کیونکہ اسمبلی برخواست نہیں ہوئی تھی جب کہ بی جے پی کچھ اور ہی کھچڑی پکارہی تھی۔وہ چاہتی تھی اسمبلی میں اپنا من پسند جوڑ توڑ کر کے وہ اپنی پسند کے کسی ایم ایل اے کو وزیر اعلیٰ ( صحیح تر لفظوں میں پو سٹر بوائے) بنا دے ، پارٹی اس ایجنڈے پر تھرڈ فرنٹ کے نام سے محنت بھی کر رہی تھی ، جب کہ جموں کشمیر کے آئین کی رُو سے کوئی بھی ریاستی شہری ریاست کا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے۔بھا جپا اپنے منصوبے کے تحت فی الحال سجاد لون کا استعمال کر رہی تھی۔کچھ دنوں کے لئے وہ انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیتی اور پھر زمین ہموار کر کے ’’اپنے ‘‘وزیر اعلیٰ سے تبدیل کر دیتی۔سجاد لون کو آج یہ بات سمجھ میں نہ بھی آئے کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں، لیکن بھاجپا جب انہیںdump کرے تو انہیں بھی اوروں کی مانند ٹی وی ہی سے اس کی اطلاع ملے گی۔سجاد لون پی ڈی پی کے اراکین کو منانے یا توڑنے میں لگے ہوئے تھے یا ان کے مطابق پی ڈی پی کے اراکین خود ہی ان سے رابطہ کئے ہوئے تھے،محبوبہ مفتی یہ سب دیکھ رہی تھیں ، جب انہیں لگا کہ اب ان کی پارٹی ٹوٹ جائے گی تو ایک جال پھینکاکہ بی جے پی کے تمام تھنک ٹینک اس میں پھنس گئے ۔ اس گیم پلان میں وہ کامیاب ہو گئیں اور دنیا نے دیکھا کہ وہ سیاست کی کوئی کچی کھلاڑی نہیں ہیں ۔ان کے ماہرانہ کھیل سے ہندوستان کے جانے مانے منصوبہ ساز(strategist) امیت شاہ بھی چاروں شانے چِت ہوگئے ، وزیراعظم مودی تو پہلے سے ہی حیران وششدر ہیں اور اجیت ڈوبھال بُری طرح ڈوب گئے ہیں۔محبوبہ نے اپنا کارڈ کھیلتے ہوئے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ وائرل کروا دیا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے تعاون سے وہ حکومت بنا رہی ہیں ۔یہ سنتے ہی بی جے پی کی تھنک ٹینک حرکت میں آگئی کیونکہ ملک میں جو بھا جپا مخالف فضا بنی ہوئی ہے، پارٹی کو یہ یقین کر لینے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی کہ یہ نئی صف بندی بی جے پی کا ہوش اُڑانے کیلئے کافی تھی۔اُس نے جو اسمبلی اپنے مطلب کے لئے معطل کر رکھی تھی، ا س کا کوئی اور فائدہ اٹھائے ، یہ بی جے پی کو کیسے گوارہ ہوسکتا تھا ۔جب محبوبہ مفتی نے حکومت سازی کے لئے اپنا دعویٰ پیش کر تے ہوئے این سی اور کانگریس سے تعاون ملنے کا خط گورنرستیہ پال ملک کو فیکس کرنا چاہا توگورنر ہاؤس کی فیکس مشین’’ کام‘‘ نہیں کر رہی تھی ۔ اس لئے انہوں نے ٹویٹر پر یہ خط نشر کر دیاکہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے تعاون سے اُن کے پاس ۵۶؍ایم ایل اے ہیں، اس لئے انہیں حکومت بنانے دی جائے۔ ٹھیک اسی لمحے سجاد لون کا خط بھی گورنر کو وہاٹس ایپ کے ذریعہ۔۔؟ملا کہ انہیں (ان کے ۲؍) پی ڈی پی کے ۱۸؍اراکین کے ساتھ بی جے پی کے ۲۵؍اراکین کا تعاون حاصل ہے ،لہٰذا انہیں حکومت بنانے کی دعوت دی جائے ۔ گورنرصاحب نے آناًفاناً رات میں اسمبلی تحلیل کر دی ۔وہ لاکھ کہیں کہ انہوں نے اپنی صوابدید پر اسمبلی کو تحلیل کیا ،کوئی بھی یہ ماننے کو تیا ر نہیں کیونکہ جن ۴؍وجوہات کا ذکر انہوں ا س ضمن میں نے کیا ہے، ان میں سے ایک ایم ایل اے کی خرید فروخت( یعنی ہارس ٹریڈنگ) بھی ہے۔بھلا بتائیے ہارس ٹریڈنگ کون کر رہا تھا؟ سجاد لون بمعنی دیگر بی جے پی یا محبوبہ مفتی؟ خیر محبوبہ اپنے گیم پلان میں کامیاب ہو گئیں اور ان کا یہ کارنامہ کہ ’ہم تو ڈوبیں گے صنم لیکن تم کو بھی تیرنے نہیں دیں گے‘ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔دیکھا جائے تو محبوبہ نے بی جے پی تھنک ٹینک کو چونا لگا دیا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ:9833999883)