مسعود محبوب خان
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے اور انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ خود احتسابی، اصلاحِ نفس اور توبہ جیسے اصول اسی نظام کا حصّہ ہیں، جو فرد اور معاشرے کو اخلاقی و روحانی ترقی کی طرف گامزن کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بارہا ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے، نیکیوں کو بڑھانے اور گناہوں سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ تاکہ ہم اپنی اصلاح کر سکیں اور اللہ کی رضا کے مستحق بن سکیں۔ یہی روحانی بالیدگی کا راز اور کامیابی کی کنجی ہے۔
خود احتسابی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو اپنی اصلاح اور بہتری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خود احتسابی کو نہ صرف نجات کا ذریعہ بلکہ روحانی ترقی اور تقویٰ کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر شخص کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر سکے اور نیکی کے راستے پر گامزن ہو۔ سورۃ الحشر کی آیت ایک نہایت اہم پیغام دیتی ہے، جو خود احتسابی، تقویٰ اور آخرت کی تیاری پر زور دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو دو مرتبہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا: ’’اتقوا اللہ‘‘ یعنی اللہ سے ڈرو، جو کہ عمومی حکم ہے کہ ہر کام اللہ کے خوف اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ ’’وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ‘‘ یعنی ہر شخص یہ دیکھے کہ وہ اپنی آخرت کے لیے کیا بھیج رہا ہے۔ یہ آیت ہمیں ترغیب دیتی ہے کہ ہم صرف دنیاوی زندگی میں ہی نہ مگن رہیں،بلکہ اپنی آخرت کی فکر کریں، کیونکہ ہماری نیکیاں اور برائیاں ہی وہاں کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بنیں گی۔
سورۃ الزلزال (99:7-8) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب ہوگا، اس لیے ضروری ہے کہ انسان دنیا میں ہی اپنا جائزہ لے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرے۔
نبی اکرمؐ نے بھی خود احتسابی کی تلقین فرمائی ہے، حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اپنے حساب سے پہلے اپنا محاسبہ کر لو اور اپنے اعمال کو تولنے سے پہلے خود ہی ان کا وزن کر لو، کیونکہ کل قیامت کے دن تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور نادان وہ ہے جو خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ سے امیدیں لگائے رکھے”۔‘‘(مسند احمد)۔
اصلاح نفس، جب انسان اپنی غلطیوں پر غور کرتا ہے، تو وہ انہیں درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تقویٰ میں اضافہ، خود احتسابی کا عمل اللہ کے خوف کو بڑھاتا ہے اور انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ دنیا و آخرت میں کامیابی، جو شخص اپنا محاسبہ خود کرتا ہے، وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اجر پاتا ہے۔ خود احتسابی ہر مسلمان کے لیے ایک لازمی عمل ہے جو اسے اللہ کے قریب کرتا ہے اور کامیابی کی راہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اپنی اصلاح کریں تو نہ صرف ہماری انفرادی زندگی بہتر ہوگی بلکہ ایک اچھا معاشرہ بھی تشکیل پائے گا۔نبی کریمؐ کی احادیث خود احتسابی کے اصول کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔ خود احتسابی کا عمل ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ دکھاتی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’اپنے اعمال کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ) یعنی جو شخص دنیا میں خود اپنا احتساب کرتا ہے، اس کا آخرت میں حساب آسان ہوگا۔ حدیث ِ مبارکہ کے مطابق، ’’آخرت کے معاملے میں گھڑی بھر غور و فکر کرنا 60 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘ (کنز العمال)۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ محض عبادات ہی کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال پر غور و فکر بھی نہایت ضروری ہے تاکہ انسان غلطیوں کی اصلاح کر سکے۔
باطنی اصلاح، خود احتسابی صرف ظاہری اعمال تک محدود نہیں بلکہ نیتوں، خیالات اور اخلاقیات کو بھی شامل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اعمال کے ساتھ نیتوں کو بھی دیکھتا ہے، اس لئے ہمیں اپنے دل اور ذہن کو بھی پاک صاف رکھنا چاہیے۔ روزانہ اپنا جائزہ لیں، ہر رات سوچیں کہ دن بھر میں کیا اچھے اور برے کام کیے؟ نیت کی اصلاح کریں، ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کریں۔وقت کا صحیح استعمال کریں، فضول کاموں سے بچیں اور آخرت کی تیاری میں وقت صرف کریں۔ حقوق العباد کا خیال رکھیں، دوسروں کے حقوق ادا کریں اور اپنی اخلاقی حالت بہتر بنائیں۔ خود احتسابی ایک مومن کی پہچان ہے۔ جو شخص اپنی زندگی میں اس عادت کو اپناتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بے حد تاکید کی گئی ہے اور یہی کامیابی کا راز ہے۔قرآنِ کریم کی آیات انسان کی فطرت، اس کے اختیار اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو واضح کرتی ہیں۔ سورۃ الشمس کی آیات 7-8 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’نفس کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ یہ آیات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر نیکی اور بدی کو پہچاننے کی صلاحیت رکھی ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے نیکی کے راستے کو اپناتا ہے یا بدی کی طرف جھک جاتا ہے۔
خود احتسابی کی ایک اہم علامت ’’توبہ‘‘ ہے، جو انسان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور اپنی اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(البقرہ: 222)۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی خطاؤں کو پہچان کر ان سے رجوع کرتے ہیں اور اپنے باطن اور ظاہر کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ توبہ کے فوائد یہ ہیں کہ اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے (البقرہ: 222)۔ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے (الفرقان: 70)۔ دل کی طہارت اور سکون کا باعث بنتی ہے۔ انسان کو گناہوں سے دور رکھنے میں مدد دیتی ہے۔اس لئے توبہ اور خود احتسابی کو زندگی کا حصّہ بنائیں۔ روزانہ اپنی نیتوں اور اعمال کا جائزہ لیں۔ اگر
کوئی غلطی ہو جائے تو فوراً اللہ سے معافی مانگیں۔ توبہ صرف زبان سے نہ کریں بلکہ عمل میں بہتری لائیں۔ بُرے خیالات اوربُرے اعمال سے بچنے کے لیے اللہ کی مدد مانگیں۔ خود احتسابی اور توبہ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہیں۔ قرآن و حدیث ہمیں سکھاتے ہیں کہ جو شخص اپنی غلطیوں کو پہچان کر توبہ کرتا ہے اور اپنے کردار کو سنوارتا ہے، وہی اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر لمحے اپنے نفس کا جائزہ لیں اور اللہ کی رضا کے لیے اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔(جاری)
رابطہ۔9422724040
[email protected]