’’ اب میں اور نہیں چل سکتا ،بھوک سے میرا برا حال ہو رہا ہے‘‘ ۔
شہزاد نے چلتے چلتے اچانک ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
’’ سر ۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی منزل پر پہنچنے ہی والے ہیں ،وہ بڑا میدان جو دکھ رہا ہے وہیں ہمیں ٹھہرنا ہے‘‘ ۔
گائیڈ نے تھوڑی دوری پر دکھ رہے میدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شہزاد کی ہمت بندھ گئی اور وہ اٹھ کر دھیرے دھیرے چلنے لگا ۔شہزاد سیر سپاٹے کا کافی شوقین تھا اور آج اپنے دوست کے ہمراہ دور دراز جنگلی علاقے کی سیر کے لئے نکلا تھا ،ان کے ساتھ ایک مقامی گائیڈ اور دو نوکر بھی تھے ۔قریب آٹھ گھنٹے سے وہ لگاتا ر پا پیادہ محو سفر تھے ،جو بھی پکا ہوا کھانا وغیرہ ساتھ تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور وہ سب بھوک سے نڈھال تھے ۔کچھ دیر بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے اور ایک جگہ جہاں،صاف و شفاف پانی کی ندی بہہ رہی تھی ،پر پڑائو ڈال دیا۔ گائیڈ اور نوکر خیمہ نصب کرنے لگے جب کہ شہزاد اور اس کا دوست سلیم ندی پر مُنہ ہاتھ دھو کر صاف شفاف سبزے پر بیٹھ کر ادھر اُدھر کا جائیزہ لینے لگے ۔یہ فلک بوس پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی خوب صورت وادی تھی، جہاںہر طرف اونچے اونچے درخت، سبزہ ہی سبزہ اور قسم بہ قسم کے پھول کھلے ہوئے تھے جب کہ بہتی ندی کا شور اور پرندوں کی سریلی آوازیں ماحول کو اور زیادہ پُرکشش بناتی تھیں۔
’’سلیم ۔۔۔۔۔۔ دیکھ یا ر قدرت کی کاریگری، کتنی خوب صورت جگہ ہے ‘‘۔
’’ہاں شہزاد ۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ اتنی پر کشش جگہ پر پانچ چھ دن گزارنے ہی چاہئیں‘‘ ۔
’’کر چپ ۔۔۔۔۔ ہمیں کل ہی واپس جانا ہے ،میں امی اور ابو کو زیادہ دیر اکیلے نہیں چھوڑ سکتا‘‘ ۔
’’تبھی تو میں کہتا ہوں کہ شادی کرلو تاکہ تمہاری بیوی یہ ذمہ داری سنبھالے ‘‘۔
سلیم نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا لیکن وہ موضوع بدلتے ہوئے گویا ہوا۔
’’ سلیم ۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھو ان درختوں میں کچھ ڈھوکے دکھ رہے ہیں، چلو دیکھتے ہیں وہاں کون لوگ رہتے ہیں‘‘ ۔
کچھ دیر بعد ہی وہ ڈھوکوں کے قریب پہنچ گئے ۔ایک ڈھوکے کے باہر ایک عورت چولہے پر دودھ ابال رہی تھی جب کہ ایک طرف پھٹے پرانے میلے سے کپڑوں میں ملبوس کچھ بچے بے فکری سے کھیل رہے تھے ۔
’’ماں جی ۔۔۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے ،کچھ کھانے کو دے دو‘‘ ۔
احسان ، جسکے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ،کی مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔احسان کی بات سن کر وہ عورت ان کو عجیب نظروں سے گھورنے لگی ۔
’’ماں جی ۔۔۔۔۔۔ آپ گھبرائیں نہیں ،ہم یہاں سیر کے لئے آئے ہیں اور وہ ہم نے خیمہ نصب کیا ہے‘‘ ۔
’’اچھا پُتر ۔۔۔۔۔۔ بیٹھ جائو ،پکے چاول اور دہی کھائو ،لیکن سالن نہیں ہے‘‘ ۔
شہزاد کی بات سے مطمئن ہوکر عورت نے انہیں پرخلوص لہجے میں کہا اور وہ دونوں پاس ہی ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔
’’گلابو ۔۔۔۔۔ اے گلابو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کیا ہے مائی ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
عورت کی آواز پرڈھوکے سے، ہاتھ میں کتاب لئے ،ایک لڑکی باہر آئی جس پر نظر پڑتے ہی شہزاد کھو سا گیا ۔لڑکی اگر چہ معمولی لباس میں ملبوس تھی لیکن خوب صورت مجسم۔۔۔ لمبا قد۔۔۔ بولتی ہوئی ساحر آنکھیں جن سے عجیب سی چمک چھلک رہی تھی۔۔۔ چہرے پر شفق کھلے ۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر گلاب کی پتیاں بکھریں اورانگ انگ سے جیسے شباب کے پھول جڑ رہے تھے ۔
’’ شہزاد ۔۔۔۔۔۔ کہاں کھو گیا ۔کھانا کھائو‘‘۔
لڑکی نے کھانا ،دہی اور نمک لا کر کب ان کے سامنے رکھا شہزاد کو پتہ ہی نہیں چلا۔ سلیم کی آوازسن کر شہزاد سوچوں سے باہر آگیا اور وہ کھانا کھانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی ہاتھ میں ایک پیاز اور چاقو لے کر آگئی اور خاموشی سے پیاز کاٹا اور اس پر نمک اور مرچ چھڑک کر ان کے سامنے رکھا ۔
’’آپکا نام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
جونہی وہ واپس جانے کے لئے مڑی تو شہزاد نے پوچھا ۔
’’ گلابو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کیا کرتی ہو ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کبھی مال مویشیوں کے پیچھے تو کبھی گھر کا کام ‘‘۔
’’وہ جو آپ کے ہاتھ میں کتاب ،میرا مطلب ہے کس کلاس میں پڑتی ہو ؟‘‘
’’میں نے پڑھائی چھوڑ دی ،وہ ایک ناول ہے جو آتے ہوئے میں نے راستے میں خریدا تھا‘‘ ۔
’’پڑھائی کیوں چھوڑ دی ۔۔۔؟‘‘
’’ہم خانہ بدوش جو ٹھہرے۔کیسے پڑھیں؟‘‘
’’کیوں؟سرکار نے خانہ بدوشوں کی سہولیت کے لئے کئی سکیمیں بنائی ہیں‘‘ ۔
’’سب کہنے سننے کی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’معاف کرنا بیٹا،گھر میں پکانے کے لئے سبزی نہیں تھی‘‘۔
اسی لمحے گلابو کی ماں نے آکر معذرت طلب لہجے میں کہا اور وہ اندر چلی گئی ۔
’’نہیں ماں جی ۔۔۔۔۔۔ اتنا مزے دار کھانا میں نے زندگی بھر نہیں کھایا ہے‘‘ ۔
سلیم نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا اور کھانے سے فارغ ہوکر کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے خیمے کی طرف چلے گئے جہاں شہزاد ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگائے گم صم بیٹھ گیا ۔
’’ شہزاد کیا بات ہے ؟روبی کی یاد آرہی ہے‘‘ ۔
سلیم نے چائے کی پیالی اس کے سامنے رکھ کر اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’میں تمہیں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ اس خود غرض لڑکی کا نام میرے سامنے مت لیا کرو ‘‘۔
شہزاد نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ۔
’’اوکے ڈیئر ۔۔۔۔۔چائے نوش فرمائیں ،تھکاوٹ دور ہو جائے گی‘‘ ۔
شہزاد نے چائے اٹھائی تو اسے پیالی میں گلابو کا چہرہ نظر آیا اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔چائے پی کے سلیم ارد گرد کے نظارے دیکھنے لگا جب کہ شہزاد وہیں بیٹھ کر گہر ی سوچوں میں کھو گیا ۔۔۔۔۔۔
شہزاد ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ، انتہائی ذہین ،قابل اور با اخلاق لڑکا تھا ۔اس کا والد بھی ایک اچھے عہدے پر فائیز رہنے کے بعد سبکدوش ہوچکا تھا جب کہ والدہ کچھ عرصہ سے بیمار ہو نے کے سبب چلنے پھرنے سے قاصر تھی ۔اس کا بڑا بھائی ڈاکٹرتھا جس نے اپنی پسند پر ایک ڈاکٹرنی سے شادی کی تھی لیکن شادی کے کچھ مہینوں کے بعد ہی بیمار ماں کی پرواہ نہ کر تے ہوئے اُس نے اپنا الگ گھر بسایا ۔بھائی کی اس حرکت پر شہزاد بہت دکھی ہو گیا لیکن اس کے بس میں کچھ نہیں تھا ،وہ بس دل و جان سے ماں باپ کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ سول سروسز امتحان کی تیاری بھی کرتا رہا ۔گھر کی حالت دیکھ کر وہ چاہتا تھا کہ وہ جلد سے جلد روبی سے شادی کرلے لیکن روبی نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ جب تک تمہیں کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی میرے گھر والے اس شادی پر ہر گز راضی نہیں ہونگے۔
روبی اس کے پڑوس میں رہتی تھی اور کالج کے زمانے سے ہی وہ ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے اور شادی کرنے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے ۔وقت گزرتا رہاشہزاد نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا اور اچھے عہدے پر فائیز ہو گیا، جس کے بعد اس نے روبی پر شادی کے لئے زور ڈالنا شروع کیا لیکن وہ مختلف بہانوں سے ٹالتی رہی ،آخر اس نے ایک دن روبی کو اپنے آفس میں بلایا اور بڑے ہی سنجیدہ انداز میں گویا ہوا۔
’’روبی ۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں جلد سے جلد شادی کر لینی چاہئے‘‘۔
’’ایسی بھی کیا جلدی ہے جناب ۔۔۔۔۔۔ ویسے تم کو رہائیشی کوارٹر مل گیا‘‘ ۔
اس نے ایک ادا سے کہا ۔
’’کوارٹر تو مل گیا ،لیکن فاالحال ہم اپنے ہی گھر میں رہیں گے، یہاں سے زیادہ دور بھی نہیں ہے‘‘ ۔
’’وہ تو ٹھیک ہے ۔۔پر ۔۔۔ وہاں تمہارے امی ابو بھی رہتے ہیں‘‘ ۔
’’روبی تم کہنا کیا چاھتی ہو ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ میں چاہتی ہوں کہ شادی کے بعد ہم کوارٹر میں شفٹ ہوں گے اور امی ابو گھر میں ہی رہیں گے ،تم مجھے غلط مت سمجھنا ہم ان کے پاس آتے جاتے رہیں گے‘‘ ۔
’’روبی تم ہوش میں تو ہو،میری ممی بیمار ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا‘‘ ۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا ْ؟ تمہارا بھائی بھی تو انہیں چھوڑر کر الگ رہ رہا ہے ‘‘۔
شہزاد نے روبی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پہ اڑی رہی اور جاتے جاتے شہزاد سے کہہ گئی ۔
’’اگر تم میرے ساتھ الگ گھر میں نہیں رہ سکتے تو میرے ساتھ شادی کرنے کا خواب بھی دل سے نکال دو‘‘ ۔
روبی کی باتوں سے شہزاد کے تن بدن میں کانٹے سے چبھنے لگے،لیکن وہ خاموش رہا۔ روبی کو پورا یقین تھا کہ اس کے بے پناہ پیار سے مجبور ہو کر شہزاد جلد ہی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور شہزاد اپنے والدین کی خوشی کے لئے جدائی کا گھونٹ پینے پر آمادہ ہو گیا ۔
’’شہزاد۔۔۔۔۔۔ وقت کیا ہو گیا ؟‘‘
’’وقت ۔۔۔۔۔۔او مائی گارڈ ،آٹھ بج چکے ہیں‘‘۔
سلیم کی ا ٓواز سے شہزاد نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ سمیر ۔۔۔۔۔۔ کھانا تیار ہوگیا‘‘ ۔
’’جی صاحب ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ تیار ہے‘‘ ۔
’’تم ایسا کرو ایک برتن میں سالن ڈال کر ان کو دے آئو ،سلیم بھی تمہارے ساتھ جائے گا ‘‘۔
شہزاد نے گلابو کے گھر پکا ہوا گوشت سبزی وغیرہ بھیجی ۔واپس آکر وہ کھانا کھانے بیٹھ گئے تو شہزاد نے سلیم سے پوچھا ۔
’’کون تھا وہاں ؟‘‘
’’پوری فیملی تھی ،ساتھ میں بکریاں ،گائیں اور بچھڑے بھی تھے‘‘۔
سلیم نے مذاق کے انداز میں کہا ۔
’’اچھا ۔۔۔۔۔۔ شہزاد نے سر کھجاتے ہوئے کہا‘‘ ۔
’’ اور وہ بھی تھی۔۔۔۔۔‘‘۔
’’کون ؟‘‘
شہزاد بے تابی سے پوچھا ۔
’’گلابو ،ناول پڑھ رہی تھی‘‘۔
گلابو کا نام سنتے ہی شہزاد کا اداس چہرہ کھل اٹھا اور وہ کھا نا کھانے لگے ۔
صبح جلدی اٹھ کر شہزاد نے پاس بہہ رہی ندی پر نہایا اور کمبل اوڑھ کر خیمے کے باہر دھوپ سینگنے بیٹھا ہی تھا کہ اس کی نظر گلابو پر پڑی جو ایک برتن لئے اسی کی طرف آرہی تھی ۔گلابو کو دیکھ کر اس کا دل باغ باغ ہو نے لگا ۔
’’صاحب ۔۔۔۔ مائی نے چائے کے لئے دودھ بھیجا ہے‘‘ ۔
اس نے شرماتے ہوئے سلام کی اور برتن اس کے سامنے رکھتے ہوئے متبسم ہونٹوں سے کہا ۔
’’جی شکریہ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے تکلیف کیوں کی ؟‘‘
شہزاد نے کہا لیکن گلابو کچھ نہیں بولی اور واپس جانے کے لئے مڑی ۔
’’سنیے ،کل جو ناول آپ پڑ ھ رہی تھیں ،مجھے پڑھنے کے لئے دیں صبح واپس کروں گا‘‘ ۔
وہ ہرنی کی طرح دوڑتی ہوئی گئی اور ناول لے کرآگئی ،بنا کچھ کہے ناول شہزاد کو تھمایا اور واپس چلی گئی ، شہزاد اس کو تب تک دیکھتا رہا جب تک نہ وہ اس کی نظروں کی اوجھل ہوگئی ۔
’باغوان‘،ناول کا عنوان دیکھ کر شہزاد چونک گیا اور اسے امتابھ بچن کی فلم ’باغبان‘ یاد آگئی ۔
’’کیوں جناب ۔۔۔۔۔۔ صبح صبح یہ کتاب کہاں سے آگئی‘‘ ۔
شہزاد ناول پڑھنے میں مصروف تھا توسلیم نے چائے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔
’’گلابو نے دی ہے‘‘ ۔
شہزاد نے خوشی بھرے لہجے میں کہا تو سلیم کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی لیکن وہ خاموش ہی رہا ۔کچھ دیر بعد سلیم گھومنے کے لئے نکلا جب کہ شہزاد ناول پڑھنے میں مصروف ہو گیا ۔دوپہر سے پہلے سلیم واپس آیا تو شہزاد نے ناول نیچے رکھا اور جمائی لیتے ہوئے ایک ادا سے بولا ۔
’’کافی دلچسپ اور با مقصد ناول ہے‘‘ ۔
’’گلابو سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جب دیکھو ۔۔۔۔ بک بک کر تے ہو‘‘ ۔
شہزاد نے چڑ کر کہا ۔
’’ دیکھو شہزاد ۔۔۔۔۔۔ تم میرے بچپن کے دوست ہو اور میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں ۔میں کل ہی سمجھ گیا کہ پہلی ہی نظر میں تم گلا بو پر فدا ہوگئے ،لیکن کیا تم اس خانہ بدوش لڑکی سے شادی کر سکتے ہو ؟‘‘
’’کر تو سکتا ہوں ،لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
لیکن کیا ۔۔۔۔۔۔؟
’’تم تو جانتے ہی ہو کہ میں شادی اسی لڑکی سے کروں گا جو امی ،ابو کی دل جان سے خدمت کرے‘‘ ۔
’’تو پھر گلا بو سے بہتر لڑکی مل ہی نہیں سکتی‘‘ ۔
’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو ؟‘‘
’’اسے دیکھ کر ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک با حیا اور وفادار لڑکی ہے اور یہ ناول جو تم نے پڑھا اس کا تھیم کیا ہے ؟‘‘
’’یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے گھر کو جنت بنانا چاہتی ہے‘‘ ۔
’’گلابو بھی ایک ایسے ہی جنت نما گھر کے خواب بنتی ہے‘‘ ۔
’’تمہیں کیسے معلوم ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’میں صبح سے گلابو کے ڈھیرے پر ہی تھا ،میں نے اسے تمہاری ساری کہانی سنائی اور اگر تم چاہو تو میں اس کے والدین سے بات کرکے بات آگے بھی بڑھا سکتا ہوں ‘‘۔
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں بھی گلا بو سے ایک بار ملنا چاہتا ہوں ۔
اسی لمحے ان کے ملازم نے کھانا لگایا اور کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں گلا بو کے ڈھیرے پر پہنچ گئے، جہاں شہزاد نے گلابو سے کچھ دیر باتیں کیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے پیار کا اظہار بھی کیا جب کہ گلابو کی آنکھوں کی وادی میں بھی اسے رضامندی کے جگنو نظر آئے۔
’’ہم تو ٹھہرے غریب خانہ بدوش لوگ ،ہمارا بڑے لوگوں کے ساتھ کیا مقابلہ‘‘ ۔
باتوں کے دوران گلابو نے اچانک ایک ادا سے کہا اورگردن کو خم دے کر تھوڑی دوری پر واقع دوسرے ڈھوکے کی طرف جاتے ہوئے ماں کو آوازدی ۔
’’مائی ۔۔۔۔۔۔میں شیرو کے ڈھیرے جاکر چاچی کو دوائی کھلائونگی‘‘ ۔
’’جا پُتر ۔۔۔۔۔۔ انہیں چائے بھی بنا کے دینا‘‘ ۔
’’ ماں جی۔۔۔۔۔۔وہاں کون رہتا ہے ؟‘‘
سلیم نے گلابو کی ماں سے پوچھا ۔
’’پتر ۔۔۔۔۔۔ اپنی ہی برادری کے لوگ ہیں،ان کا بیٹا شیرومال مویشیوں کے ساتھ ہے،ایک حادثے میں شیرو کی ماں کی ٹانگیں بے کار ہوگئیں ہیں اور وہ چل پھر نہیں سکتی سو گلابو ہی ان کا خیال رکھتی ہے‘‘ ۔
اس نے کہا اوروہ دونوں بھی اپنے خیمے میں جاکر صلاح مشورہ کرنے لگے ۔شام کو وہ دونوں گلابو کے ڈھیرے پہنچے اور سلیم نے بغیر کسی تمہید کے اس کے والدین سے گلابو کا ہاتھ مانگا ،جنہیں پہلے اس کی بات پر یقین نہیں آیا پھر اس کا باپ گویا ہوا ۔
’’ہمیں سوچنے کے لئے کچھ وقت چاہئے ‘‘۔
’’دیکھئے اگر آپ ذرا جلدی کریں تو مہربانی ہوگی کیوں کہ ہم زیادہ دن یہاں رک نہیں سکتے‘‘ ۔
سلیم نے انتہائی عاجزی سے کہا تب جاکر اس نے دوسرے دن شام کو آنے کے لئے کہا ۔دوسرے دن صبح ہی شہزاد سے کہہ کر سلیم ایک میل کی دوری پر واقع دوسری پہاڑی کی طرف ،جہاں فون کے سگنل آرہے تھے ،کی طرف گیا اور فون کر کے شہزاد کے والدین کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا ،جو سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔واپس آتے ہوئے سلیم کا سامنا گلابو سے ہوا ۔
’’گلابو ۔۔۔۔۔۔ کہاں جارہی ہوں ؟‘‘
’’ ایک فون کرنا ہے‘‘ ۔
اس نے روکھے سے لہجے میں کہا اور چلی گئی ۔پورا دن شہزاد گلابو کے ڈھیرے کی طرف کنکھیوں سے دیکھتا رہا جہاں اس کو بیچ بیچ میں گلابو کے حسن لازوال کی جھلک نصیب ہوتی رہی ۔شام کو سلیم ایک نوکرکے ہمراہ ان کے ڈھیرے پہنچا جہاں گلابو کے والدین کے علاوہ ان کے برادری کے چند لوگ بھی موجود تھے۔ جنہوں نے شادی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن سلیم نے بڑے ہی دانشمندانہ انداز میں نہ صرف ان کے تحفظات کو دور کیا بلکہ انہیں اس بات پر بھی راضی کرلیا کہ گلابو،اس کے والدین اور خاندان کے کچھ لوگ کل ہمارے ساتھ ہی شہر جائیں گے ،جہاں ہم شادی کی تیاریاں کرکے کچھ دن بعد شادی انجام دیں گے۔
رات بھر خوشی کے مارے شہزاد اور سلیم سو نہ سکے اور خوش گپیوں میں مصروف رہے ،شہزاد کے نفسیاتی زیر وبم میں عجیب سا سرور چھایا رہا۔صبح بوریا بسترہ سمیٹ کرفرط نشاط و انبساط میں جھومتے ہوئے وہ مقررہ وقت پر گلابو کے ڈھیرے پہنچے ،گلابو کے والدین اور خاندان کے کچھ لوگ جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے لیکن گلابو کئی نظر نہیں آرہی تھی ۔
’’ بابا ۔۔۔۔۔ سفر لمبا ہے ، اب ہمیں چلنا چاہیے ‘‘۔
سلیم نے گلابو کے باپ سے کہا ۔
’’ہم تو بالکل تیار ہیں لیکن گلابو اندر تیار ہورہی ہے‘‘ ۔
’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ ۔
کہہ کر وہ نیچے بیٹھ کر گلابو کا انتظار کرنے لگے ۔آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی جب گلابو باہر نہیں آئی تو اس کے باپ نے دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کئی بار گلابو کو آواز دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔
’’گلابو ۔۔۔۔۔۔ دیکھ میں آگیا گلابو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اسی لمحے گھوڑے پر سوار ایک گھبرو جوان چلاتے ہوئے آگیا ۔
گلابوبھی ایک دم دروازہ کھول کر باہر نکلی اور گھوڑ سوار کے پاس پہنچ گئی۔ اس کی ساحر آنکھوں میں آنسئوں کے ڈورے تیر رہے تھے ۔
’’گلابو ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا حرکت ہے ؟‘‘
اس کے باپ نے خشمناک نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔
’’با با ۔۔۔۔۔ غصہ کیوں کر رہے ہو ؟۔ گلابو میری منگیتر ہے‘‘۔
شیرو نے نرم لہجے میں کہا ۔
’’گلابو ۔۔۔۔۔۔ تم پڑھائی والی کُڑ ی ہو اور میں تمہاری شادی ہر گز اس گنوار شیرو سے نہیں کروں گا۔ شہر جا کر عیش وآرام سے زندگی گز ارو گی‘‘
با با نے شیروکی بات پر دھیان نہ دیتے ہوئے کہا ۔
’’بابا ۔۔۔۔۔۔ مجھے شادی کی پرواہ نہیںہے ،لیکن میںاپنے عیش وآرام کے لئے شیرو کی اپاہج مائی اوربوڑھے باباکو چھوڑ کر شہر نہیں جا سکتی ۔
کیوں نہیں جا سکتی ۔۔۔۔۔۔؟
’’کیوں کہ وہ بے سہارا ہو جائیں گے اور میرا دل اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس میں اتنا بھاری بوجھ سما سکے‘‘ ۔
’’ مجھ سے زبان لڑاتی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’بس بابا۔۔۔۔۔ اگر مجھے اس دل والی گلابو کاپیار نصیب ہوتا سے تو میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا لیکن اس کے پیار کا رنگ ہی نرالا ہے اورمیں اپنی خوشیوں کے لئے شیرو کے گھر کی خوشیاں چھین نہیں سکتا ، چلو سلیم ۔۔۔۔۔‘‘۔
شہزاد نے جذباتی انداز میںناول گلابو کو تھماتے ہوئے کہا اور وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح بھاری قدموں سے وہاں سے نکل گیا۔
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ193502 کشمیر
ای میل؛ [email protected]
موبائل نمبر؛9906526432