آج بہ حیثیت مجموعی ہماری ماں بہن بیٹی نے ان عالی مقام خواتین کی سیرت و کردار کو پس پشت ڈال دیا ہے جن کو مسلم معاشرے میں رول ماڈل کی حیثیت حاصل ہے،اس لئے مسلم معاشرے میں بے حیائی اورفحاشی جیسی موذی بیماریاں پنپ رہی ہیں۔پہلے زمانے میں عورتیں نہایت متقی،پرہیز گار،نیکیوں پر کار بند ،علم کی متلاشی اور اللہ سے بہت ڈرنے والی ہوتی تھیں،ان کی آنکھوں سے خوفِ الہٰی سے آنسو بہتے رہتے تھے ، ان کے پاؤں طویل نمازیں پڑھنے اور رحمن کی اطاعت بجا لانے میں سوجتے رہتے تھے، وہ زندگی کی خوشگوار برساتوں میں صالحیت کی رِم جم سے بھر پور فائدہ اٹھاتیں اور عظیم کامیابیاںان کا مقدر بن جاتیں۔وہ دنیا کی رنگینوں سے غافل ومدہوش ہوتیں نہ چند روزہ حقیر چیزیں انہیںقبر کے سزاؤں کی طوالت اورحشر کے دن اللہ کی عدالت سے ناآشنا کر دیتی تھیں۔انہوں نے بخوبی جان لیا تھا کہ خدا سے دور لے جانے والی ہر چیز ابلیسی فریب ہے، جب کہ موت اپنی بے ہوشیوں سمیت آنے والی ہے،قبر اپنی ہولنا کیوں کے ساتھ بہت قریب ہے،قبروں سے جی اُٹھنے کا وقت آن پہنچا ہے،قیامت اپنی تمام ہولناکیوں سمیت بر پا ہوا چاہتی ہے کہ ہرمسلمان مرداورعورت دیکھے گی کہ صرف اللہ کے خوف کے سبب بندگان ِخدانجات پاگئے ، جب کہ خوف ِالہٰی سے غافل لوگ سے خسارے کاشکار ہوگئے۔
میری پیاری بہن! آج تیری حالت اتنی بگڑی ہوئی ہے کہ تمہیں اپنی اعلیٰ ورافع مقام کا پاس ولحاظ ہی نہیںہے ۔تم حقیقت ِموت کا تذکرہ یا جنت اور جہنم کا ذکر سنتی ہو مگر اُف ! نہ کوئی غورو فکر کی زحمت گوارا کرتی ہو،نہ غلطی گناہ سے باز آتی ہو ، نہ کوئی نصیحت پکڑتی ہو بلکہ تم اپنے مقصدزندگی پر ایک آدھ بار دھیان دینا بھی گوارا نہیں کرتی ہو۔ تمہاری یہ حالت اس بات کی چغلی کھاتی ہے کہ خدا نخواستہ تمہارے دل سے خوف الہٰی کی مہک ختم ہوچکی ہے اوردنیا کا حصول تمہاری زیست کا اولین مقصد بن گیا ہے ۔ افسوس ! کیایہی تمہارا مبلغ علم ہے؟کیا دینا کی چند روزہ چکا چوندی سے اتنا دھوکہ کھا گئی ہو؟ خدا کو بھلا کرمادی فوائد کی چمک دمک میں مست ومگن ہو نا ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ سب سے بڑا خسارہ ہے۔ بقول شاد عارفیؔ
انہیں اسلام نے جو مرتبہ بخشا وہ ظاہر ہے
عطا کی جو مساوات چمن آراء وہ ظاہر ہے
معین تھا جو ان کے واسطے پردہ وہ ظاہر ہے
’’گماں ‘‘ نے ’’اعتماد پاک دامانی‘‘ بدل ڈالا
’’ شریک زندگی ‘‘کے حسن معنی کو کچل ڈالا
میری پیاری بہن !خیر الامم کی مثالی بیٹی یعنی خیرالنساء کا لقب تمہیں تب حاصل ہوگا جب تم ان اصولوں کو زندگی میںعملی جامہ پہناؤگی ۔سب سے پہلا اصول دین کا علم حاصل کرنا ہے کہ نہ صرف خود کو سنبھال سکو بلکہ دوسری مسلمان بہنوں کی بھی اصلاح کرسکو ۔ یہ کیا تو خیرالنساء قرار پائوگی۔ دوسرا اہم اصول شرم و حیا کا شیو ہ ہے جس سے تم زمانے کی ہر آفت سے محفوظ رہو گی۔ تیسر اہم ا صول سچائی ہے جس سے تم عزت واحترام کے مرتبے پر فائز ہوجاؤگی۔ خیرالنساء کے نام سے موسوم مثالی بیٹی وہ ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اورا سی پر توکل کرے ، جودوسروں کے مال پر نظر نہیں رکھتی بلکہ اپنے رب کے خزانوں پر اعتماد کرتی ہے ۔یہ تمہارا چوتھا اصول ہے۔ مختصراًخیر النساء کی سیرت کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ والدین کی خوشی اور عزت کے لئے ہر ممکن صالح کام انجام دیتی ہے ۔ اس حسن ِاخلاق سے اس کا رب راضی اور بندگان ِ خدا متاثر ہوتے ہیں۔بس دعا یہی ہے کہ اللہ تم کو ایسی ہی مثالی بیٹی یعنی خیرالنساء کے قالب میں ڈھالے۔
رابطہ9697330636