ایس معشوق احمد
پہلے مبارک باد اہم موقعوں اور خاص کامیابی سرکرنے کے بعد دی جاتی تھی،اب ایسا نہیں ہے۔کوئی گھوڑی چڑھتا تو دوست احباب اور رشتہ دار خوشی میں شریک ہوکر مبارک باد دے جاتے، کوئی اپنی لخت جگر کا نکاح سر انجام دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا تو مبارک باد کا مستحق ٹھہرتا، کوئی محنت مشقت کرنے کے بعد اپنا قرضہ اتار کر آزاد ہوتا ہے تو مبارک باد کا حقدار ہوجاتا، کوئی زیارت شریف کی سعادت حاصل کرلیتا تو مبارک باد کی صدا سے اس کی خوشی میں اضافہ ہوتا،کوئی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی سرکاری نوکری حاصل کرتا تو رفقاءمبارک باد کی سوغات لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے، کوئی امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا تو مبارک باد کی پھولوں کا ہار اس کے گلے میں پہنایا جاتا۔۔۔۔ مبارک باد کامیابی اور فتح پر دی جاتی تھی،کامرانی اور شادمانی پر مبارک باد کا پرچم بلند ہوتا تھا لیکن اب کوئی سانس بھی لیتا ہے تو اس کو لوگ خوشی خوشی مبارک باد دینے آجاتے ہیں، کوئی کھانا اپنے ہاتھ سے کھارہا ہے تو اس کے گھر مہمان آجاتے ہیں اور اس کی خدمت میں مبارک باد کا پھول پیش کرتے ہیں ،نہانے پر بھی مبارک باد دی جاتی ہے اور نئی چپل خرید کر پہنے پر بھی مبارک باد ، گھر سے نکلے تو مبارک باد ،گھر کے اندر داخل ہوئے تو مبارک باد۔۔۔۔حد تو یہ ہے ظالم سے لے کر رشوت خور تک کو مبارک باد دی جاتی ہے کہ ایک مظالم ڈھا رہا ہے اور دوسرا لوگوں کا مال خوشی خوشی کھا رہا ہے۔مبارک باد دینے کے اس چلن نے ” مبارک باد ” کو اتنا نامبارک بنایا ہے کہ اس سے جو تیز باد چل رہی ہے اس سے مبارک کی خوشبو ہم سے بہت دور چلی گئی ہے۔مرزا کہتے ہیں کہ خوشی کے موقعے پرمبارک باد دینا ٹھیک ہے لیکن کسی کا والد انتقال کرلے تو لوگ اس کو بھی مبارک باد دیتے ہیں اور وہ بے غیرت درجواب ہنس ہنس کر خیر مبارک بھی کہہ لیتا ہے۔
ادبی دنیاکے باسیوں میں بھی مبارک باد دینے کا چلن عام ہے اور ادیب ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہوکر مبارک باد دینے میں پیش پیش ہیں اور یہ پیغام عام کررہے ہیں کہ حسد اوربغض ،رنجش اور چشمک سے ماورا ہوکر ہم ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔کسی ادیب کو ایوارڈ مل جائے یا کوئی کتاب منظر عام پر آئے تو اس کو مبارک باد کی مٹھائی پیش کردی جائے یہ اس کا حق ہے کہ اس نے اپنی راتوں کی نینداور دن کا چین قربان کرنے کے بعد کتاب لائی ہے۔اب یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ جب کسی ادیب کی کوئی قلمی کاوش اخبارات یا رسائل میں شائع ہوتی ہے تو خوش ہوکر وہ اکثر فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں اس کا اشتراک کرتاہے۔دوست احباب اس تحریر کو نہیں پڑھتے البتہ مبارک باد واٹس ایپ اور تحریر کے نیچے ضرور لکھتے ہیں۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ مبارک باد کے نعرے کیوں بلند ہورہے ہیں۔۔۔۔کیا لکھنے والا دلہا بن گیا، کیا سرکار نے اسے ڈھونڈ کر اعزاز سے نوازا ہے یا اسے سرکاری نوکری کرنے والی محبوبہ مل گئی ہے، شاید آئی اے ایس آفیسر بن گیا ہوگا۔۔نہیں نہیں الیکشن جیتے بغیر اسے وزیر اعلی کی کرسی ملی ہوگی۔۔۔ ایسا انوکھا تو کچھ نہیں ہوتا۔ بس اس کی ایک تحریر اخبار میں آئی ہے جس سے وہ چند ساعتوں کے لئے خوش ہوتا ہے بس۔۔۔۔شاید دوست احباب اس خوشی کو پہچانتے ہیں جب ہی مبارک باد ،مبارک باد کی صدا بلند ہوتی ہے۔اس دیکھا دیکھی میں ، میں بھی اکثر اس روش کا شکار ہوگیا ہوں کہ جب کسی ادیب کی تخلیق کو پڑھتا ہوں جو تازہ کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہوئی ہو تو اس کی خدمت میں مبارک باد کا گلدستہ ضرور پیش کرتا ہوں ۔اس گلدستے سے آپ ہرگز یہ مت سمجھ لیجیے کہ اس ادیب کو مدیر نے سونے کا تمغہ پہنایا ہے یا اس کی جیب میں معاوضے کی چابی رکھ دی ہے جس سے وہ گھر کی گاڑی چلا رہا ہے،ایسا ہرگز کچھ نہیں ہوتا بلکہ ہماری عادتوں اور ذہن میں مبارک باد کا لفظ اتنا گہرا چھپ گیا ہے کہ ہم جب کسی کی خوشی میں شریک ہوکر اس کو کچھ دینا چاہتے ہوں تو مبارک باد دے دیتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ گالی اور مبارک باد دینا ہماری روایت بن گئی ہے کہ اس کے سوا ہم کسی کو کچھ دے بھی نہیں سکتے۔
مبارک باد دینا جرم ہرگز نہیں اس لئے جہاں جائز ہو وہاں مبارک باد دے کر خوشیوں کی دولت کو لٹایا کیجیے۔کسی کے کارنامے، کامیابی،جدوجہد،محنت اور شادمانی پر جب اسے مبارک باد کا شیریں شربت پلاتے ہیں تو وہ اپنی تکلیف،اذیت،تھکاوٹ اور تھکن کو بھول کر خوشی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا ہے۔مبارک باد کی صورت میں جب کسی کو محنت کا صلہ ملتا ہے تو اس کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور وہ مزید محنت اور لگن سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔اگر چاہتے ہو کہ لوگ کامیابی کی راہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ جائے تو انہیں مسلسل مبارک باد کا آب شیریں پلائے اس سے وہ تازہ دم ہوجائیں گے اور مزید کامیابیاں ان کا مقدر بن جائیں گی۔مرزا کہتے ہیں کہ کسی کو کامیاب کرنا چاہتے تو اس کو مبارک باد کا ٹکٹ دو وہ اڑنا شروع کردے گا۔
���
موبائل نمبر؛ 8493981240