ہرسال حکومت اوراس کی انتظامیہ کی طرف سے ماہ صیام سے قبل علماء ومعززین کے ساتھ میٹنگیں منعقد کرکے اس بات کا اعلا ن کیاجاتاہے کہ بجلی اور پانی کی سپلائی میں معقولیت لائی جائے گی جبکہ صفائی ستھرائی کے انتظامات کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوںکو بھی اعتدال میں رکھاجائے گالیکن عملاً ایسا ہوتا نہیںہے اور عوام کو انہی مسائل کا ماہ رمضان میں بھی سامنا رہتاہے جو پورے سال درپیش رہتے ہیں ۔ماضی میں یہ دیکھاگیاہے کہ بندکمروں میں دی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود ماہ صیام میں بازاروں میںناجائز منافع خوری بھی ہوتی ہے اور پانی و بجلی کی سپلائی میں کٹوتی بھی عروج پر رہتی ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات سحری اور افطاری کے وقت بھی بجلی دستیاب نہیں ہوتی ۔اسی طرح سے دیگر سہولیات کی فراہمی کے وعدے بھی سراب ثابت ہوتے رہے ہیں ۔ سالہاسال سے چلی آرہی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہونے سے قبل انتظامیہ کی طر ف سے اجلاس منعقد کئے گئے اور ٹھیک ویسی ہی یقین دہانیاں دلائی گئیں جو اس سے قبل دی جاتی رہیں ۔ ساتھ ہی اشیائے خوردنی کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کیلئے خصوصی سکوارڈ بھی تشکیل دیئے گئے ہیں جو پورے مہینے بازاروں کادورہ کرکے قیمتوں پر نظر رکھیں گے ۔یہ وعدہ بھی کیاگیاہے کہ پانی اور بجلی کے نظام میں بہتری لائی جائے گی اور دیگر تما م تر سہولیات کی فراہمی کوبھی یقینی بنایاجائے گاجس کیلئے متعلقہ افسران کو ذمہ داریاں بھی تفویض کردی گئی ہیں ۔تاہم اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ آیا ان یقین دہانیوں اور وعدوں پر عمل بھی ہوتاہے یا نہیں ۔اگرچہ شہروں میں اس حوالے سے میٹنگوں میں ہوئے فیصلوں پر کسی حد تک عمل ہوتاہے لیکن جہاں تک قصبہ جات، دیہی علاقوں ،خاص کر پہاڑی خطوں پیر پنچال اور چناب کی بات ہے تو ان میں فیصلوں کے مطابق عمل نہیں ہوتے اور ماہ رمضان میں بھی محکمہ بجلی اپنے ہی شیڈیول پر عمل پیرا رہتے ہوئے غیر معینہ کٹوتی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتاجبکہ محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے نہ ہی پانی کی سپلائی میں بہتری لانے کے اقدامات کئے جاتے ہیں اور نہ ہی خراب پڑی واٹر سپلائی سکیموں کو ٹھیک کرنے کی زحمت گوارہ کی جاتی ہے ۔نتیجہ کے طور پر ہر سال ماہ رمضان کا مہینہ پانی اور بجلی کی ہاہاکار کے ساتھ اختتام کو پہنچتاہے ۔ان دونوں خطوں کے بیشتر علاقوں میں پورا مہینہ بجلی کی کٹوتی کا رونا رویاجاتاہے جبکہ پانی کا بحران ختم ہونے کا نام نہیںلیتا اور خواتین کو روزہ رکھ کر کئی کلو میٹر دور سے پانی اپنے کاندھوں پر اٹھاکر لاناپڑتاہے ۔اسی طرح سے دیگر سہولیات کا بھی فقدان رہتاہے اور بازاروں میں ہونے والی ناجائز منافع خوری پر کسی کی نظر نہیں پڑتی ۔ایسی صورتحال میں روزہ دار پورا مہینہ پریشانیوں سے دوچار رہتے ہیں۔امید کی جانی چاہئے کہ اس مرتبہ ماہ صیام میں ان تمام تر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گاجن کے ماضی میں وعدے کئے گئے یا صرف یقین دہانیاںکی گئیں ۔انتظامیہ کو بہر صورت راشن اور تیل خاکی کی بروقت سپلائی اور پانی وبجلی سمیت تمام ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بناناچاہئے ۔ چونکہ ماہ رمضان صبر، ایثار اور دوسروں کی مدد کا پیغام دیتاہے اس لئے تاجر برادری سے بھی یہی توقع کی جانی چاہئے کہ قیمتوں کو اعتدال میں رکھاجائے گا ۔