اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ بھارت کے متعصب میڈیا نے عناد اور زہرناکی میں تو پہلے ہی تمام حدیں پار کی ہوئی ہیں۔ یہ کشمیر کی ایک اصولی، اخلاقی اور تاریخی جدوجہد کے خلاف اپنی ذہنی انارکی کے دلدل میں یہ کس طرح الجھا ہوا ہے کہ بس لچر پوچ باتوں اور ہوائی قلعوںمیں رہ کر جھوٹ پہ جھوٹ کہہ کر اپنا دل بہلاتے ہیں۔ تھوڑے وقت کے لئے وہ اپنے مذموم پروپیگنڈے سے سچ کو جھوٹ کا لبادہ پہناتے ہیں لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں، وقت کی چلت پھرت کے گندے میڈیا کے سارے پروپیگنڈے کی ہوا نکل کر ثابت ہوتا ہے کہ وہ خباثت اور ذہنی انارکی کا مریض ہے۔ ان کی یک طرفہ جنگ سے کیا کشمیری عوام جذبہ حریت کو لوگوں کے سینوںسے باہر نکالا جا سکا؟ کیا آزادی کے جلسے جلوس بند ہوگئے؟کیا پتھراؤ ختم ہوا؟ کیانوجوانوں کی زندگیاں اور بینائیاں چھیننے سے آزادی کی مانگ کم ہوگئی؟ نہیں، واقعتاََ نہیں بلکہ اُس ولولہ اور شوق میں مزید اضافہ ہوا، جس کا اب ہر روز کشمیر کے گوشہ گوشہ میں اظہار ہورہاہے۔ کسی بھی چلینج کا مقابلہ کرنے کے لئے آخری طاقت لوگوں کے پاس ہوتاہے۔ لوگ اگر ظالم کے چلینج سے مرعوب نہ ہو ں، دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہرا نہیں سکتی۔ اس وقت ایک چلینج کشمیر کا زکے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی صورت میں موجودہے جس سے ایک منظم سازش کے تحت عام لوگوں میں کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈوں کے شکار سادہ لوح عوام بھی نہیں ہوتے ، فہمیدہ لوگوں کی بات نہیں۔ اگر سوسائٹی ان چیزوں کا توڑ کر تی ر ہے تو پھر استعماری جھوٹوں کا غالب ہونا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔اس کا بر ملا ثبوت اس وقت اہل کشمیر دے رہے ہیں۔ یہ اسی مدافعانہ توڑ کا کمال ہے کہ پچھلے ایک سال سے چلے آرہے انتفاضے کا کوئی پروپیگنڈا توڑ نہیں کر سکا، چاہے وہ اوڑی کا ڈھونگ تھا یا سرجیکل اسٹرائک کا خود ساختہ بیانیہ، مزاحمتی لیڈران کی کر دارکشی تھی یا پاکستان کو عالمی معاملات میں الگ تھلگ کرنے کی ناکام کوششیں۔ جھوٹ کے ان ہی پیروں سے چل کر اور پر وں سے اڑ کر این ائی اے (NIA)کا ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔ اس کے چھاپے اور دعوے بھی کشمیر کے اصل سوال کا جواب نہیں ۔ فی الحقیقت کشمیر میں ما بعد برہان حالات کی نامساعدت ، قتل وغارت، پیلٹ حملے اور کرفیواور ہڑتال کا طویل سلسلہ تھم گیا مگر اب بھی اس کی صدائے بازگشت کسی نہ کسی صورت میں سنی جاری ہے۔ اگرچہ ایک سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اتنی تاریخ ساز ہڑتال کرنے کے بعد بھی بھارتی حکمرانوں پر کوئی دبائو پڑا نہ ہی پاکستان کے بغیر کسی ملک نے ڈھارس بندھائی اور نہ ہی کسی عالمی ادارے یا نام نہاد عالمی رائے عامہ نے ہماری مشکلوں کا ازالہ کر نے میں کوئی عملی اقدام کئے۔ حالات کی نہج سمجھنے کی بجائے ہندوستان نے یہاں ضمنی پارلیمانی الیکشن کرایا جس نے اس کی ساری کشمیر پالیسی کی کھوکھلاہٹ کو تمام تر ظاہر کیا ۔ووٹر ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا تو دلی کے سات سواروں کو خفت اٹھانی پڑی۔اس زخم خوردہ نفسیات کی خفت مٹانے کے لئے اب اندھا بہرا ہندوستانی میڈیا ہماری تحریک کو اَن گنت سازشوں و پروپیگنڈوں کی بھینٹ چڑھا نے کے درپے ہے ۔ یہ بات لائقِ اعتناء ہے کہ موجودہ سیاسی حالات کے پس منظر میں جب کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمانہ پالیسی پر بضد ہے، ہڑتال سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ اکیسویں صدی کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں جب کہ باقی دنیا کے لوگ سیکنڈوں کا حساب رکھتی ہے، کوئی وجہ نہیں کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے متوقع طور پر کسی خاطر خواہ نتیجہ کی امید نہ ہو۔ عوامی ہڑتالیںدیکھ دیکھ کر جب ظالم وجابر قوت اس کی عادی ہو چکی ہوتو لوگوں کو کوئی اور پُرامن ذریعۂ احتجاج تلاش کرنا ہوگا کو کشمیر کاز کے شایان شان ہو۔ ان حوالوں سے ریاست کی مزاحمتی لیڈرشپ نے بارہا سرکردہ لوگوں سے استفسارات کئے کہ کیا کیا جانا چاہیے؟یہ سوال کرنا آسان ہے مگر اس کا خاطر خواہ جواب ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہاں یہ بات باور کرانے کے لائق ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریکِ جدوجہد کوئی کھیل تماشا نہیں ہے جس سے لوگ اپنی دل بہلائی کریں ، نہ یہ کسی فرد کی ذاتی پراپرٹی ہے کہ وہ اس کا جو چاہے کر گزرے بلکہ یہ ایک مقدس عوامی تحریک ہے جس کے پیچھے انسانی قربانیوں کی ایک ناقابل بیان داستان ہے ۔ یہ کوئی ہوائی قلعہ بھی نہیں بلکہ اس کاز کا اپناایک ٹھوس اخلاقی، قانونی اور تاریخی جواز ہے ۔ مزید برآں اس کے متعلق یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس پر اللہ ربِ ذوالجلال کا سایہ ہمیشہ سے ہے جو اس کی تائید میں کمک پہنچاتا رہتا ہے۔ اسی سایہ رحمت کے تلے ہم دیکھتے ہیں کہ متعصب میڈیا کے کشمیر مخالف کذب بیانیوں اور کور دماغ سیاسی نیتاؤں کی ریشہ دوانیوں کے باجود اب کشمیری جوانوں کے ساتھ طلبہ وطالبات بھی آزادی کا نعرہ بلند کر کے عالمی میڈیا کو اپنے جذبات و احساسات کی طرف متوجہ کیا ۔ سی این این، الجزیرہ،بی بی سی اور دیگر عالمی نیوز ایجنسیوں مسلسل اپنے خبروں اور فیچر وںمیں کشمیر کو سر فہرست رکھے ہوئی ہیں ، ہندوستان کے بعض موقر اخبارات بھی کشمیر ی طلبہ و طالبات کے احتجاجوں کو اجاگر کر کے ہندوستانی سیاست اور رائے عامہ میں میں کھل بل مچا رہے ہیں ۔ یہاں پر ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ سٹوڈنٹ ایجی ٹیشن سے قبل طلبہ برادری کو بھاشن دئے جارہے تھے کہ کوئی’’ دست غیب‘‘ ہے جوان کا مستقبل اور تعلیمی کیر ئر تباہ کرنا چاہتا ہے، اُن سے ہوشیار رہاجائے ہے، لیکن آج وہ خود تعلمی ادارے بند کر نے کی پالیسی کا الزام سے دیں ؟ پہلے امن کے نام پر اسکولوں کا کھلنا ضروری سمجھا جاتاتھا، لیکن آج الٹا امن قائم کرنے کے لئے اسکولوں کو بند رکھنا جارہا ہے۔ بہر صورت یہ اندھے میڈیا اور سنگدل سیاست دانوں کے بس کا روگ نہیں کہ وہ کشمیر کا ز اور عوامی مزاحمت کا مقابلہ کرسکیں۔ بہتر یہی ہے کشمیر حل کے لئے ٹھوس اور نیتجہ خیز قدم ا ٹھائے جائیں ۔
رابطہ9622939998:
ای میل[email protected]