Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

مجھےافسانہ لکھنے کی تحریک کیسے ملی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 2, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
صبح سویرے دروازے پر دستک ہوئی۔میں باہر نکلا تو سامنے جناب عشرت کشمیری صاحب کھڑے تھے۔ میں نے بڑے ادب واحترام کے ساتھ سلام کرنے کے بعد انھیں اندر آنے کو کہا۔میرے اصرار کرنے پر وہ اندر آنے کے لیے مان گئے۔دراصل ان کی اہلیہ کی طبعیت ناساز تھی۔اسی لیے وہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے اندر آنا اس لیے بھی مناسب سمجھا کیونکہ میں نے ابھی آدھی ہی شیو کی تھی اور چہرے پر اب بھی صابن لگا ہوا تھا۔میںنےجلدی جلدی شیو ختم  کی اور منہ دھو کر کپڑے بدلنے کے لیے اندر چلا گیا۔اسی دوران عشرت صاحب کی نظر میرے شیونگ سیٹ میں موجود ایک مختصر تحریر پر پڑی جس پر میں نے ایک افسانے کا خاکہ لکھا تھا۔میں جب کمرے سے واپس آیا تو عشرت صاحب بولے
   "میاں آپ کا تخیل تو بہت اچھا ہے۔آپ باقاعدگی سے لکھتے کیوں نہیں۔میں نے آپ کی اجازت کے بغیر ہی آپ کا لکھا ہوا افسانہ کا خاکہ پڑھا"
  میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔مگر وہ لگاتار تعریف کرتے گئے۔مختصر یہ کہ انھوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور اسی طرح سے لکھتے رہنے کی تلقین کی اور میں یہ سوچنے لگا کہ کہاں عشرت صاحب اور کہاں میں۔بات آئی گئی ہوئی۔تقریبا"دس دن کے بعد مجھے ان کا خط ملا؛جس میں لکھا تھا
    "فلاں تاریخ کا "سندیش"اخبار پڑھ لینا۔اس میں آپ کا افسانہ چھپا ہے"میں حیران ہوا کہ کونسا افسانہ۔کیسا افسانہ کیونکہ میں نے کوئی افسانہ وہاں بھیجا ہی نہیں تھا۔خیر بازار سے اخبار منگوایا۔دیکھ کر حیرت ہوئی ؛عشرت صاحب نے خود افسانہ لکھ کر میرے نام سے چھاپ لیا تھا تاکہ مجھ میں افسانہ لکھنے کی تحریک پیدا ہو۔یہ عشرت صاحب کا بڑا پن تھا اور اردو دوستی کا جذبہ تھا؛ جس کے تحت وہ نئے لکھنے والوں کو تحریک دیتے تھے۔وہ اخبار جس کسی نے بھی پڑھا؛حیران رہ گئے۔آپس میں حیرت کا اظہار کرنے لگے کہ بھئی کیا ڈاکٹر صاحب بھی افسانہ لکھتے ہیں۔کسی نے کہا کہ  وہ تو چھپے رستم نکلے۔ایک دوست نے تو کچھ زیادہ ہی مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے مجھے افسانہ نگار قراردیا اور کہا کہ مجھے علم ہے وہ تو بڑی مدت سے لکھتے آرہے ہیں۔
  سچ تو یہ ہے کہ میں نے قلم کو اس مقصد کے لیے کبھی استعمال ہی نہیں کیا ہے۔یہ روداد لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو نئے لکھنے والوں کی دل شکنی کرتے ہیں۔حضرات ؛ادب سے میری وابستگی کا یہ ایک رخ ہے۔اب اس کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کریں۔عشرت صاحب کو اللہ غریق رحمت کرے۔ان کی وجہ سے مجھے لکھنے کی تھوڑی سی تحریک ملی اور سال میں ایک آدھ بارکچھ نہ کچھ لکھتا۔پھر اس کی اصلاح کے لیے پڑھے لکھے ادیب حضرات کی خوشامد کرتا کہ جناب میری اس حقیر سی تحریر کی اصلاح کریں۔چناں چہ بعض اوقات ان سے مختلف قسم کے تاثرات بھی سننے کو ملتے۔ہربار سوچتا کہ یہ میرے بس کا کامنہیں ہے۔بس ڈاکٹری تک ہی اپنا سروکار رکھوں۔لیکن یہ شوق کب آرام سے بیھٹنے دیتا ہے۔اب میں اپنی تخلیقات کو خود ہی پڑھتا تھا یا زیادہ سے زیادہ اپنی اہلیہ کو سناتا۔وہ اس میں غلطیاں نکالتی اور بڑی دھیمی آواز میںکہ جس میں طنزبھی شامل ہوتا؛کہتی
   "اچھا لکھا ہے"کہہ کر حوصلہ افزائی کرتی اور ساتھ ہی کہہ دیتی کہ محنت اور اصلاح کی ضرورت ہے۔بہتر ہے کسی ادیب سے رابطہ قائم کرکے اصلاح لیا کریں"
  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں تھوڑا بہت لکھتا رہا۔ایک دو افسانے "شیرازہ" میں چھپے۔"روبی"میں بھی شائع ہوئے۔کچھ کہانیاں"العطش"ہند سماچار"انجمن کشتواڑ"اور"بزم بھدرواہ"کی ذینت بنیں۔ڈوڈہ میں اسیر کشتواڑی صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے عشرت صاحب کی طرح کافی عزت افزائی کی۔انھوں نے ادبا وشعرا اور اپنے ادب نواز دوستوںکی محفلوں میں میرا کافی ذکر خیر کیا۔اپنے مضامین میں تفصیل سے میرا ذکر کرکے اپنی کتابوںمیں شائع کیا۔مشتاق فریدی صاحب نے بھی ضرورت سے زیادہ میری تخلیقات کی تعریف کی۔شاد فریدآبادی نے میرے افسانوں کے مرکزی خیال کو کافی سراہا اور کہیں کہیں نوک پلک بھی درست کی۔انھوں نے "کشمیر اعظمیٰ"کے مدیر سے بھی میرے افسانوں کے معیار کے متعلق بات کی۔چناں چہ میرے متعدد افسانے"کشمیر عظمیٰ"اور روزنامہ"اڑان"میںبھی شائع ہوئے۔غلام نبی خیال نے میرے ایک افسانے کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اپنے انگریزی اخبار"وائس آف کشمیر"voice of kashmir"میں شائع کرکے میری عزت افزائی کی۔کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک افسانہ"ہاتھ کی لکیر"اپنے ایک ادیب دوست کو اصلاح کی غرض سے بھیجا مگر نہ جانے میرا یہ افسانہ کس طرح ان کے کسی رشتہ دار کے ہاتھ لگ گیا یا انھوں نے ہی اسے لاپرواہی سے ردی کی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور اس شخص نے اسے اٹھا لیا اور اسے کام کی چیز سمجھ کر اپنے مصرف میں لایا۔ایک دن میری حیرانگی کی حد ہوگئی۔جب میں اسی اپنے افسانے کو کسی اور کے نام سے کسی میگزین میں پڑھا۔یہ دیکھ کر میرا پارہ چڑھ گیا۔میں نے آو دیکھا نہ تاو فورا"فون پر اپنے اس ادیب دوست سے رابطہ قائم کرکے زبردست گلہ کیا۔ساتھ  ہی ایک مفصل خط بھی ارسال کیا۔انھوں نے نہ ہی فون کیا اور نہ ہی اپنی غلطی ہی کو تسلیم کیا بلکہ خاموشی اختیار کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ایک دن مجھ سے ملنے میرے گھر پر آئے۔مگر اس بات کا ذکر تک نہ کیا۔البتہ مجھے ان کی باتوں سے یوں لگ رہاتھا کہ انھیں غلطی کا احساس ہے۔کیونکہ میں نے خط میں پوری تفصیل لکھی تھی اور اس کی فوٹو کاپی کا بھی ذکر کیا تھا۔بہرحال مجھے اس خیال سے یک گونہ طمانیت ہوئی کہ میری تخلیقات اب سرقے کے لائق ہوگئی ہیں۔ورنہ کہاں میں اور کہاں عشرت صاحب کا اپنے افسانے کو میرے نام سے چھپواکر مجھے لکھنے کی تحریک دینا یا دوسرے دوستوں سے حوصلہ افزائی پاکر مسلسل افسانے تخلیق کرنے کا سلسلہ برقرار رکھنااور کہاں یہ کہ کسی صاحب کا میرے افسانے کو اپنے نام سے چھپوانا۔اگر غور کیا جائے تو بات ایک ہی ہے۔بس افسانہ لکھنے کا شوق مجھے بھی ہے اور اسے بھی، جس نے بددیانتی کرکے میرے افسانے کا سرقہ کیا۔اس کے ایسا کرنے سے اگر اسے افسانہ لکھنے کی تحریک ملی ہو تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔بس اسی طرح سے جس طرح سے عشرت صاحب کو میرے نام سے افسانہ لکھ کر اسے شائع کرواکے خوشی ہوئی ہوگی۔میں سوچتا ہوں کہ اگر آج عشرت کشمیری صاحب زندہ ہوتے تو اخبارات ورسائل میں چپھے میرے افسانے پڑھ کر انھیں بے حدخوشی ہوتی۔رہا چوری کا سوال تو یہ ادب میں بہت پرانی روایت ہے۔بھلے ہی یہ چوری میرے افسانہ"ہاتھ کی لکیر"ہی کی کیوں نہ ہو*
�����
موبائل نمبر؛8825051001
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سرنکوٹ پونچھ میں ملی ٹینوں کی کمیں گاہ سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد : پولیس
تازہ ترین
کشمیر: گرمی اور خشک سالی کے سبب پھلوں کی پیداوار میں بھاری کمی کا اندیشہ
تازہ ترین
گرمائی تعطیلات میں توسیع کا فیصلہ کل لیا جائے گا : سکینہ یتو
تازہ ترین
ٹرمپ کے ٹیرف کے سامنے مودی کا جھکنا یقینی: راہل
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?