گزشتہ سال سرینگر ؍ بڈگام پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک شہری فاروق احمد ڈارکو فوجی گاڑی سے باندھ کر انسانی ڈھال بنانے پر انعام پانے والے میجر لتل گگوئی کو حال ہی میں سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں کسی دوشیزہ کے ساتھ مشکوک حالت میں پایا گیا۔اس واقعہ پر نہ صرف کشمیر میں فوجی زیادتیوں پر ایک نئی بحث چھڑ گئی بلکہ عوامی سطح پر بوال کھڑا ہوا ۔ اس دوشیزہ کی والدہ کے بیان سے متاثرہ کنبے کی بے بسی اور کسمپرسی جو تصویرجھلکتی ہے ،اُس نے کشمیری عوام کا اجتماعی ضمیر جھنجوڑ کے رکھ دیا ۔سوشل میڈیا پر اس واقعہ کے لئے کچھ لوگوں نے دوشیزہ اور اس کے اہل خانہ کو قصوروار ٹھہرا تے ہوئے انہیں کڑی سے کڑی سزا دینے کی تجویز دی،جب کہ کچھ لوگ اسے اجتماعی ضمیرکی عدم حساسیت پر محمول کر کے مرثیہ کر تے ہیں کہ فوجی آ فیسر نے اس بچی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش اسی وجہ سے کی کہ ہم سوئے ہوئے ہیں۔بہر حال جو بھی ہو اس واقعہ نے ایک طرف کشمیر میں جمہوریت کے لبادے میں فوجی حاکمیت کا پردہ فاش کیا ، دوسری طرف کشمیر یوںکو بھی گہری نیند سے جگایا ۔ لطف کی بات یہ کہ سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کارگذار صدر عمر عبداللہ کو بڑی دیر بعد اپنے ا نتخابی حلقہ کا متاثرہ مفلوک الحال کنبہ یاد آیا اور ضلع ترقیاتی فنڈ سے 1لاکھ30ہزار کی رقم مذکورہ دوشیزہ کے والد کو مکان کی تعمیر کے لئے دئے جانے کا اعلان کروایا۔ یوں اس عام تاثرکو زائل کر نے کی کوشش کی گئی کہ شورش زدہ علاقوںمیں فوج جنسی استحصال کو عوامی مزاحمت کے خلاف ایک جنگی حکمت عملی کے طور استعمال کرتی ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ ماضی میں بھی یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ فوج وردی کے بل پر اور خوف کے ہتھیار سے لیس ہوکر غریب وبے آسرا لڑکیوں کی مفلسی کا ناجائز فائدہ اٹھا تی رہی ہے ۔اس کی زندہ مثال کنن پوشپورہ اور کپواڑ ہ کی اجتماعی بے آبروئیوں کے قصے ہیں ۔ جموں کشمیر کی عصری تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی فوجی کو نہتوں کے خلاف ایسی مذموم کارروائی پر قانونی طور کوئی سزا نہیں دی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ متعلقین نے میجر گگوئی کی اس شرم ناک حرکت کے حوالے سے لڑکی کا جو’’ عدالتی بیان‘‘ جاری کیا ہے،وہ اس کیس کی نوعیت کو بدلنے کی ایک منصوبہ بند کوشش ہے۔ البتہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اس واقعہ پر دلی کی کہیں سیاسی شخصیات نے سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے چشم کشا تا ثرات تحریر کئے ہیں ۔دلی میں کمیونسٹ پارٹی پولٹ بیرو ممبر کویتا کرشنن نے پولیس کی طرف سے جاری کردہ مجسٹریٹ کے سامنے دئے گئے لڑکی کے اس بیان پر سوال اٹھایا ہے کہ حراست میں لڑکی سے لئے جانے والے بیان کو بھی تشدد آمیز بیان کے طور پر تصور کیا جانا چاہئے نہ کہ لڑکی کا قابل اعتماد بیان ،اور یہ متعلقہ ایکٹ کی سراسر خلاف ورزی ہے۔وہ لکھتی ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ میجرگگوئی لڑکی کو کسی خاص آپریشن کے لئے بطور خبری استعمال کر رہا تھا تو ایسی صورت میں بھی یہ فوجی آفیسر کی طرف سے اختیارات کا ناجائز استعمال ہے کیونکہ میجر جب کسی عام محفوظ مقام پر ہی لڑکی سے مل سکتا تھا تو اُسے کیا ضرورت پڑی ہوٹل میں روم بک کرنے کی؟ کویتا اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کے حوالے سے جنسی استحصال کی وضاحت میں لکھتی ہیںکہ ’’ڈرادھمکا کر جنسی نوعیت کی جسمانی مداخلت چاہے زبردستی ہو یا غیر مساوی تشدد آمیز حالت کے تحت ہو ، دونوں صورتوں میں وہ جنسی استحصال مانا جائے گا اور ایک فوجی آفیسر کسی غیر لڑکی کے ساتھ ہم پایہ تعلقات کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کیونکہ دونوں کا رشتہ برابر نہیں ، بلکہ یہ فوجی آفیسر کی جانب سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال مانا جائے گا ۔آفیسر نے اپنے رتبے اور فوجی قواعد وضوابط کو روند کر انسانی ٹریفکینگ کے ارادے سے ہوٹل میں رات کے لئے روم بک کیا تھا ۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ میجر گگوئی نے اپنے آعلیٰ آفیسر کو اطلاع کئے بغیر فوجی قانون کے سیکشن 141آف آرمی 1950ایکٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے سول کپڑوں میں مقامی آبادی میں سکونت اختیار کی جس کے باعث نئے اشکالات کھڑے ہوتے ہیں ۔
جہاں تک فوجی قوانین اور خصوصی آپریشن کے طریق کار کا تعلق ہے، ان کے مطابق ’فوجی آفیسرسول کپڑوں میں نہ مقامی آبادی والے علاقوں میں جا سکتا ہے نہ ہی وہ مقامی گھروں اور ہوٹلوں میں سیکورٹی بندوبست کے بغیر سکونت اختیار کر سکتا ہے، چاہئے اپنے خفیہ ذرائع کے ساتھ کتنی ہی خفیہ اور خصوصی میٹنگ کیوں نہ طے ہو، ایسے خفیہ ٓاپریشن کی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے فوج کی ملٹری انٹیلی جنس پہلے سے ہی قائم ہے ۔ میجر کے مشکوک ارادوں کا اظہار اس بات سے بھی ہوتاہے کہ وہ فوج کی وکٹر فورس ضلع بڈگام میں تعینات ہیں،اور وہ11 ؍ ویں کلاس کی غیر شادی شدہ لڑکی کے ساتھ سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل کو منتخب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو 15؍ویں کور کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ سرینگر کے چھتہ بل علاقے میں ہوئے حالیہ تصادم اور پورے ملی ٹینٹ مخالف آپریشن کے دوران بھی15؍ویں کور کی فوج کا کہیں کوئی عمل دخل نہیں رہا، کیونکہ یہ ان کی جورس ڈکشن میں نہیں آتا تھا ۔ ادھر فوجی سربراہ کی جانب سے مجرم ثابت ہونے کی صورت میں میجر گگوئی کو عبرتناک سزا دینے کے بیان کے فوراً بعد فوج نے اگرچہ واقعہ کی نسبت کورٹ آف انکوائری کے احکامات صادر کئے ، تاہم ایک سینئر فوجی آفیسر کے بیان کے مطابق آگے کی کارروائی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے ثبوتوں کی بنا پر ہی کی جائے گی ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ کیس کے حوالے سے فوج کی جانب سے میجر اور دوسرے فوجی اہلکار کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی عمل میں لائے جانے کا امکان تقریباً معدوم ہے ۔
بہرحال لا قانونیت اوراندھیر نگری کے اس عالم میں عوام کو خود چوکنا رہنا ہوگا ، خاص کر والدین کو اپنے بچوں پر توجہ مرکوز کر نی ہوگی اور جوان سال لڑکوں اور لڑکیوں کو ہر مشکل حالت کا دانشمندانہ مقابلہ کرنے میں آگے آنا ہوگا ۔ کشمیر اپنے مذہبی تشخص اور بہترین انسانی اقدار و اخلاق کے معاملے میںشہرہ ٔ آفاق کی حیثیت رکھتاہے۔ ہمیں اپنی ان آبائی خصوصیات کے تحفظ و فروغ کے لئے نہ صرف اپنے اردگرد غر باء کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا بلکہ جہاں بھی فوجی جماؤ ہو ، وہاں اپنی بہو بیٹیوں کی عزتیں نیلام کرنے والوں کے تمام شیطانی منصوبے ناکام بنانے کے لئے خود کمر ہمت باندھ لینی ہوگی تا کہ جو کوئی آنکھ ہماری عزت کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے اُسے ہم پھوڑ ڈالنے میں پل بھر کی بھی تاخیر نہ کریں ۔ ا س سلسلے میں گرینڈ ممتا ہوٹل کا سارا عملہ اور مقامی بستی مر حبا اور آفرین کے مستحق ہیں جنہوں نے میجر گگوئی کا دال آٹے کابھاؤ بتایا۔
نوٹ:مضمون نگار کشمیر عظمیٰ سے وابستہ ہیں۔
رابطہ :9797205576،[email protected]