فہم و فراست
ہلال بخاری
حال ہی میں پہلگام، جموں و کشمیر میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ بلاشبہ ہماری سرزمین پر ہونے والے بدترین جرائم میں سے ایک ہے، جس کی ہر ذی شعور انسان کو بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ آج کے جدید دور میں کوئی باشعور شخص ایسے وحشیانہ فعل کا جواز پیش نہیں کر سکتا۔معصوم انسانوں کا قتل ہر حال میں ناقابلِ قبول ہے اور ہونا چاہیے۔
یہ فطری بات ہے کہ جب لوگ اپنے پیاروں کو ایسے ظالمانہ انداز میں کھو دیتے ہیں تو وہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اپنے عزیزوں کا غم ان اذیتوں میں سے ہے جو برسوں تک دل و دماغ کو جھنجھوڑتی رہتی ہیںاور ہم سے بہتر کون جانتا ہے یہ دُکھ کیا ہوتا ہے؟اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے سانحات کے بعد قومیں دشمنوں کے خلاف متحد ہو جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا نہیں ہورہا ہے۔ اس المناک و درد ناک واقعے کے بعد بجائے اتحاد کے ہمارے یہاں قوم مزید تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بعض گروہوں اور نفرت پھیلانے والوں نے ملک کے کئی حصوں میں بے قصور کشمیری طلبہ اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ردعمل نہ صرف غیرمنطقی ہے بلکہ انتہائی افسوسناک بھی ہے۔دہشت گردی کرنے والے اور ان کے منصوبہ ساز شاید یہی چاہتے تھے اور ہم اُن کے منصوبے کو حقیقت میں بدل دیں،جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ثابت ہو رہے ہیں۔ ہم اپنی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے اپنی ہی قوموں پر الزام لگا کر انہیں سزا دینے لگتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہے۔جو ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کی حمایت کرتے ہیں، انہیں اس طرح کی حماقتوں سے باز آنا چاہیے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھی غور کرے کہ انتہا پسندی کی پشت پناہی نے اُسے خود کتنی تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے اور کس حال تل پہنچایا ہے۔اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ ہم ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں۔ ہمیں جذبات کی آگ کو مزید ہوا دینے سے بچنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے جذبات کو بے قابو کر بیٹھے تو اس کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ بے سبب ہر کسی کے ساتھ نفرت و تعصب نہ کرے۔کیونکہ نفرت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کی تمام تعمیری صلاحیتوں کو ختم کردیتا ہے۔گویا محبت کی طرح نفرت بھی اندھی ہوتی ہے۔بے شک نفرت ہی دو جوہری طاقتوں کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتی ہے، جس کے نتائج پورے خطے کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بھارت اور پاکستان جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جوہری جنگ تو دور کی بات، آج کے جدید ہتھیاروں کے دور میں روایتی جنگ بھی ہولناک تباہی لا سکتی ہے۔جنگ کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ درحقیقت، امن قائم کرنے اور عقل و شعور کو موقع دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔ جنگ صرف مکمل تباہی لاتی ہے۔
فرض کریں، بھارت پاکستان پر ایٹمی حملہ کرتا ہے اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے، حتیٰ کہ پاکستان کو جواب دینے کا موقع بھی نہ ملے۔ لیکن اس انتہائی غیر حقیقی منظرنامے میں بھی ایٹمی حملے کے اثرات پورے خطے کو لپیٹ میں لے لیں گے۔ جو لوگ بچ جائیں گے، وہ بھی اپنی زندگی پر لعنت بھیجیں گے۔ان حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم نہ جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ نفرت کے، کیونکہ نفرت ہمیں خود ہماری تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔
کئی سیاستدان جذباتی تقریریں کرتے ہیں تاکہ عوام کو مطمئن کر سکیں۔ وہ لمحوں میں دشمن کو مٹانے کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے ہر شہری کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرائے۔ ہمیں پورا حق حاصل ہے کہ ہم اپنی حکومت سے پوچھیں کہ وہ بار بار ہماری حفاظت میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟سماجی معاہدے کا خلاصہ یہی ہے کہ شہری حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں تاکہ حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے۔جہاں قوم اور فرد کے درمیان مضبوط رشتہ ہوتا ہے، وہاں دونوں ایک دوسرے کے مفادات کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ رشتہ کمزور ہوتا ہے، وہاں کم از کم شہری کو یہ امید ہوتی ہے کہ حکومت اس کی جان کا تحفظ کرے گی۔ اگر ریاست شہری کی جان کی حفاظت میں ناکام ہو جائے، تو پھر ریاست اور انارکی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ہمیں دوسروں کو کوسنے سے پہلے اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اپنی حکومتوں کو جوابدہ بنانا چاہیے۔
ترقی پذیر ممالک کی بیشتر حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جذبات کا سہارا لیتی ہیں اور مذہب کو عوام کو بہکانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بار بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ عقل و شعور کا استعمال نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔ وہ اس سانپ سے ڈسے ہوئے شخص کی طرح ہوتے ہیں جو زہر کا علاج کرنے کے بجائے سانپ کے پیچھے بھاگتا ہے، یہاں تک کہ زہر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنگ نہیں تو ان مجرموں کو کیسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے؟اس کے اور بھی راستے ہیں۔ ہمیں غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کرنی ہوں گی تاکہ اصل مجرموں کا پتہ لگایا جا سکے اور انہیں سزا دی جا سکے۔ لیکن اس کے لیے دونوں ممالک کو خلوصِ نیت سے تعاون کرنا ہوگا اور اپنے تکبر سے باہر نکلنا ہوگا۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اور صرف مجرموں کو سزا دے، نہ کہ بے گناہوں کو۔
انصاف کا بول بالا ضروری ہے، کیونکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی ناانصافی پوری دنیا کے انصاف کے لیے خطرہ ہے۔ظاہر ہے جب محبت اپنی خاصیت بدلتی ہے تو نہایت تلخ نفرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے،زندگی کو بے قاعدہ بناتی ہے اور صورت حال خار دار جھاڑی کی مانند بنا دیتی ہے۔ اس لئے انسان پر لازم ہے کہ وہ بُرائیوں سے نفرت کرے،نہ کہ انسانوں سے۔اور یاد رکھے کہ نفرت ،نفرت سے نہیں مٹتی ،محبت سے ختم ہوجاتی ہے۔ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ برصغیر کے دو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات عرصۂ دراز سے کشیدہ چلے آرہے ہیں جب کہ پہلگام کے حالیہ دہشت گردانہ واقعہ نے حالات کو انتہائی سنگین مقام تک پہنچا دیا ہے۔کب کیا ہوگا قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے،جبکہ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیںکہ دونوں ممالک کے نیوز چینلز زنفرت اور جنگی جنون کو فروغ دینے والے بڑے ذرائع بن چکے ہیں۔ کچھ نیوز اینکرز ذاتی مفاد کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔عوام کو ان سیاستدانوں اور میڈیا شخصیات سے ہوشیار رہنا ہوگا جو اپنی مفاد پرستی کے لیے نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔آخر میں ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ نفرت نہیں بلکہ صرف انصاف ہی وہ راستہ ہے جو امن کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے درمیان اتحاد اور اتفاق قائم کرکے دہشتگردی کا مقابلہ کریںاور متحد ہوکر دہشت گردوں کو دھول چٹائیں اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائیں۔