علم وادب کی بزم ہے ویران ومضمحل
خاموش ہوگئی جو ایک شمع بے مثال
اس دار فانی کی ہر چیز فانی ہے اورارشاد خداوندی کے مطابق ہر حیات کے بعد موت ہے ،جو آیاہے وہ جانے ہی کے لئے آیاہے، نہیں معلوم کب کس کے پاس موت کا پروانہ آجائے ؎
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کس فہرست میں رقم کیاہے؟
خانوادۂ قاسمی کے اہم چشم وچراغ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ کا دیوبند میں انتقال ہوگیا ۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ ۳؍جون ۱۹۳۸ء کو آپ کا اس عالم آب وگل میں ورود ہوا۔ عزیزوں کے مطابق اب مولانائے مرحوم عرصہ سے بیمار چل رہے تھے ، علاج ومعالجہ جاری تھا کہ اسی دوران آشیانہ قاسمی میں مؤرخہ۱۳؍نومبر ۲۰۱۷ء بروز پیر دن کے سوا بارہ بجے وہ اس دنیائے بے مایہ سے ۸۷؍ سال کی عمر میں کو کوچ کر گئے( اناللہ وانا الیہ راجعون) خدائے قدوس آپ کی مغفرت فرمائے، آمین ۔آپ ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم دبوبند سے فارغ ہوئے اور ۱۹۶۹ء کو آپ کا دارالعلوم میں تقرر ہوا۔ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ کاعلمی دنیا میں ایک بڑا اور تاریخی نام او رمقام تھا۔ مولانا مرحوم ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بانی قاسم العلوم والخیرات حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم النانوتوی علیہ الرحمہ کے پڑپوتے اور دارالعلوم دیوبند کو عالمگیر شہرت دلانے والے سابق مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کے دوسرے صاحبزادے تھے۔ آپ دارالعلوم وقف دیوبند کے صدرمدرس ہونے ساتھ ساتھ اپنی بلند قامت علمی نسبتوں اور خاندانی وجاہتوں، تصنیف و تالیف، تحریر وقلم اور تقریر وخطابت کے درک اور مہارتوں کے ساتھ علمی حلقوں میں یکساں مقبول ومتعارف تھے۔ آپ دارالعلوم وقف دیوبند میں بخاری شریف کی تدریس کا بھی فریضہ انجام دے رہے تھے۔ بایں وجہ علمی دنیا میں آپ کی شخصیت بے حدمقبول رہی۔ اس عاجز کے نزدیک آپ کی موت کے بعد علمی وادبی دنیامیں جوخلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی اس دورانحطاط میںناممکن ہے۔ بقول شاعر
عالم کی موت اصل میں عالم کی موت ہے
ایک فرد ہی کی موت تنہا نہیں سوال
حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ کے ہزاروں شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات گرامی بانیٔ دارالعلوم دیوبند اور آپ کے والد ماجدحکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کی ڈیڑھ سو سالہ علمی خدمات مجاہدانہ کارناموں طویل ترین جہد وسعی اور عزم مسلسل کاایک تابندہ عنوان تھی۔ آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ اور امام المنطق وفلسفہ حضرت علامہ ابراہیم بلیا وی علیہ الرحمہ جیسی نادرہ روزگار شخصیات کے حلقہ تلمیذتھے۔ مولانائے مرحوم میں تحریری صلاحیتیں روز اول سے ہی ہم عناں تھیں، لاتعداد مضامین بے شمار مقالات سیرت حلبیہ۶؍ ضخیم جلدوں کا کامیاب ترجمہ ،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف گوشوں پر تحریرکردہ مختلف مگر جامع کتابوںکا مکمل سیٹ علمی اورتحقیقی کتابوں پر معرکۃ الآراء مقدمات مولانائے مرحوم کے تاریخ ساز علمی کارناموں کی ایک جھلک ہے۔ آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن کے لئے لکھی ہوئی آپ کی تقاریرکا مجموعہ’ قاسمی تقریریں‘ ان کے سوا ہے۔مصر سے مطبوعہ عربی کتاب بنام ’’اصحابِ کہف‘‘ کی کامیاب اردوترجمانی حلقہ تدریس میںمقبول بھی اور منفرد بھی۔ مولانا مرحوم کے جس قدر بھی مضامین ومقالات تصنیفات و تالیفات نظرنواز ہوئیں وہ سب کے سب آپ کے علم وتحقیق وسعت مطالعہ قوت استدلال زور بیان اور سلاست وروانی کا آئینہ دار علمیت اور ظاہری وباطنی حسن سے بھرپور ہیں ۔مولانا مرحوم صرف قلم کے دھنی نہ تھے بلکہ آپ کے درس کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریریں بھی ان خوبیوں سے آراستہ وپیراستہ ہوتی تھیں، آپ میدان میں اپنی نسل کے لوگوں کے ترجمان ، ہندوستان کے ہر گوشے میں آپ کی طلب اور سننے کی چاہِ قاسمیت کے جتنے خوبصورت اور دلفریب چہرے ہوسکتے ہیں، ان میں سے آپ کا چہرہ بھی تقدس اور پاکیزگی کے رنگوں میں ڈوبا ہواتھا ۔آپ صرف عربی زبان وادب ہی کے ماہر نہ تھے بلکہ آپ عربی زبان وادب کے جہاں اداشناس مزا ج داں نباض رمز آشنا اور اس کی باریکیوں لطافتوں نزاکتوں اور نوک وپلک کے رموز کے واقف کار تھے، وہاں مولانا مرحوم انگریزی زبان پر بھی مکمل قدرت اور عبور لکھنے پڑھنے اور بولنے میں کسی صاحب زبان کی طرح مہارت اور پختگی رکھتے تھے۔ آپ نے ملک اور بیرون ملک کے دینی اور تبلیغی اسفار بھی کثرت سے کئے اور تادم آخریں دارالعلوم دیوبند کی ترجمانی کا حق اداکرتے رہے ۔آپ کے مواعظ وخطبات سننے والے جانتے ہیں کہ آپ نے اپنی خطابت کامرکزی محور ہمیشہ سیرت پیغمبر اسلامؐ کو بنائے رکھا، سیرت کے موضوع پر آپ کی خطابت بے نظیر تھی۔ مولانا ندیم الواجدی کے الفاظ میں ظاہری رکھ رکھا ہویا کہ باطنی اوصاف ہر اعتبار سے آپ اپنے والد بزرگوار کے اوصاف کا حسین پر تونظر آتے تھے، جب تقریر کرتے تو آواز کے نشیب وفراز الفاظ کے دروبست اور علوم ومعارف کے بہاؤ سے محسوس ہوتا کہ آپ کے جس میں اپنے والد گرامی کی روح حلول کرگئی ہے اور ان کی زبان ان کی ترجان بن گئی ہے، آج سے لگ بھگ ۲۴سال قبل آپ خطہ کشمیر کی معروف دینی علمی وروحانی درسگاہ مادر علمی جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں وکشمیر کے ۲۰ سالہ عظیم الشان اجلاس عام میں مندوب خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ اس بندہ ہیچ منداں کو اس موقعہ پر پہلی آپ کو دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہواتھا، آپ کو بیان کے لئے اس موقع پر طویل نشست ملی تھی آپ نے جوبیان فرمایا تھا، یہ آپ کے کمال اخلاص کاکرشمہ ہی تھا کہ اس کی کیسٹیں مدت تک رونق بازار بنی رہیں۔ انہیں اختصاصات وتشخصات کے باعث آپ دنیائے اسلام میں ہزاروں علماء طلبہ اور ذی علم انسانوں کے دلوں کی دھڑکن بنے رہے تھے۔ چنانچہ آپ کی نماز جنازہ احاطہ دارالعلوم دیوبند میں شب کے دس بجے حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے پڑھائی اور مزار قاسمی میں تدفین عمل میں آئی۔ ’’رحمتیں تربت پہ ہوں ہزاروں ‘‘
آخری بات: آپ کی وفات ایک سانحہ ہے جس کو عالم اسلام نے غمزدہ دل سے محسوس کیا ہے۔ ہمارے مادر علمی جامعہ ضیا ء العلوم میں بھی تمام اساتذہ اس سانحہ پر غمزدہ وملول ہوئے ۔مولانا سعید احمد صاحب حبیب نائب مہتمم جامعہ ہذا وصدر تنظیم علمائے اہل سنت والجماعت پونچھ نے بھی جامعہ میں اساتذہ وطلباء کی درمیان تعزیتی مجلس منعقد فرمائی جس کا اختتام مولانا مرحوم کے لئے دعائے مغفرت پر ہوا۔ خدائے تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے حسنات کو قبول فرمائے،جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے درجات کو بلند فرمائے اور وابستگان ومنتسبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
رابطہ نمبر 9596664228/7298788620
E-mail.- [email protected]