سرینگر //ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے ہندوستان کی قومی سطح کی جماعتوں کے لیڈروں ، وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ، عمر عبداللہ اور ہندوستانی میڈیا سے کہا ہے کہ وہ کولگام میں پانچ پولیس اہلکاروں اور دو بینک ملازمین کے علاوہ سرحد پر مبینہ طور سے دو جوانوں کی ہلاکت کو لیکر مگر مچھ کے آنسو بہانا بند کریں ۔ انجینئر رشید نے کہا کہ جموں و کشمیر میں وقوع پزیر ہونے والی ہر دلدوز واردات حکمرانوں اور دیگر اداروں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا نادر موقع فراہم کرتی ہے ۔ گاندربل علاقہ میں کئی مقامات پرزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگو ں سے تبادلہ خیال کے دوران انجینئر رشید نے کہا ”ہر کوئی وہ شخص جو انسانیت پر یقین رکھتا ہو کسی کی بھی ہلاکت سے ہرگز خوش نہیں ہوگا لیکن یہ ریاستی ادارے اور سیکورٹی ایجنسیاں ہیں جو اکثر عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کو لیکر جشن مناتی ہیں ۔ کشمیریوں کو پولیس والوں کی ہلاکت کو لیکر تعزیت کا اظہار کرنے کیلئے ہندوستانی میڈیا یا سیاستدانوں کی وعظ و نصیحت کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کشمیری کا یہ ایمان ہے کہ خون کسی کا بھی گرے بہر حال نقصان انسانیت کا ہی ہوتا ہے ۔ہر وہ شخص جو کشمیر کا باشندہ ہو اور چاہے وہ پولیس والا ہو یا کوئی اور اُس کی موت پر کشمیریوں کو غمزدہ ہونا فطری بات ہے لیکن یہ نئی دلی ہے جس نے کہ کشمیریوں کو ایک دوسرے کے خلاف حالات جنگ میں لا کھڑا کیا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنا پولیس کا کام نہیں ہے ۔ کشمیری قوم جموں و کشمیر پولیس کے اُن درجنوں جانبازوں بشمول علی محمد ڈار(برہان الدین حجازی)، محمد افضل ملک (مامون رشید) اور ریاض احمد کی قربانیوں کو کیسے بھلا سکتی ہے جنہوں نے تحریک مزاحمت کے دوران پولیس محکمہ میں کام کرنے کے باوجود اپنی قیمتی جانیں نچھا ور کیں ۔ کسی بھی ایسی ماں کا دُکھ جس سے اپنے بیٹے کی تابوت میں لپٹی لاش ملے ہرگز اس معیار پر نہیں بانٹا جا سکتا کہ وہ عام شہری تھا یا عسکریت پسند، فوجی تھا یا پولیس اہلکار ۔ دراصل جب تک نئی دلی پاکستان اور کشمیریوں کے تئیں اپنی احمقانہ اور جارحانہ پالیسیاں ترک کرکے کشمیر مسئلہ کے دیر پا حل کی اہمیت کو نہ سمجھے تب تک ماﺅں کی گودیں خالی ہوتی رہیں گی اور ریاست میں گرنے والے ہر خون کے قطرے کیلئے نئی دلی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا“۔ انجینئر رشید نے ہندوستان کی سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کو سیاسی مقاصد سے دور رکھ کر اس کے حل کیلئے آپس میں اتفاق رائے قایم کرے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو یہ بر صغیر کے لوگوں پر بہت بڑا احسان ہوگا