سرینگر//حریت(گ)نے وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور دوسرے ہندنواز سیاستدانوں کے 9؍اپریل کی ہلاکتوں پر واویلا کو بے معنیٰ اور نمائشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف مگرمچھ کے آنسو ہیں، جو یہ مکار لوگ بہارہے ہیں، حالانکہ یہ اس قتلِ عام کے لیے برابر کے ذمہ دار ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ مرتکبین کو انعامات اور اعزازات سے بھی نوازتے رہے ہیں۔ حریت نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان لوگوں کا کھیل اب ختم ہوچُکا ہے اور یہ جتنی جلدی اپنی سیاسی دوکانات بند کرتے ہیں، ان کے لیے بہتر ہوگا۔ترجمان ایاز اکبر نے محبوبہ مفتی کے 3دن قبل دئے گئے اس بیان کا حوالہ دیا، جس میں محترمہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ ان کے پاس 7لاکھ بندوقیں ہیں اور 2سو بندوقیں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ یہ محبوبہ مفتی کی ہی سات لاکھ بندوقوں والی فوج ہے، جس نے الیکشن کے دن ہمارے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا اور درجنوں کی آنکھوں کی بینائی چھین لی۔وزیراعلیٰ کا ان ہلاکتوں پر افسوس کرنا محض سیاست کاری ہے، جو یہ لوگ کشمیریوں کے خون پر کررہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اس یونیفائڈ کمانڈ کونسل کی سربراہ ہیں، جو کشمیریوں کے قتل عام کے منصوبے ترتیب دیتا ہے اور پھر 26؍جنوری اور 15؍اگست کے دن نہتے شہریوں کو مارنے والوں کو تمغوں اور ترقیوں سے نوازا جاتا ہے ۔ محبوبہ مفتی کا یہ کہنا کہ تشدد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، مضحکہ خیز ہے، کیونکہ یہ صرف محبوبہ مفتی کی سات لاکھ بندوقیں ہیں، جو اس کو تشدد کے ذریعے حل کرانا چاہتی ہیں اور زور زبردستی کے ذریعے سے لوگوں کو خاموش کرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ترجمان نے ڈاکٹرفاروق عبداللہ کے ہلاکتوں کو لیکر دئے گئے بیان کو بھی مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ جموں کشمیر میں جو کچھ بھی خون خرابہ ہورہا ہے، اس کے لیے مجرم نمبر ایک کے طور پر نیشنل کانفرنس ذمہ دار ہے۔ترجمان نے کہاکہ خودڈاکٹر فاروق عبداللہ 96ء میں وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے وہ ٹاسک فورس بنائی، جس نے ہزاروں نہتے شہریوں کو حراست میں لے کر ہلاک یا لاپتہ کردیا۔ 2010ء میں ان کے صاحبزادے عمرعبداللہ کُرسی پر براجمان تھے، تو سینکڑوں معصوم بچوں کو ٹارگیٹ کلنگ کرکے موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ 9؍اپریل سے پہلے فاروق عبداللہ نے سنگ بازوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیاحت کے لیے نہیں، بلکہ کشمیر کاز کے لیے پتھر مارتے ہیں، البتہ ووٹنگ کے دن ہی انہوں نے پلٹی کھائی اور کہا کہ حکومت انتخابات کے لیے پُرامن ماحول بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ یعنی وہ ان نوجوانوں سے شاکی تھے، جو اس الیکشن کے خلاف مظاہرے کررہے تھے۔