گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران وادی اور جموں کے مختلف اضلاع میں شدید بارشوں،ژالہ باریوں ، تیز ہوائوں ،بادل پھٹنے کی وارداتوں اور خوفناک سیلابی لہروں نے جو تباہی مچادی ،وہ کسی بھی فردِ بشر سے پوشیدہ نہیں ۔سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ کےباعث مختلف علاقوں کےرہائش پذیرلوگوں کو جہاں کئی انسانی زندگیوںکے اتلاف کا المناک دردسہنا پڑا، وہیں بڑے پیمانے پر مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑ ا۔درجنوں تعمیرات ڈَھہ اور بہہ کراور سینکڑوں رہائشی ڈھانچےتباہ و بُرباد ہوکربہت سے خاندان اپنے آشیانوںسے محروم ہوگئے ہیں۔ظاہر ہے کہ آفت ِ الٰہی کو انسانی طاقت روک نہیں سکتی اور نہ ہی انسان کی کوئی ہُنر کام آتی ہے۔تاہم ان آفتوں سے متاثرہ لوگوں کی بحالی اور باز آباد کاری میں انسانی ہاتھ ہی کام آتے ہیں،جس میںحکومتی ہاتھوںکا اہم رول سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ آفات ِ الٰہی کی ان وارداتوںمیںاگرچہ وادیٔ کشمیر میں محدود پیمانے پر جانی نقصان ہوا، لیکن بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔جس کے نتیجے میںزیادہ تر متاثرہ لوگوں کی نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ موسمی قہر سامانیوںکے سبب وادی کے کئی علاقوں میںکھڑی فصلیںتباہ ہوگئیں، جس سے کسان پریشانِ حال ہیں،ان کی سال بھر کی کمائی چشم زون میں ملا میٹ ہوگئی ہے ۔شمالی کشمیر سے جو اطلاعات آرہی ہیں،اُن کے مطابق ضلع کپوارہ اور ضلع بانڈی پورہ کے بیشتر دیہات میں صورت حال انتہائی ابتر ہوگئی ہے جبکہ جنوبی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔دھان کی کھڑی فصلوں کو موسلادھاربارشوں ،تیز ہوائوں اور پھر ژالہ باری نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے، دھان کی فصل بارشوں کے پانیوں میں ڈوب کر گَل سڑ گئی ہے۔جس پر ماہرین زراعت بھی شش پنج میں پڑگئے ہیں ۔ کسان خون کے آنسو بہارہے ہیں ،ان کی سال بھی کی کمائی چشمِ زون میں ختم ہوگئی ہے۔کئی اضلاع کے مختلف علاقوں میںنہ صرف دھان کی فصلیں تباہ ہوئی ہیںبلکہ میوہ باغات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔مختلف پھلوں کے ایسےدرخت ٹوٹ پھوٹ کر زمین بوس ہوگئے ہیں،جنہیں پھل دینے کے قابل بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔زیادہ تر اُن کسانوں ،مالکان باغات اور کاشت کاروں ،جنہوں بنکوں سے قرضے لے کر اور مہینوںکی جان فشانی سے ان فصلوں کو تیار کیا تھا اورجن کی گھریلوآمدنی کااہم انحصارانہی فصلوں پر ہوتا ہے،جنہیں بیچ کر وہ اپنا گھر یلو نظام چلاتےہیں،اہل و عیال کا پالن پوسن کرتے ہیںاور اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں،اس وقت انتہائی مایوس اور لاچار دکھائی دیتے ہیں۔اب جبکہ حکومت نے صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے زرعی ماہرین کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بھیج دی ہیں جو نقصانات کا تخمینہ لگارہے ہیںاور متاثرین کو امید دلارہے ہیں کہ حکومت ہر وہ اقدام کرے گی ،جن سے اُن کی زندگی بحالی اور باز اآباد کاری ممکن ہوگی۔بے شک یہ حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہےکہ وہ ہر ممکن طریقے پر ان آفت زدہ باغ مالکان ،کسانوں اور کاشت کاروں کو اس قابل بنائیں کہ وہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر اپنا روز گار کا ذریعہ پھر سے شروع کرسکیں۔بے شک جموں وکشمیر کے اطرف و اکناف کےجن علاقوں میںموسمی قہر سامانیوںنےلوگوں کو مسمار و برباد کردیا ہے ،اُن کے بچائو اور بحالی کے لئے حکومتی انتظامیہ کو ہنگامی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہےاوران حالات میں متاثرین ،بغیر آشیانوں اور بغیر بنیادی ضرورتوں کے زندگی کیسے اور کس طرح گزاریں، اسے حکومت بخوبی سمجھ سکتی ہے ،جبکہ حکومتی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں سے منسلک اعلیٰ حکام اور دوسرے ملازمین بھی اس بات کو بخوبی محسوس کرتے ہوں گے کہ موسم سرما کے برف باری کے ایام میں وادیٔ کشمیر کے عوام کے لئے کتنے نت نئے مصائب و مشکلات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ یوٹی اور عوامی حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک ہونے کے لئے احکامات صادر کریں ،جو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔خصوصاًمحکمہ آفات ِ سماوی کے عملے،پولیس محکمے،محکمہ زراعت کے ماہرین اور ہارٹی کلچر کے جوانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ متاثرین کے متعلق اپنی تفصیلی رپورٹیں متعلقہ محکمہ تک پہنچانے میں کوئی تاخیر نہ کریں، تاکہ بر وقت متاثرین کی ہر وہ سامان فراہم ہو پائے،جس کی اُنہیں ضرورت ہے۔