ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
سبکدوش ہوئے آفیسروں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر اتوار کو باری باری کسی نہ کسی آفیسر کے گھر جاکر ملاقات کیا کریں گے اور اپنے گزرے ہوئے ماہ و سال اور سبکدوشی کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر تبادلہ خیال کیا کریں گے ۔
اس طرح سے وہ ایک دوسرے کے مسائل پر گفتگو بھی کریں گے اور ان مسائل کا حل بھی تلاش کرینگے ۔
اس ملاقات کے لئے سب سے پہلی بیٹھک جناب عزیز الدین کے گھر پر ہوئی ۔جناب عزیز الدین تقریباً پندرہ سال پہلے سبکدوش ہوئے تھے ۔
یہاں پر ہر ایک نے اپنا اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کیا ۔ ہر ایک نے تقریباً یہی مشترک بات کہی کہ جن ملازمین نے ان کے ساتھ کام کیا تھا آج وہ کہیں پر دیکھتے ہیں تو آنکھ چراتے ہیں ۔اور اگر آمنا سامنا ہوا تو دعا سلام تو درکنار وہ آنکھ تک نہیں ملاتے ۔
رشتہ دار بھی گلہ کرتے ہیں کہ آپ نے ان کے بیٹے کو اچھی جگہ تبدیل نہیں کیا ۔یا ان کے بیٹے کو انٹرویو میں اچھے نمبر نہیں دئیے یا ان کے داماد کو ڈپیوٹیشن پر فلاں شہر نہیں بھیجا ۔ تقریباً ہر ایک کا یہی تجزیہ تھا مگر عزیز الدین صاحب کی روداد سن کر ہر ایک پریشان ہوا۔
ان کی اہلیہ کافی عرصہ سے بیمار رہنے کے بعد رحلت فرما گئیں تھیں۔ پھر گھر کا کام کاج کرنے کے لئے بیرون ریاست کا ایک لڑکا رکھنا پڑا، جسے معقول تنخواہ دی جاتی تھی ۔وہ ان کے ہی گھر میں رہتا تھا ۔ لیکن اس کی چھٹی کرنا پڑی کیونکہ شہر میں ایسے دو تین واقعات رونما ہوئے کہ گھریلو نوکر نے مالک مکان کو اکیلا پاکر اس کا گلہ گھونٹ کر قتل کردیا اور گھر میں موجود ساری رقم اور زیورات لے کے بھاگ گیا ۔پولیس نے تو کافی کوشش کے بعد انہیں دبوچ لیا ۔ سارا چوری شدہ مال ضبط کیا گیا لیکن جن کا قتل ہوا وہ تو واپس نہیں آئے ۔اسی خدشے کے مد نظر اس نے اپنے گھریلو نوکر کی چھٹی کر دی ۔ اس کی جگہ پر ایک ادھیڑ عمر والی خاتون کو صاف صفائی کرنے اور کھانا بنانے کے لئے رکھا ۔
دونوں اوقات خود ہی کھانا گرم کر کے کھاتا تھا اور خود ہی بازار سے سودا سلف بھی لاتا تھا ۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ بازار سے ایک ہاتھ میں سبزی اور دوسرے ہاتھ میں انڈوں کی ٹرے لئے ہوئے لوگوں کی نظروں سے خود کو بچاتے ہوئے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک رخسانہ نے اسے دیکھ لیا۔
اس نے تمسخرانہ انداز میں ہنسی چھوڑ دی اور بولی ۔ “دیکھا میرے ساتھ بے وفائی کا انجام ۔نوکر بن کر رہ گئے ہو، کہاں ہے تمہاری مہارانی اور نوکر چاکر ۔ کہاں گئ تمہاری افسری اور ٹھاٹھ باٹھ ۔مجھے تو تمہاری حالت دیکھ کر ترس آرہا ہے ۔ یہ میری بد دعا کا نتیجہ ہے” ۔
میں اسے کوئی صفائی نہ دے سکا کیونکہ رخسانہ نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا ۔ وہ تڑ تڑ بولے جارہی تھی ۔ میرا مذاق بنائے جارہی تھی۔
دیکھو!! میں نے اپنے میاں کو شہزادہ بنا کے رکھا تھا ۔ مانا کہ وہ تمہارا جیسا بڑا آفیسر نہ تھا ۔اچھی شکل والا نہ تھا، مالدار نہ تھا لیکن مجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ میں نے اس سے مجبوری میں شادی کی تھی کیونکہ پیار تم سے کیا تھا لیکن تم تو بے وفا اور بد بخت نکلے ۔
میں نے اپنے میاں کو کبھی پانی کا گلاس تک اٹھانے نہیں دیا ۔ اس کو آخر تک دولہے کی طرح رکھا ۔ کیا تم کو یہ سب سامان اٹھاتے ہوئے شرم نہیں آرہی ہے ۔رخسانہ کہتی جا رہی تھی ۔
سنو رخسانہ ! عزیز الدین نے صفائی دینی چاہی مگر اس نے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا، وہ لگا تار بولے جارہی تھی ۔ اب سننے کو کیا رہ گیا ہے، رخسانہ نے کہا ۔
چلو چھوڑو.. یہ تمہارے ہاتھ میں دوائیاں کس کے لئے ہیں۔ اپنے لئے یا تمہارے میاں کے لئے ۔نہیں میرے میاں تو کب کے فوت ہو چکے ہیں ۔ اوہو.. یہ سن کر بڑا دکھ ہوا ۔
مگر تمہاری یہ حالت دگرگوں کیوں ہوئی ہے رخسانہ نے دریافت کرنا چاہا ۔
میری بیوی میری سبکدوشی کے چند ماہ بعد ہی مختصر علالت کے بعد اس جہان فانی سے چلی گئی ۔
میں نے آجکل کے گھریلو ملازمین کے قاتلانہ واقعات سن کر اپنے ملازم کو نکال دیا ۔ اب میں گھر میں اکیلا رہتا ہوں ۔ اس لیے یہ سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا ہے ۔
یہ ہے میری درد بھری کہانی ۔ اکیلا پن کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ یہ جینا بھی کیا جینا ہے ۔ عزیز الدین نے یہ سب اپنے ساتھیوں کو سنایا ۔ جناب عزیز الدین کی یہ روداد سن کر اس کے سارے دوست آبدیدہ ہو گئے ۔
اس لحاظ سے ہم خوش نصیب ہیں ۔ اللہ ہماری بیگمات کو سلامت رکھے ۔ ہم تو بہت خوش و خرم ہیں ۔ آپ پر صحیح معنوں میں ترس آتا ہے ۔ گھر میں اکیلا رہنا بڑا مشکل ہے۔ پھر بازار سے خود ہی سودہ سلف لانا اور بھی مشکل ہے ۔جو کام کبھی نہ کیا ہو وہ کرنا پڑے، یہ بڑا ہی تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ کبھی رات کو بیمار پڑو گے تو پانی پلانے کے لئے بھی کوئی نہیں ہوگا ۔ دروازہ اور کھڑکیاں بند کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔ یہ بڑی دکھ بھری داستان ہے ۔ مگر ہر پریشانی کو دور کرنے کا حل ہوتا ہے ۔
آپ کسی بیوہ سے دوسری شادی کیوں نہیں کرتے۔
سب دوستوں نے ایک ساتھ مشورہ دیا۔
میں نے تو اس جانب کبھی سوچا ہی نہیں، عزیز الدین نے جواباً کہا ۔ سوچنا چاہیے، بہت ضروری ہے ۔
میری بیوی کی ایک بیوہ سہیلی ہے بہت پاکباز اور صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے۔ آپ ہی کی عمر کی لگتی ہے ۔رام ناتھ نے مشورہ دیا ۔ آپ کہیں تو میں اپنی اہلیہ سے بات آگے بڑھانے کے لئے کہوں گا ۔
سبھی لوگوں نے اس بات کی تائید کی اور اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے کہا۔
آپ کا بہت بہت شکریہ عزیز الدین نے کیا۔
” میں اپنی بیوی سے بات کر کے آپ دونوں کو چائے پر بلاوں گا۔ وہاں آپ ایک دوسرے کو دیکھو گے، بات چیت کرو گے اور ایک دوسرے کی مرضی جانو گے ۔ میرے خیال سے یہ بہتر رہے گا ۔ رام ناتھ نے کہا۔
چند روز بعد رام ناتھ اور ان کی بیوی نے ان دونوں کو چائے پر بلایا۔ عزیز الدین اور رخسانہ نے ایک دوسرے کو دیکھ کر یک زبان ہو کر کہا.. اچھا تو یہ تم تھے؟
دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے اب اللہ تعالیٰ نے پھر سے ملایا ۔ دونوں کا ایک سادہ مگر پر سکون تقریب میں نکاح ہوا ۔ اس طرح ان دونوں کی زندگی پھر ایک بار ازدواجی پٹری پر رواں دواں ہوئی۔ کسی کو ذرا سا بھی اشارہ نہیں ہوا کہ یہ ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔
���
بھدرواہ، حال جموں
موبائل نمبر؛8825051001