! مثبت سوچ کامیابی کا زینہ

بے شک اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان کو اس بات کی کامل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہے، سوچے اور جس طرح چاہے، بولے اور لکھےمگر انسان کے اندر پیدائشی طور وہ شعور بھی موجود ہے کہ جس سے بُرائی اور بھلائی کی تمیز کرے،اسی شعورکو ضمیر کہا جاتا ہے۔ضمیر ایک اندرونی نفسیاتی احساس ہے کہ کسی طرز عمل یا سوچ میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح،ہر انسان کے لئے ایک حجت ِ داخلی کی حیثیت رکھتی ہے۔بظاہر تو انسان دوسرے حیوانات کی طرح ایک حیوان ہے مگر انسان کی خصوصیت یہی ہے کہ اس کے اندر ایک ایسی صفت پائی جاتی ہے جو کسی اور حیوان کے اندر نہیں ہےاور یہی ضمیر کی صفت ہے۔چنانچہ جب کوئی انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے اَنّاکا فعل ہوتا ہے مگر عین اُسی وقت انسان کی دوسری صفت ’ضمیر ‘ جاگ اٹھتی ہے اور اُس کے اندر شدید ندامت کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔اسی طرح کی ایک صفت انسان کی سوچ ہے، جس کے دو پہلو ہیں،ایک مثبت اور دوسرا منفی۔اب اگر غور کیا جائے کہ منفی سوچ اور مثبت سوچ رکھنے وال انسان میں کیافرق ہوتا ہےتو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ منفی سوچ والے انسان کی بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذہنی خول میں جیتا رہتا ہے،اُس کے ذہن میں جو بھی خیال آجائے،وہ اُسی کو حقیقت سمجھتا ہےاوراپنی نفسیاتی پیچیدگی کی بنا ءپر اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ اُس کے ذہن کے باہر جو حقیقتیں ہیں ،اُن کو جانے،سمجھے و پہچانے اور اُن کی روشنی میں کوئی دُرست رائے قائم کرے،گویا منفی سوچ دراصل بند سوچ کا دوسرا نام ہے۔اس کے مقابلے میں مثبت سوچ وہ ہے جو کھلی سوچ ہو۔مثبت سوچ والے انسان تعصبات سے آزاد ہوکر سوچتے ہیں ،وہ معاملات میں بے لاگ رائے قائم کرتے ہیں ۔مثبت سوچ والاانسان وہی سوچتا ہے جو اَز روئے واقعہ اُس کو سوچنا چاہئے اور وہ وہی بولتا ہے جو اَز روئے واقعہ اُسے بولنا چاہئے۔یہی وجہ ہے مثبت سوچ والے انسان کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں جبکہ منفی سوچ والے کو ہر طرف اپنی راہیں بند دکھائی دیتی ہیں۔جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی بھی انسان کی تمام ناکامیوں کا سبب اس کی منفی سوچ ہوتی ہے اور تمام کامیابیوں کا سبب مثبت سوچ۔گویا یہی ایک لفظ ہے جس میں زندگی کا خلاصہ ہے۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوئی منفی سوچ والا انسان بظاہر کامیاب تودکھائی دیتا ہے لیکن اُس کی کامیابی عموماً وقتی ہوتی ہے۔اس کے برعکس یہی دیکھا جارہا ہے کہ مثبت سوچ والے آدمی کے لئے کامیابی پائیدار بھی ہوتی ہے اور یقینی بھی۔کیونکہ اپنی مثبت سوچ سے اُسے ایسی بصیرت حاصل ہوتی ہےکہ ہر طرف کے بند راستوں میں بھی اُسےاپنے راستے کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بے شک انسان کو اس کےخالق نےمخالفوں کا مرکب بنایا ہے تاکہ وہ خود دریافتگی کی سطح پر کھڑا ہوجائے ،اپنے آپ کا احتساب کرے، اپنی غلطیوں کو خود دریافت کرکے اُن کی اصلاح کرتا جائےاور اپنے اعمال سےدنیا اور آخرت کو سنوارتا چلا جائے۔لیکن آج کے عام انسان پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو ہر سطح پر اور ہر معاملے میںسب کچھ اس کے برعکس کرتا ہو ا دکھائی دیتا ہےاور محض اپنی خواہشوں کا پیرو کار بنا ہوا ہے، اپنی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدلنے کی ہرگز کوشش نہیں کرتا اورنفرت کو مٹانے کے لئےمحبت سے پیش آنے کی ہمت نہیں جُٹا رہا ہے۔اپنی کسی بھی جسمانی ،ذہنی یا معاشی اور معاشرتی کمزوری سے نجات پانےکی صدقدلانہ روش نہیں اپناتا ہے ۔ اپنی منفی سوچ نے اُسےاتنا کاہل اور غافل کردیا ہے کہ اچھے حالات ملنے پر بھی وہ غلط تقابل کرکے اس میں شکایت کا کوئی نہ کوئی پہلو نکالتا رہتا ہےاور ہر صورت میں منفی بول بولتا رہتا ہے،جس کے نتیجے میں جو کچھ بھی اس کے پاس باقی ہوتا ہے، اُسے بھی فراموشی کے خانے میں ڈال دیتا ہےاور اپنی رنجیدگی و مصیبت میں اضافہ کرکے اپنی زندگی کو ناکامی کے دلدل میںدھکیل دیتا ہے۔انسا ن کو چاہئےکہ وہ ہر غلطی سے سبق حاصل کرے جبکہ عقل مند وہی ہے جو بچے ہوئے کو جانےاور اس کی بنیاد پر اپنے لئے نئی زندگی کی تعمیر کرے،یہی دانشمندی ہے اور دانشمندی میں انسان کی کامیابی کاراز ہے ۔