ریاست جموںوکشمیر میں آٹھویں مرتبہ گورنر راج کا نفاذ ہمارےنظام کی گہرائیوں میںموجود سیاسی مفاد پرستی کا ایسا ثبوت ہے جو وقت وقت پر سامنے آتا رہتا ہے۔ اگر ریاست میں منتخب حکومتوں کے خاتمے کے نتیجہ میں گورنر راج کے نفاذ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکی ابتداء ہی 6مارچ1977ءکو اُس وقت ہوئی جب مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے محاذ رائے شماری کی بائیس سالہ تحریک کو خیر باد کہہ کر 1975میں کشمیر ایکارڈ کرکے برسراقتدار کانگریس کی حمایت سے حکومت قائم کی تھی لیکن دونوں پارٹیوں کے سیاسی مفادات میںبعد المشرقین ہونے کے نتیجہ میں یہ اتحاد قائم نہ رہ سکا اور سیاسی خود غرضیاں غالب آنے کی وجہ سے کانگریس نے حمایت واپس لے کر انکی حکومت گرادی ، جس کے نتیجے میں ریاست کے اندر پہلی مرتبہ گورنر راج نافذ ہوا۔ آج چالیس برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد صورتحال نے وہی روپ دہرایا، کیونکہ اقتدار میں پی ڈی پی کی اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ظاہری طور پر اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری میں مشکلات درپیش تھیں اور قومی سطح پر اسکی مقبولیت کے گراف میں بتدریج گراوٹ کے بہ سبب کوئی ایسا دھماکہ کرنے کی ضرورت تھی، جس سے موجودہ ملکی حالات کے مباحث کا رُخ تبدیل ہوسکے۔ چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ مختلف میڈیا چینلوں کے ذریعہ بھاجپا کے اقدام کو قومی سلامتی کےتئیں اس جماعت کی فکرمندی کے طور پرپیش کیا جار ہا ہے، حالانکہ یہ ایک بچگانہ دلیل ہے کیونکہ یکم مارچ2014سے اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف حکومت میں شریک تھی بلکہ دلی میں برسراقتدار ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی میں غالب فریق کی حیثیت رکھتی تھی۔ ایسے حالات میں حکومت کی ناکامی اور عوام سے کئے گئے وعدوں کے عدم ایفاء کےلئے بھاجپا کو ذمہ داری قبول کرکے ووٹروں سے معافی مانگنی چاہئےتھی لیکن اس کے برعکس وہ یہ عندیہ دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر میں صورتحال کو سنبھالا دینے کےلئے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے، حالانکہ مخلوط حکومت کا دور کبھی بھی ایسا دور قرار نہیں دیا جاسکتا ، جس میں ملی ٹنسی مخالف آپریشنوں کے دورا ن عام شہریوں کو خمیازہ نہ بھگتا پڑا ہو۔ نئے حالات میں بھاجپا اور اسکے ہم خیال حلقوں کی جانب سے طاقت کے سخت استعمال کی وکالت کی جارہی ہے ،بجائے اسکے کہ فروغ امن کےلئے مسئلہ کی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرکے ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینے کی وکالت کی جاتی جو ملک اور ریاست کے لئے سود مند ثابت ہوسکتا تھا۔ اب جبکہ ریاست کے اندر گورنر راج کا نفاذ عمل میں آیا ہے، ہر ایک شہری کی نظریں راج بھون پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں سے صورتحال کو کس طرح ایڈریس کیا جاتا ہے۔ اس میں شک وشبہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ سخت گیر پالیسیوں کے ردعمل میں پید اہونے والی صورتحال کسی بھی عنوان سے عام شہریوں کےلئے موافق نہیں ہوتی، لہٰذا ضرورت ہے کہ گورنر انتظامیہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی ترتیب دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے ۔ چہ جائیکہ مرکزی حلقوں سے اُٹھائے جارہے گردوغبار کو فیصلہ سازی پر حاوی ہونے کی اجازت دیجاے۔ گورنر انتظامیہ کے پاس اختیارات بھی ہیں اور فیصلہ سازی کے لئے وہ دبائو بھی نہیں، جو مخصوص وجوہات کی بنا پر سیاسی سرکاروں خاص کر مخلوط حکومتوں کا ایک لازمی حصہ یایہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مجبوری ہوتی ہے۔ فی الوقت ریاست کے دونوں بڑے خطوں جموں اور کشمیر میں صورتحال پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جموں خطہ میں کٹھوعہ آبروریزی و قتل معاملہ کو لے کر مختلف جماعتوں نے جو سیاست شروع کر رکھی ہے وہ نہایت ہی خطرناک نتائج کی حامل ہے، لہٰذا حکوت کو اس پر بھی توجہ مرکوز کرکے اس پر سیاست کرنے والوں کو متنبہہ کرنا چاہئے۔فی الوقت ریاستی انتظامیہ کے مختلف صیغوں میں سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے جو خامیاں پیدا ہوئی ہیں، انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس کی مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔ حالیہ ایام میں مختلف محکموں کے ملازمین کی جانب سے طویل ہڑتالوں کے بہ سبب دفاتر میں عام لوگوں کے کام رُکے پڑے ہیں۔ انہیں امداد و اعانت پہنچانا گورنر انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ کلہم طور پر یہ کہا جاسکتا ہے عوامی مشکلات ، خواہ وہ امن وقانون کے حوالے سے ہوں یا انتظامی معاملات کے ناطے انکا مثبت اور موزون حل تلاش کرنے کو اولین ترجیح سمجھنے کی ضرورت ہے۔