مشتاق تعظیم کشمیری
اللہ تعالیٰ نے رمضان کامہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل رکھا ہے،اوررمضان کے آخری عشرہ کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکرہے، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے، جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے ۔ سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اِسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے،دیگر احادیث میں آپؐ کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی کریمؐ رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں کوبھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث :1884)شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے،راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپ ؐ کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپؐ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے ،یہ مضمون حضرت عائشہ ؓ کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ۔ وہ بیان فرماتی ہیں: ’’مجھے یاد نہیں کہ نبی کریمؐ نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔‘‘ (سنن نسائی )دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکرحدیث میں یہ ہے: اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا۔ لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی کریمؐ اپنے گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔ رمضان کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپؐ رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو اپنے پاس بلا لیا، پھر آپ کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ (بخاری شریف)حضرت ابو ہریرہؓکی روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ کوہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ ؐکا انتقال ہوا، اس سال آپؐ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث ) آخری عشرہ کا اعتکاف (یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام)سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑجانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری )حضرت ا بوسعید خدریؓکی روایت میں تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپؐ کو جس کی تلاش ہے، وہ آگے ہے۔ چناں چہ آپ ؐ نے دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا اورہم نے بھی کیا۔ پھر حضرت جبرئیل ؑ نے آپؐ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چناں چہ آپؐ بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا، اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا۔یاد رکھو لیلة القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری )رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔اللہ تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی، ارشاد ہوا: ’’ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریلؑ) اپنے ربّ کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ (سورة القدر)لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا ،وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومرتبہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا، کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر ومنزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمارآیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جوشخص شب قدر کو ایمان اوراجروثواب کی نیت سے عبادت کرے ، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری )رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا ، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فر مائے تاکہ ہم اس بابرکت مہینے کے آخری عشرہ میں ذکر اذکار کرکے ر بّ الکریم سے بخشش طلب کر نےکے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔ آمین
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔