اسوقت جبکہ یہ سطور رقم کی جارہی ہیں ، کشمیر میں یہ رواں عوامی تحریک جسے تحریکِ ٓزادیٗ کشمیر کا چوتھا انتفاضہ کہا جانا چاہئے ،کا۱۲۳ ؍واں دن چل رہا ہے اور غالباً ہر کشمیری کے ذہن میں یہ سوال جواب طلب ہے کہ آگے کیا ہوگا یعنی اس انتفاضہ کا کیا انجام ہوگا؟ آج سے قبل ۲۶ برس قبل یعنی سنہ نوے سے کشمیر میں مختلف ا لنوع انتفاضہ جاری ہیں ۔ ہم اگر کشمیر ی انتفاضوں کی حصولیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں کا محاسبہ کر نے کو نظر انداز کرگئے تو پھر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم آگے بڑھنے میں کوئی چوک کریں گے ۔ا سی ضمن میں میری یہ چند گزارشات پیش خدمت ہیں :
جامع اور ہمہ گیر سٹریٹجی : کشمیر حل کے لئے ظاہری طور پر جو زرائع اور اسباب غالباً ہر کشمیری کے ذہن میں ہیں، وہ تین قسم کے ہیں ۔نمبر ایک کوئی ممکنہ انتہائی سطح کا نتیجہ خیز انتفاضہ، نمبر دوعالمی اداروں کی مداخلت سے ہند و پاک کے درمیان معنی خیز بات چیت ، اور تیسراہندو پاک کے درمیان جنگ۔جہاں تک ثانی الذکر دو اقسام کا تعلق ہے تواس چیز میں عالمی ادارے کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے کچھ کرنے کے لئے مجبور کرنے میں خود کشمیری لوگ یقینی طور پرکسی قدر کردار ادا کرسکتے ہیں، جہاں تک ہندو پاک کے درمیان کسی امکانی جنگ کا تعلق ہے تو اِس چیز میں کشمیری کا کوئی پیشگی رول نہیں، البتہ جہاں تک اولالذِکر قسم یعنی نتیجہ خیز انتفاضہ کا تعلق ہے تو اِس میں کُلی طور پر کشمیریوں کا کردار بنتا ہے۔ جس کے لئے ایک جامعہ اور ہمہ گیر سٹریٹجی ناگزیر ہے۔علمِ حیاتیات میں’’ یک خُلیائی‘‘ جاندارایک خاص عمل سے اپنی بقا قائم رکھتے ہیں، وہ یوں کہ خلیئے کے اندر آہستہ آہستہ ایک اور خُلیہ بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اندر ہی اندر سے بن رہا نیا خُلیہ اپنے اندر تمام ضروری جُزیات جمع کرلیتا ہے اور جب اُسے لگتا ہے کہ وہ مکمل طور پر الگ سے زندگی گزارسکتا ہے تو وہ علحیدہ ہونے کی ایک عمل شروع کرتا ہے جِسے سائنس میں Fragmentationکہتے ہیں، اور اِس عمل کے زریعے سے نیا خلیہ آزادی حاصل کرتا ہے۔ لیکن آزادی حاصل کرنے سے قبل وہ خلیہ پہلے یہ جائزہ لیتا ہے کہ کیا الگ طور سے زندگی گزارنے کے لئے اسکے پاس تمام جزیات موجود آگئے ہیں تو تب جاکر وہ علحیدہ ہوجانے کی عمل شروع کرتا ہے۔ یک خلیائی جانداروں کے اِس حیاتیاتی اصول میں تحاریکِ آزادی سے نبردآزما انسانوں اور قوموں کے لئے ایک بہت بڑا سبق مضمر ہے۔ جی ہاں وہ سبق تحریکِ خود انحصاری کا سبق ہے۔ حتمی انتفاضے یا سِول نافرمانی کا تقاضا یہ ہے کہ تیاری اور تقویٰ کے اعتبار سے نبردِ آزما قوم کو پہلے ’’ نا(No)‘‘ کا درجہ اور مقام حاصل کرنا چاہئے، اور پھر ’’جا‘‘ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کیونکہ’’جا(Go)‘‘ کا کام خود بہ خود عمل میں آجائے گا، جب مظلوم قوم کو ’’نا‘ کا رتبہ حاصل ہوچکا ہو۔اِس قسم کی تحریک کو’’نا ہند‘‘یا ہندوستان چھوڑدو تحریک کا نام دیا جاسکتا ہے، جسکے تحت کشمیریوں کو ایک میکینزم کو عملاتے ہوئے Dependenceکو ممکنہ سطح پر اور مدت کے ساتھ خیرباد کہنا ہوگا اور تمام قسم کے مراعات اور سبسڈیوں کو چھوڑنا ہوگا۔ یہ کام اگرچہ آج کے دور میں چنداں آسان نہیں تاہم ناممکن بھی نہیںبشرطیکہ اسکے خدوخال ماہرین کے ہاتھوں باضابطہ ریسرچ کے تحت کھینچے جائیں۔
منزل کی راہوں کا تعین :اگر آجکی اِس عوامی تحریک میں بھی ہم منزل تک پہنچھنے کی راہوں کا تعین کرنے میں ناکام رہے تو وہ ہمارے لئے ستم بالائے ستم ہوگا۔ آج کی تاریخ میں ہماری قیادت کو جو شرف نعمت حاصِل ہے وہ اتحاد ہے۔ اور اِس اتحاد کو ایک نعمت سے ہی تعبیر کیا جانا چاہئے۔ عوام مِن حیث القوم متحدہ قیادت کے پروگرام کے مطابق تابعداری کررہے ہیں۔ اب قیادت پر یہ فرضِ اولین ہے کہ وہ منزل کی راہوں کا تعین کرے۔ چناچہ منزل پہلے ہی متعین ہے، یعنی کشمیر کی آزادی،راہی بھی تابعدار اور تیار ہے اب منزل کی واضح اور مستحکم راہوں کا تعین کرنا باقی ہے۔
لمحہ فکریہ : سید علی شاہ گیلانی صاحب، میر واعظ محمد عمر فاروق صاحب اور محمد یٰسین ملک صاحب و دیگراںکی سربراہی میںمتحدہ قیادت کے لئے یہ ایک حد درجہ لمحہ فکریہ ہے کہ رواں عوامی تحریک کی قربانیوں کا تحفظ کیسے کیا جائے اور مستقبل کے لئے تعمیرِ تحریک کیسے کیا جائے۔ امید ہے کہ جملہ متحدہ قائدین اسکی طرف ترجیحی سطح پر غور و فکر کرکے لاٗیحہ عمل ترتیب دیںگے۔
ادارہ جاتی میکینیزم وقت کا اہم ترین تقاضا : حُریت کانفرنس ۱۹۹۳ میںمعرضِ وجود میں آنے کے بعداگرچہ حسبِ ضرورت اتحاد قائم نہیں رکھ سکی ، تاہم منقسم رہنے کے باوجود اسکی ایک سیاسی شناخت قائم ہوگئی اور اب جبکہ اسکی تاسیس کا ۲۳ واں سال چل رہا ہے، اسے بہرحال ایک مضبوط مزاحمتی سیاسی طاقت کی حیثیت حاصل ہے۔ حُریت کانفرنس کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وقت کا اہم ترین تقاضا یہ تھا کہ تحریک کو Institutionalize کیا جاتا مگر بدقسمتی سے ۲۳ سال گزرنے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہوسکا۔چناچہ تحریک کو انسٹیچیوشنالائز کرنے میں مزید تاخیرقربانیوں کے تحفظ میں تاخیر کے مترادف ہوگا۔ اسلئے وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ متحدہ قیادت اِس اہم مگر نظر انداز گوشے پر کام شروع کرے۔ رواں انتفاضہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو Institutionalizeکرنے میںسنگِ بنیاد ثابت ہوناچاہئے۔
مذکورہ انسٹیچیوشن ایک مضبوط ادارہ بننا چاہئے، جو منزل کی راہوںکا تعین کرنے کے لئے ہمہ وقت تحقیقی کام( Work Research) انجام دیتا رہے۔ اِس مجوزہ انسٹیچیوشن میں زندگی کے مختلف شعبہ جات کے ماہرین اتھارٹی سطح پر شامِل ہونے چاہیں۔ اِس ادارے کے کئی زیلی شاخ بھی ہونے چاہیں۔الغرض یہ ادارہ اس قدر مستحکم بننا چاہئے کہ یہ زندگی کے تمام شعبوں مثلاًتعلیم، صحت،تجارت، ثقافت، سیاحت، سماجیات، ٹرانسپورٹ و ابلاغ وغیرہ میں از روئے طرزِ عمل مزاحمت کو داخل کرنے کا طریقہ کار وضح کرے۔ یہ ادارہ بتحقیق یہ بتلانے کے قابل بننا چاہئے کہ عصرِ حاضِر کی سول نافرمانی تحریک کِس قسم کی ہوگی اور اسے کس طرح شروع کیا جاسکتا ہے۔ یہ مزاحمتی اظہارجامع اور ہمہ گیر سطح کا ہونا چاہئے۔ علمِ نباتات میں مثلاً خود انحصاری کے پسِ منظر میں یہ تحقیق بروئے کار لائی جانی چاہئے کہ کون سی مقامی فصلات کشمیر کے لئے موافق ہیں اور ایسی فصلات بوانے کا اعلان کیا جانا چاہئے اور اس فصل کا نام کسی مخصوص سیزن یا سال کے لئے’’ فصلِ آزادی‘‘ رکھا جانا چاہئے۔ اسی طرح فنِ تعمیر میں بھی مزاحمت کے نقوش مرتب کئے جاسکتے ہیںاِس طرح سے زمینی سطح پر متعلقین کی ایک قسم کی عملی شمولیت یقینی بن جائے گی۔
عام ہندوستانیوں پر میڈیا کی چھاپ ! رواں انتفاضے کے ابتدائی دنوں جب موبائل فون چل رہے تھے، دِلی سے ایک دوست نے فون کرکے خیر خبر پوچھکر کہا، ’’ آپ جیسے شریف لوگ گھر میں بیٹھے ہونگے‘‘ میں نے جواب میں کہا کہ جب وہ کشمیر آئیں گے جیسا کہ وہ بہت شوق رکھتے ہیں ، تو غور و خوض کرنے پر اصل بات جان جائیں گے۔۔۔اسی طرح ایک صحافی دوست نے بتایا کہ وہ مسلئہ کشمیر کے بارے میں’’جانکاری‘‘ رکھتا ہے، پوچھنے پر بتایا کہ اس نے شال پھیری کرنے والوں سے جانکاری حاصل کی ہے اور وہ یہ کہ کشمیر میں لوگوں کو بیروزگاری کا سامنا ہے۔ الغرض ہندوستان کا عام انسان بلکہ خود کو واقف کار کہنے والے تک اصلیت سے بے بہرہ ہیں، بلکہ ان پر متعصب ٹی وی چنلوں اور سرکار ی ٹی وی اور ریڈیو کی گہری چھاپ کے نقوش موجود ہیں جنہیں کو بروئے کار لاکر وہ کشمیر اور کشمیریوں کے تئیں سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
انٹرنیٹ اور دیگر جدیدقسم کے زرائع ابلاغ کی بہتر رسائی کے باوجود دنیا کے عام لوگ کشمیر مسلے ، یہاں کے حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس کوتاہی کو باضابطہ کاوشوں سے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کام کے لئے روایتی اور جدید وسائل کا استعمال ناگزیر ہے۔ لیکن یہ کام ایک مستحکم ادارہ ہی متواتر طور پر انجام دے سکتا تھا۔ مذکورہ انسٹیچوشن ہی ایسا کام ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ یہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ کشمیر میں اس قسم کا کام انجام دینے کے لئے انسانی وسائل کی کمی نہیں ہے۔اِس سلسلے میںجموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کا کام قابلِ ستائش ہے۔ایک معروف انگریزی محاورہ ہےKnowledge is power، یہ ایک علمی ہتھیار ہے جسکا اگر بتحقیق استعمال کیا جائے تو بڑی بڑی کامیابیوں کا متحمل ہوسکتا ہے۔ مسلئہ کشمیر پر لکھی گئی کتابوں اوراقوامِ متحدہ کی قرادادوں کوہندوستانی عوام تک پہنچھانے کے لئے مذکورہ ادارہ یا انسٹیچیو شن دنیا کی بڑی زبانوں کے علاوہ ہندوستان کی مقامی زبانوں میں ترجمہ کراکے پہنچھا سکتا ہے۔اسطرح سے ایک تسلسل کے ساتھ ہندوستان کے بڑے بڑے مصنف اور ترجمہ کار مسلئہ کشمیر سے واقف ہوجائیں گے۔ اسی طرح کشمیر مسلے پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور دیگر قسم کی دستاویزات کو ہندوستان کی مختلف زبانوں میں منظوم بنانے کے لئے ہندوستان کے بڑے بڑے عوامی شعراء کو واقف کار بنایا جاسکتا ہے۔ تاکہِ مسلئہ کشمیر کی اصل صورت کو ہندوستان کی مختلف کلاسک زبانوں میں موبائل فونوں کے زریعے عام آدمی تک پہنچھایا جاسکے۔ اس کام کے لئے مصنفین، شعراء اور فلمسازوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔مذکورہ ادارہ ہندوستانی قارئین تک صحیح صحیح حالات پہنچھانے کے لئے ہندوستان میں پرنٹ میڈیا سے وابستہ انجمنوں اور شخصیات کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔ پہلا کام تو یہ ہوگا کہ خود میڈیا کی شخصیات کو واقف کار بنانے کے لئے انکو وقت وقت پر کشمیر مدعو کیا جائے اور یہاں کانفرنسیں، سیمنار ، ورکشاپ اور انکے مختلف مقامات کے دورے کرواکے انکو روشناس کیا جائے اور پھر انکی خدمات کااستعمال کرنے کے لئے لوازمات پورے کئے جائیں۔
اعلیٰ ہستیوں کی ذمہ داری : اسی طرح خود جموں و کشمیر کے جملہ شعراء، ادباء اور دیگر فنون کی بااثر شخصیات کو اب کسی تاخیر کے بغیراعتماد میں لایا جانا چاہئے تاکہِ وہ فنی سطح پر اپنا کردار ادا کریں۔ علم و ادب اور دیگر زمروں میں اعلیٰ ہستیوں کو بھی ’’ غیر سیاسی حیثیت ‘‘ کا نام نہاد لبادہ اب چھوڑنا چاہئے اور حقیقی طور پر بڑے کاز کے لئے پیش پیش رہنا چاہئے۔ ایک مظبوط جسم یا کسی پہاڑ کی اگر بات کریں گے تو اسکے اندر بتحقیق درست اور مظبوط اعضاء یا زرات ہوتے ہیں، اگر ان نہایت ہی چھوٹے خلیوں یا زرات کی الگ سے بات کریں تو وہ بظاہر معمولی اہمیت کے دِکھتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ان بظاہر قابلِ نظر انداز خلیوں یا زرات کی اہمیت غیر معمولی نوعیت کی ہوا کرتی ہے۔دنیا کے آزادی اور انصاف پسند لوگ اور اقوام کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرتے ہیں اور جب ان ممالک کے میڈیا ادارے کشمیر کا زکر کرتے ہیں تو وہ ’بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر‘ کا مفروضہ استعمال کرتے ہیں۔ چناچہ آجکا دور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ جب ہم انٹرنیٹ پرممالک کی فہرست دیکھتے ہیں تو وہاں ایک بات کا فقدان نظر آتا ہے وہ یہ کہ کشمیر اور کشمیر کی سیاسی نوعیت جیسے دنیا کے دیگر خطئے، جو کہ الگ زمرے میں ہونے چاہیں تھیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ مثلاً آپ کسی یورپی یا کسی عرب ملک کی کسی ویب سایٹ پر جغرافیائی لحاظ سے اپنا اندراج کرنا چاہتے ہیں یا کوئی فارم بھرنا چاہتے ہیں جس میں آپکو قومیت لکھنے کی مجبوری درپیش نہیں ہے، تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ وہاں کم ازکم کشمیر اور کشمیر جیسے خطوں کو ’’متنازعہ‘‘ زمرے میں ہونا چاہئے تھا، تاکہ یہ چیز بھی جانکاری سطح پراصلیت جاننے کا کام دیتی۔ الغرض ایسے محازوں پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام بتحقیق ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔
کشمیر سے متعلق قراردادوں اور دستاویزات کی اشاعت : کشمیر کی سیاسی تاریخ مختلف سیاسی شخصیات سے وابستہ ہے، چناچہ ان شخصیات کے خاص دِن حکومتی سطح پر منائے جاتے ہیں، تو ایسے موقعوں پر ان شخصیات سے موصوم وعدے، اقوال اور دستاویزات کو بروئے کار لاکر انکا بینروں اور ہورڑنگوں کے زریعے پرچار کیا جاسکتا ہے اور سماجی روابط کی ویب سایٹوں پر اپلوڑ کیا جاسکتا ہے۔ ایک مثال کے طور پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدے اور اقوال کو انکے جنم دن پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کے ایام تاسیس کے مواقع پر کشمیر سے متعلق قراردادوں کو ان ہی اداروں کے اشاعت سے متعلق قوانین کو بروئے کار لاکربڑی بڑی ہورڑنگوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔چناچہ جو لوگ بیرون کشمیر دنیا کے مختلف ممالک یا پھر ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جایا کرتے ہیں، انہیں وہاں کشمیر سے متعلق سولات کئے جاتے ہیں، تو ایسے لوگ یا تو کم علمی کی وجہ سے دِل میں آئے خیال کو اپنا جواب بناتے ہیں یا ڈر اور خوف کی وجہ سے واقف کار ہونے کے باوجود صحیح جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ مذکورہ انسٹیچوشن ایسے تاجروں وغیرہ کو تربیت دے سکتا ہے کہ کس طرح وہ ڈر اور خوف و ہراس کے خدشات کو اپنے آپ پر سوار نہ ہونے دیتے ہوئے تواریخ اور حالات و واقعات کی صحیح ترجمانی کرسکتے ہیں۔
مزاحمتی سیاحت : ہندوستان کے معروف دانشوراور انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا نے کچھ برس قبل سرینگر میں ایک سیمنار میں اپنے تاثرات میں بتایا تھا کہ سیاحت سے وابستہ تاجروں اور دکانداروں کو اپنے ہوٹلوں، شو روموں اور دکانوں کے پاس چیزوں کے علاوہ کوئی اس قسم کی چیزیں بھی رکھنیں چاہیں تھیں جو تحریک آزادیٔ کشمیر کی علامتی طور پر سیاحوں کے لئے موجبِ کشش بنتی۔ مذکورہ ادارہ تحقیق کو بروئے کار لاکر اِس بات میں کامیابی حاصل کرنا چاہئے کہ کس طرح مزارِشہداء کو مزاحمتی سیاحت کی ایک بڑی علامت بنایا جائے اور کس طرح تباہ شدہ مکانات کو اس قسم کی سیاحت کے زمرے میں لایا جائے۔مذکورہ ادارہ یہ طے کرنا چاہئے کہ کونسے، پھول، فصل،پھل،میوے، پرندے اور حیوان کو مزاحمتی سطح پر نہ صرف علامت بنایا جائے بلکہ اسکا سماجی اور اقتصادی سطح پر خوب استعمال بھی کیا جائے۔
آخری بات: متحدہ حریت قیادت کو کسی تاخیر کے بغیر اِس بات پر سوچ بچار کرنا چاہئے کہ موجودہ انتفاضہ کے فصل کو کیسے تحفظ کے ساتھ کا ٹا یا حاصل کیا جائے؟ کشمیر یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن(کیوٹا) نے ایک موقع پر یہ بات کہی کہ ایسوسی ایشن مستقل طور پر حریت کا حصہ بن سکتی ہے۔ الغرض اب وہ وقت آگیا ہے کہ با اثر شخصیات، انجمنیں اور ادارے کشمیر کاز سے براہ راست شریک وسہیم بننے کے لئے خود کو بصدقِ دل اپنی خدمات پیش رکھیںتاکہ ایک ادارہ جاتی میکانزم وجود میں آئے جو انتفاضے کے مقابلے میں سیاسی موسموں کے زیر اثر یا پھر دیگر عالمی فیکٹرس کے دباؤ میں ٹوٹنے پھوٹنے سے بچ جائیں بلکہ مبنی بر حق کاز کے لئے ہر لحاظ سے دائمی اور پائیدار اثاثہ ثابت ہوں۔