Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

مثالی زندگی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 22, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
 زندگی  تمام مخلوقات کے لئے بلاشبہ ایک نعمت ہے لیکن انسان کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ انسان کو زندگی کا وہ اعلی مقام عطا کیا گیا ہے جہاںباقی تمام مخلوقات بے جان سے جاندار تک، ٹھوس سے گیس تک اور ذرے سے کہکشاںتک اسی کی خدمت کیلئے مسخر کئے گئے ہیں۔اللہ تعا لی فرماتا ہے: کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ نے زمین اور آسمان کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اورچھپی نعمتیں تم پر تمام کر رکھی ہیں۔(لقمان )
کائنات کے ہر ایک چیز کی ساخت اور توازن ایک ایسی کامل اور بہترین کاریگری سے کی گئی ہے کہ بڑی سے بڑی اور باریک سے باریک نظربھی کوئی کمی محسوس نہیں کرسکتی ۔ستارے ،سیارے ،گردشِ ایام اور موسموںکا تغیر، قدرت کے یہ سارے مناظرایک تو انسان کی ذہنی و جمالیاتی حِس کو جلّا اور تقویت عطا کرتے ہیں اورساتھ ہی انسان کے سامنے اُس کامل توازن کی کُھلی کتاب بھی رکھ دیتے ہیںجو نہایت ہی خوبصورتی سے قائم کیا گیاہے،لیکن قدرت کا یہ نظام ہم سے استوار ی اور برقراری کاہمیشہ تقاضا کرتا ہے اور انسان کو چاہیے کہ اس نظام میں کبھی خلل واقع نہ ہونے دے: اور تم اللہ کے قائم کردہ میزان میں خلل نہ ڈالو  (الرحمن)
لیکن افسوس انسان خواہشاتِ نفس کا شکار ہو کر وضع کردہ حدود کو پھلانگنے کی ہر وقت کوشش میں رہتا ہے۔ شیطان کے دامِ فریب میں آکر  قوانین ِقدرت سے بغاوت کرتا رہتا ہے اور اس طرح اس سکون بھری زندگی کو تباہی سے ہمکنار کرتا ہے ۔انسان کی ان نفس پرستانہ حرکتوں سے وہ انسانی قدریں زائل ہوتی جاتی ہیں جو مضبوطی سے زندگی کی چادر تھمائے ہوتی ہیں ۔محبت ،شفقت ،ہمدردی اور ان جیسے نیک اور پاک انسانی جذبات ناپید اور مفقود ہوتے جاتے ہیں ۔دولت بٹورنے کا خونین مقابلہ جنم لیتا ہے۔ انسان ،جو خدا نے آزاد پیدا کئے تھے غلامی اور محکومی میں جکڑ دئے جاتے ہیں ۔ظلم، جبر اور فساد  سے روئے زمین بھر دی جاتی ہے ۔سیاست ،معیشت اور معاشرت غرض زندگی کا  ہر میدان اس ہمہ جہت فساد کا شکار ہو جاتا ہے ۔دہشت،تشدد اور لوٹ مار عام ہو جاتا ہے ۔زندگی اجیرن بنتی ہے اور یوں جی لینے کی کشش کھو دیتی ہے۔انسان کی حالت آسمانوں سے گر ے اور زمین پر روندے ہوئے چیز کی مانند ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی اتنی سوگوار بنتی ہے کہ امن اور سکون کے جھونکوں کو ہر وقت پکارتی اور ترستی رہتی ہے۔
زندگی کو پُر کیف بنانے کے اگرچہ بہت سارے نسخے آزمائے گئے لیکن سب کے سب بے کار ثابت ہوئے ۔جو بھی فلسفے اور نظریات ابھی تک بتائے اور آزمائے گئے وہ تمام کے تمام پھیکے اور ناکارہ ہی نکلے ،سوائے ایک کیمیائے سعادت جو آدم کی پیدائش سے ہی بہر حال اس معاملے میں قابلِ اعتماد اور آفاقی رہا  ہے اور جو انسانی ضرورتوں کو پورا کر نے، امنگوں کو پورا کرنے اور زخموں کو بھرنے اور روح کو مہلک بیماریوں سے پاک کرنے کی حتمی صلاحیت اور استعدار رکھتا ہے ۔یہ خوبصورت اکسیر صرف دین اسلام ہے۔اسلام زندگی کے اس سارے مخمصے کے ساتھ حکیمانہ برتائو کر کے اسے چند سنہری اصولوں سے علاج کر دیتا ہے ۔
۱۔اللہ کی حاکمیت:۔ جب بھی کوئی انسان یا انسانی مجموعہ ،قبیلہ یا قوم اسلام کو گلے لگاتا ہے تو لوگ اُن تما م اقسام کی وفاداریوں سے نجات پاتے ہیںجو اللہ کے بغیر دوسروں سے وابستہ ہواکرتی ہیں۔تمام جھوٹے اور کمزور آقا ، جبری تصرف اور غیر ضروری وفا شعاریاں ایک دم  غائب ہو جاتی ہیں۔ صرف اور صرف اُس ایک ہی طاقت ور اللہ کاراج پوری زندگی پر قائم ہوجاتا ہے۔اللہ واقعتا  واحد حقیقی بادشاہ اور مطلق خیر کا سرچشمۂ حیات ہے جس کی عبادت کر نااور جس سے وفاداری ٹھیٹھ طریقے سے بجا لانا فرضیہ واجب ہے اور ایمان یہ ہو کہ خالص اللہ ہی پروردگار،نجات دہندہ اور مشکل کشا ہے ۔ یہ عقائد قبولیت اسلام کی بنیادیں ہیں جو انسان کو لازماًاُن جھوٹے خدائوں کی غلامی سے نجات دلاتی ہیں اور یہ بے اصل ہیں ۔جب یہ بیداری انسان کی روح وتن میں عملاً پیدا ہوجاتی ہے تو ہر ا یک انسان اسلام میں برابری کی سطح پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ناانصافی ،استحصال اور سفاکیت خود بخود ختم ہو جاتی ہیں،اس طرح انسان ایک ہی حقیقی آقا و داتاکی غلامی میں آکر باقی تمام زنجیروں سے چھٹکارا پاتا ہے ۔بقولِ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسانی شخصیت غیر معمولی حد تک پھبک اور کھل اُٹھتی ہے اور ایک اللہ کی بندگی میں تکمیل ِذات کے ہر مرحلے پراُڑان کر کے انتہائی اونچی منزلوں کو پا لیتا ہے۔ انسان کے شخصی وجود کو محدود اور اس کی نفی کرنے والے تمام خوف و خطریکا یک معدوم ہو جاتے ہیں ۔انسان عملاً اپنے آپ کو اللہ کی خلافت اور اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز پاتا ہے۔ یاس و قنوط راہ میں حائل ہو کر انسان کو ابدی کامیابیاں چومنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔
کہو خدایا ملک کے مالک ! تو جسے چاہے حکومت دے اور جسے چاہے چھین لے۔جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے اور تو بے شک ہر چیز پر قادر ہے۔(آل عمران)
۲۔ انسانی مساوات:۔ برابری کے اصول کے تحت اسلام روئے زمین میں تمام انسانوں کو ایک خوبصورت مالا میں پرُولیتا ہے، بلا ا متیاز رنگ ونسل ، زبان وسکونت ،ذات و صفت ہر ایک کے ساتھ یکساں برتائو کیاجاتا ہے ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے :
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر اور عزت والا وہ شخص ہے جو تمہا رے اندر سب سے زیادہ تقوی گزار ہے۔(الحجرات)  
لوگو:اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اوراُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت مرد و عورت دنیامیں پھیلا دئے (النساء)
ابتدا ہی سے اسلام اپنے پیرو کاروں پر یہ چیز واضح کر کے رکھ دیتاہے کہ تمام انسان ایک ہی جوڑے یعنی آدم اور حواؑ سے پیدا کیے گئے ہیں،جب کہ انسانی ذہن کی تراشیدہ ذات پات اور رنگ ونسل کی تفریق کا یہاں کوئی جگہ اور جواز بالکل نہیں ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ ہر شخص امیر ہو یا غریب ،کالا ہو یا گورا ،مرد ہو یا عورت اپنے آپ کو برادری کے ماحول و معاشرے میں معزز بھی پاتا ہے اور شخصی نشوونما کی خاطر تمام دروازے اپنے لئے وا پاتا ہے ۔بزرگوں کی توقیر، بچوں سے شفقت، محتاجوں کی مدد اور کمزوروں کی حفاظت مسلم کے ماتھے پر کوئی معمولی شکن لائے بغیر اس طریقے سے کی جاتی ہے جس میں ایک دوسرے کے لئے دل میں پیار، حقوق کی پہچان اور احساس ِفرض کا عمیق جذبہ کار فرما ہوتاہے۔اس خلوص بھرے ماحول اور سماج میں بے شک ہر مسلمان اپنے آپ کو بے تکلف محسوس کرتا ہے اور ترقی کے سارے منازل آنکھوں کے سامنے رقصاں دیکھتا ہے۔
۳:۔ تصور ِامانت :۔ انسانی انسانی برادری کو پاش پاش کرنے والی اوراس میں رخنہ ڈالنے والی سب سے بڑی چیزملکیت کا جنجال ہے ۔آدمی کے پاس جب دولت اور وسائل آتے ہیں تو وہ اسے اپنی پراپرٹی سمجھ کر ا س پر ملکیت کا حق جتلاتا ہے۔ خدا کی طرف سے عطا کی ہوئی ہر چیز کو اپنی وراثت سمجھتا ہے۔یہ ذہنیت انسانی رشتوں کے تانے بانے میں ایک الم ناک خلیج پیدا کردیتی ہے اور اہل ثروت کی کھوپڑی میں بے جا غرور کی کیفییت پیدا کرتی ہے۔ آگے جا کے یہی خیال زندگی میںکرب اور کنفوژن کو جنم دے کرایسی نفرت اور دراڑ  پیدا کرلیتی ہے جو انسانی تعلقات اور امن و آشتی کیلئے بہت ہی مہیب دشمن کی شکل اختیار کر تی ہے ۔ اسی وساطت سے سماج میں طبقاتی دراڑیں آجاتی ہیں ، امیر اور غریب کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے، حسد اور فساد ہر سُو چھا جاتا ہے لیکن اسلام جب آتا ہے تو سارے مشکل کو حُسنِ تدبیر سے حل کر لیتا ہے۔ یہ اپنے معتقدین کو روز ِاول سے ہی اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ــوہ اس دنیا میں اپنے آپ کو مالک نہیں بلکہ اُن چیزوں کا امانت دار سمجھے جو اُن کے پاس مال و جنس کی صورت میں موجود ہو ۔سرمایہ چاہے رقم یا جنس کی صورت میں کسی بھی شخص کے پاس ہو ،وہ اُس کے ہاں یہ اللہ کی ا مانت ہی تصور کی جائے جو اصل میں اللہ کی طرف سے دیا ہوا قرضہ ہوتا ہے اور اُسے ملکیت جان کر فخر نہیں جتایا جاتا ہے بلکہ اس کے ورثاء اور حق داروں کی فہر ست بھی اللہ کی مقرر کردہ ہے۔قرآن صریح طور پر بیان کرتا ہے:اللہ اور رسول ؐپر ایمان لاؤ اور خرچ کرو اُس میں سے جو اللہ نے ہی تمہارے سپرد کیا ہے (الحدید)
 زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ کی ہی ہے (الحدید)
زمین اورآسمانوں کا مالک اللہ ہی ہے (المنافقون)
اسلام کے پیش کردہ اس سوچ اور نظریے کے تحت تمام انسان بلاشبہ زندگی کی چاشنیوں سے لطف اندوز ہوجاتے ہیں ۔اسی عقیدے اور تصور ِحیات کے بدولت غریب لوگ محروم نہیں رہتے ہیں۔ حاجت مند دھتکارے نہیں جاتے ہیں اور یتیم اور بیوائیں بھلائی نہیں جاتی ہیں۔برعکس اس کے امیر لوگ دلی خواہش اور احساسِ ندامت سے غریبوں کا حصہ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے نکال کر اُن کے سامنے زکوٰۃ کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے اُن پر اس کی ادائیگی واجب کر دی ہوتی ہے جس سے کسی انکار کی گنجائش نہیںہوتی ہے اور اُن کے کمائے ہوئے مال میں سے سائلوں اور محروموں کا حق واجب ہوتا ہے(الذاریات) علاوہ ازیں امیر لوگوں کو ہر وقت یہ ترغیب ملتی رہتی ہے کہ وہ غریبوں پر فراخ دلی سے خرچ کریں اور محتاجوں کی جب بھی اور جہاں بھی وہ ضرورت میں ہو،مدد کیا کریں۔امیر لوگ یہ حکم صدقات کی شکل میں بجا لاتے ہیں جو نصاب زکوٰۃ سے زائد ضرورت کے مواقع پر ضرورت مندوں کو ادا کیا جاتا ہے :یقیناً خیرات کرنے والے مر د اور عورتیں جو اللہ کیلئے اپنے مال میں سے عمدہ حصہ نکالتے ہیں، اُن کو اللہ کے ہاں دوہرا اجر اور بہترین انعام دیا جائے گا (الحدید)
 اس طرح مال اور پیسہ گردش میں رہتا ہے اور معاشرے میں کوئی ایک بھی معاشی طور پر محروم نہیں رہتا ہے۔دوسری طرف بخیل لوگوں پر زبردست ملامت کی گئی ہے اور اُن کو آخرت میں بُرے نتائج کی وعید سنائی گئی ہے تاکہ وہ کنجوسی اور بخیلی سے باز آکر فراخدلی سے خرچ کریں۔فضول خرچ ہی نہیں بلکہ بخیل بھی مسلم سماج میں حقارت کی نظروں سے ہی دیکھے جاتے ہیں :وہ لوگ جو بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کی ترغیب دیتے ہیں اللہ اُن کواپنی رحمت سے محروم رکھتا ہے اور ہم نے اُن کے لئے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے( النساء) 
 ا س طرح کی اسلامی تعلیم و ترغیب سے کیپٹلیسٹcapitalist))سماج کی طرح سرمایہ داروں کے پاس ہی مال وزر منجمد نہیں رہتا بلکہ مختلف صورتوں میں یہ غریبوں ناداروں کے درمیان گردش کرتا رہتاہے اور نتیجے کے طور پر غریبوں میں قوت خریداری بڑھ جاتی ہے جس سے پھر پورے ملک کی معیشت بھی ترقی کر جاتی ہے اور سب کیلئے باعث رحمت ثابت ہوتی ہے ۔
انسانی بہبودی والے ایسے معاشر ے کے اندر ایسے حسین انسانی برتائو کا جب خیال اور تصور کیا جائے تو کیا کسی فرد ِ بشر کو بھی دنیا میںنظامِ اسلام کے رحمت و کرم فرمائی ہونے پر ذرابھی تردد ہوسکتا ہے اور پھر اسے من وعن قبول کرنے میں کوئی تامل ہو سکتا ہے ؟ 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کشتواڑ میں انٹر اسکول زونل سطح کے مقابلے شروع
سپورٹس
آئی جی پی جموں کا پولیس سٹیشن بشناہ کا دورہ جوانوں کیلئے پریفیب بیرک کا افتتاح ،افسروںسےبات چیت کی
جموں
عارضی صفائی ملازمین کی کام چھوڑ ہڑتال 16ویں روز بھی جاری کشتواڑ قصبہ کے گلی کوچوں میں ہرسو گندگی کے ڈھیر جمع، بیماریاں پھیلنے کاخدشہ
خطہ چناب
سرنکوٹ سانگلہ سڑک بارش کے دوران نالے میں تبدیل لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا،نکاسی آب درست کرنے کامطالبہ
پیر پنچال

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?