کشن گنگا (دریائے نیلم ) جہلم کی ایک آبی راہ رو ہے جو پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں استور سے ہوتے ہوئے گریز کے علاقے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوتی ہے اور پھر بانڈی پورہ کے قریب سے ہوتے ہوئے پھر پاکستانی کشمیر میں نیلم بن کے بہتی ہے۔کشن گنگا کا پاکستانی کشمیر میں نیلم بنتے ہوئے بہنا بر صغیر میں مذہبی،ثقافتی و لسانی تضاد کی مظہر ہے۔کشن گنگا پہ پاور پروجیکٹ کی تعمیر 2007ء میں شروع ہوئی اور بھارت کے اس اقدام پر پاکستان نے 2010ء میں اعتراض کرنا شروع کیا ۔بھارت اور پاکستان میں جہاں بہت سارے اختلافات ہیں، وہیں کشن گنگا پاور پروجیکٹ بھی نزاع کا سبب بن گیا ہے۔پچھلے دنوں کشن گنگا پاور پروجیکٹ جو کہ 330 میگاواٹ کی جنریشن پہ مشتمل ہے، کی رسم افتتا ح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں انجام پائی ۔ 330 میگاواٹ کے اس پروجیکٹ کے تین یونٹ ہیں (3 x 110 MW) اور یہ 864 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تعمیر ہوا ہے۔ رسم افتتاح سے ایک دن پہلے پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اس ڈیم کی تعمیر پر شدید اعتراض کیا اوراعتراضات کی یہ فہرست لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت و پاکستان کے مابین کشن گنگا پاور پروجیکٹ پر اختلاف آج تک بہت سارے مراحل سے گذرا ہے لیکن اس پر بھر پور تبصرے سے پہلے ہمیں بر صغیر ہند و پاک سے متعلق آبی مسائل کی روداد پہ نظر ڈالنی ہو گی تاکہ کشن گنگا پاور پرجیکٹ کے ضمن میں بھارت و پاکستان کے مابین نزاع کے پس منظر کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھا جا سکے۔
بر صغیر میں پانی ایک مسلٔہ بنتا جا رہا ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی پانی ایک مسلٔہ بن گیا۔عام تصوریہی ہے کہ گرداسپور کے حصول کا مدعا و مقصد جموں و کشمیر میں راہداری کا حصول تھا ۔کہا جا سکتا ہے کہ مسلہ یہی تک محدود نہیں تھا کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا جائے بلکہ مسلہ بر صغیر کے شمال میں پانی پہ مکمل کنٹرول کا حصول تھا ۔ سیکورٹی زاویے سے دیکھا جائے تو بھارتی سیکورٹی کیلئے جموں و کشمیر مغلیہ سلطنت کے دوران ہی حیاتی بن گیا تھا اور شہنشاہ اکبر نے 16 ویں صدی کے آخری چوتھائی میں مخصوصاََ 1580 کے دَہے میں کشمیر کو حاصل کرنے کی سعی میں کوئی بھی وقیفہ فرو گذاشت نہیں کیا اور بھارتی حکمرانوں مخصوصاََ پنڈت جواہر لال نہرو نے 20 ویں صدی کے وسطی سالوں کے دور ور وہی کیا جو شہنشاہ اکبر کی صدیوں پہلے روش رہی۔ تاریخ اپنے اوراق کو دہراتی رہی جو کہ تاریخ کی ایک شناخت ہے ۔کشمیر تو بھارت کا حصہ بن ہی گیااور اُسی کے ساتھ سندھ طاس کا وسیع مغربی سلسلہ جو ریاست جموں و کشمیر کے تین دریاؤں ، جہلم،پنجاب و سندھ پہ مشتمل ہے بھارت کی دسترس میں آ گیا۔سندھ طاس کے مشرقی دریا ،راوی،ستلج و بیاس پہلے ہی بھارت کی دسترس میں آ چکے تھے جب پنجاب بھارتی و پاکستانی پنجاب میں تقسیم ہوا۔
سندھ طاس کے مشرقی و مغربی دریاؤں کا منبہ ہمالیائی پہاڑی سلسلہ ہے جو سر سبز وادی کشمیر کو گھیرے ہوئے ہے اور پنجاب و سندھ کے میدانی علاقوں کی کھیتی کو سیراب کرتے ہوئے بحیرہ عرب کی وسعتوں میں سمو جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے پرکھا جائے تو اور دریائی سلسلوں کی مانندسندھ طاس دریائی سلسلے کے کناروں پہ بھی بستیاں بستی گئیں ۔پنجاب اور سندھ میں بستیوں سے تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ افسانوی داستانیں منسلک ہوئیںمثلاََ پنجاب میںسوہنی مہیوال و وارث شاہ کی ہیر رانجھا اِنہی دریائی سلسلوں سے وابستہ ہے۔اِسی طرح عربی لٹریچر نیل و عرفات سے جڑا ہوا ہے چناچہ یہ دریائی سلسلے نہ صرف ادب کو متاثر کر گئے ہیں بلکہ ثقافت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بستیاں پھیلنے لگیں اور اِن بستیوں کی آبیاری و سیرابی کیلئے نہری سلسلے وسیع تر ہوتے گئے۔نہریں دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کو موڑ کے ترتیب پائیں۔
تقسیم بر صغیر ہند و پاکستان کے وقت تقریباََ 26 ملیون ایکڑ اراضی سندھ طاس کے وسیع آبی سلسلے سے سیراب ہوتی تھی ۔ ظاہر ہے کہ آج کے دور میں زیر کاشت زمین اِس تخمینے سے زیادہ ہی ہو گی ۔ سندھ طاس کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ پورے عالم میں کوئی بھی آبی سلسلہ اتنی وسیع اراضی کو سیراب نہیںکرتا لیکن اِن آبی سلسلوں سے جڑی تاریخ ،ثقافت وافسانوں نے تقسیم کو مشکل سے مشکل تر بنایاچناچہ یہ احساس تقویت پاتا گیا کہ صرف و صرف مذہب کو بر صغیر کی تقسیم کامعیار نہیں بنایا جا سکتا حالانکہ تقسیم اِسی غرض سے ہوئی تھی۔ مذہب کے ساتھ ساتھ دو نو زاد مملکتوں کی انتظامی صلاحیت کو تحفظ بخشنے کی بات سامنے آئی جنہیں لغت فرہنگی میںموضوعات ثانوی 'Other Factors' کا نام دیا گیا جس میں دریائی بہاؤ[Run of the River] منبہ آب[Water Head] اور منبہ آبپاشی [Irrigation Head]شامل رہے اور اِنہی موضوعات یا شاملات تقسیم کاری کے سبب گرداسپور بھارت کا حصہ بن گیا اور ایسے میں جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ سندھ طاس کے منجملہ مشرقی و مغربی دریاؤں پر بھارت کی بالادستی قائم ہوئی۔مسلہ کشمیر کے ساتھ ہی سندھ طاس کا آبی سلسلہ دو نو زاد ملکوں میں مسلے کی صورت اختیار کر گیا۔
سندھ طاس معاہدے سے پہلے 4مئی 1948 ء کے ایک بین الْمملکتی معاہدے کے تحت پاکستان کو پیسے کی ادائیگی کے عوض پانی فراہم کرنا طے پایا البتہ یہ سمجھوتہ عبوری تھا تا اینکہ ایک حتمی معاہدہ طے پائے ۔ بگذشت زمانہ یہ تصور پیش آیا کہ سندھ طاس معاہدے سے بر صغیر کے سیاسی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔یہ تصورسب سے پہلے امریکہ کی وادی ٹینیس کی آبی انتظامیہ کے چیرمین ڈیوڈ لینتھال [David Lilienthal] نے دیا جو کہ امریکی ایٹمی توانائی کمیشن کے چیرمین بھی رہ چکے تھے۔موصوف کو گذشتہ صدی کے پانچویں دَہے کے دوران امریکہ کے مشہور جریدے’کولیر س‘ کی جانب سے یہ ماموریت ملی تھی کہ وہ جریدے کیلئے بر صغیر کے حالات کے بارے میں کچھ مقالے رقم فرمائیں چناچہ امریکی وزارت خارجہ نے اُن کے دورے سے سفارتی فائدہ حاصل کرتے ہوئے اُنہیں ہند امریکی رشتے میں جو خلیج در پیش تھی اُسے پاٹنے کی کوشش کے علاوہ ہند وپاک رشتوں کی نوعیت کے بارے میں جاننے پہ مامور کیا۔ ڈیوڈ لینتھال نے ہند و پاک کے حکام کے ساتھ رابطے اور حالات کی جانچ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ کشمیر میں تناؤ کو کم کرنے کا یہ وسیلہ ہو سکتا ہے کہ سندھ طاس کو باہمی مشاورت و موافقت سے منظم کیا جائے۔موصوف نے اپنے ایک مقالے میں عالمی بنک کے کرتا دھرتاؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ درمیانہ داری سے یہ مسئلہ سلجھائیں۔ مشکل جو آج ہے وہ تب بھی تھی۔بھارت درمیانہ داری کے لئے تیار نہیں تھا۔ سندھ طاس پہ منجملہ کنٹرول کے سبب بھارت کو کوئی پریشانی بھی لا حق نہیں تھی البتہ بھارت کیلئے آبی تقسیم کے عالمی معاہدوں سے گریزمشکل سے مشکل ترہوتا جا رہا تھا۔بھارت نے کشمیر مسلے کی مانند دو طرفہ مذکرات پہ زور دینا شروع کیا اور ایسے میں ہیگ کی عالمی عدالت کے قانونی حل سے بھی گریز کیا گیا۔۔ ڈیوڈ لینتھال کے 1951ٗء کے دورے کے وقت صورت حال یہی تھی۔
عالمی بنک کے صدر اوجین آر بلیک نے بھارتی حساسیت کا توڑ ایسے کیا کہ درمیانہ دار کے بجائے مصالحت کار کارول نبھایا۔ آوجین آر بلیک نے مشرقی و مغربی دریاؤں کی تقسیم کاری کا فارمولہ پیش کیا جو کہ بھارت کی عین خواہش کے مطابق تھا جس پر پاکستان نے اعتراض کیا کیونکہ مشرقی دریاؤں کے منجملہ بھارتی کنٹرول سے پاکستانی پنجاب کے مشرقی علاقوں کی آبیاری متاثر ہوتی تھی اُس کا تدراک ایسے کیا گیا کہ نہری پانی کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا گیاجس سے آبیاری ممکن ہوئی۔اِس نہری سلسلے کے لئے بھارت نے سرمایہ دینے سے انکار کیا چناچہ عالمی بنک نے سرمایہ فراہم کیا اور پیسہ امریکی و برطانوی حکومت نے دیا۔سندھ طاس معاہدہ 19 ستمبر 1960ء میں بمقام کراچی مابین ہند و پاکستان طے پایا۔ مشرقی دریاؤں پر بھارت کو مکمل کنٹرول حاصل ہوا اور مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق مانا گیا البتہ دریائی بہاؤ [Run of the River] کی حد تک بھارتی منصوبہ بندی کا حق محفوظ رہا۔انڈس واٹر کمیشن قائم ہوا جس کے بھارتی و پاکستانی کمشنر کمیشن کے ممبراں کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کی نظارت پہ مامور ہوئے۔حالیہ سالوں میں کئی دفعہ یہ خبریں ملتی رہیں کہ جموں و کشمیر کے پن بجلی منصو بوں پر پاکستان نے مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کے اعتراضات اٹھائے۔اِن اعتراضات میں کشن گنگا پاور پروجکٹ پہ اعتراضات سر فہرست ہیں۔
2010ء میں جب پاکستان نے 2007ء میں شروع ہوئے کشن گنگا پروجکٹ پہ اعتراض اٹھایا تو پاکستان معاملے کو ہیگ کی عالمی عدالت میں لے گیا جہاں ممالک کے درمیان جھگڑوں کو مفاہمت سے سلجھانے کی کوشش ہوتی ہے گر چہ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔عدالت نے 2013 ء میں بھارت کے حق میں فیصلہ دیا از اینکہ اِس پروجکٹ کی منصوبہ بندی دریا کے بہاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے جو کہ سندھ طاس معاہدے کے تعین شدہ اصولوں کے عین مطابق ہے البتہ اِس فیصلے میں پاکستان کے مفادات کو بھی مد نظر رکھا گیا چناچہ اِس فیصلے میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ بھارت ڈیم کی تعمیر اِس انداز میں کرے جس سے دریا میں حد اقل بہاؤ کو یقینی بنایا جا سکے اوڈیم کی تعمیر کے بعد روز مرہ آپریشن میں اِس بہاؤ کو بنائے رکھے۔عدالتی فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت نے ڈیم کی اونچائی کو 98میٹر سے 37میٹر پہ لایا تاکہ پانی کا بہاؤ متاثر نہ ہو ۔قارئین یہ ذہن میں رکھیں کہ جموں و کشمیر سے گذرتے ہوئے سندھ طاس کے مغربی دریاؤں پہ بھارت کو پانی کے بہاؤ کو متاثر کئے بغیر ڈیم بنانے کی اجازت ہے تاکہ مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو میسر رہے۔
1916ء میں پاکستان نے عالمی بنک سے گذارش کی کہ وہ سلسلہ جنبانی کیلئے ایک عدالت تشکیل دے دے لیکن بھارت اِس کیلئے تیار نہیں تھا بلکہ بھارت کا نظریہ یہ رہا کہ غیر جانبدار مبصرین مقرر کئے جائیں پاکستان اِس نظریے کے خلاف رہا چونکہ غیر جانبدار مبصرین کا فیصلہ عدالتی فیصلے کی مانندطرفین کیلئے واجب الاجرا نہیں مانا جاتا۔عالمی بنک نے دونوں تجاویز پہ عمل در آمد شروع کیا لیکن طرفین کے کسی سمجھوتے پہ نہ پہنچنے کے سبب مسلے کو التوا میں ڈالا گیا۔ ہند و پاک میں کوئی بھی اپنی تجاویز سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھا لہذا معاملہ جوں کا توں پڑا رہا ۔ مسلے کو سلجھانے کیلئے آخری مٹینگ ستمبر 2017ء میں انجام پائی لیکن یہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ کشن گنگا کی ابتدائی تقریب کے بعد پاکستان ایک دفعہ پھر شاکی بن کے عالمی بنک میں ایک دفد لے کے پہنچا ہے جس کی قیادت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کر رہے ہیں۔
بھارت چونکہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر میں پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا پاکستان نے نیلم پہ ایک ڈیم کی تیاری شروع کی اور کچھ ہی وقت پہلے اُس کی رسم ابتدا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں تکمیل پائی ۔ دونوں بڑے ممالک کی اِس جنگ میں ریاست جموں و کشمیر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی چونکہ آر پار کا پانی ریاست کی ملکیت ہے لیکن پانی کا نایاب ذخیرہ استعمار کا شکار ہے۔اپنے ہی ڈیموں سے تولید شدہ بجلی ریاست کو 12یا 13 فیصد سے بیشتر میسر نہیںباقی بھارتی ریاستوں میں حسب منشاء بھارت سرکار تقسیم ہوتی ہے۔رہی بیچاری مظلوم ریاست وہ تو ہر سال کم و بیش 4000 کروڑ روپیہ کی بجلی خریدنے پہ مجبور ہے جبکہ اپنے پن بجلی منصوبوں سے تولید شدہ بجلی ریاست کیلئے نہ صرف کافی ہے بلکہ مزید آمدن کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ثانیاََ یہ بھی مشخص نہیں کہ پن بجلی منصوبوں کیلئے جس زمیں کی ضرورت پڑتی ہے اُس کا حصول قانونی طریقے سے ہوتا بھی ہے یا نہیںچونکہ ریاست جموں و کشمیر میں کسی بھی مرکزی منصوبے کیلئے زمین کے حصول کے قانونی طریقے پہ آئین ہند کی دفعہ256(2) کا اطلاق الزامی ہے جس میں زمین سرکار ہند قانونی طریقے سے حاصل کرنے کے بعد متعلقہ مرکزی ایجنسی کو تعویض کرتی ہے ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہ مراحل قانونی مراحل بہ نحو احسن انجام پاتے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ یہاں ہر چال بے ڈھنگی سی نظر آتی ہے۔
Feedback on: [email protected]