توصیف رضا
ماں دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ، سب سے خوبصورت لفظ،سب سے حسین شئے ،سب سے بڑی خوشی،سب سے بڑی دولت،سب سے بڑا سہارا،سب سے بڑی دعا اور سب سے بڑی دوا۔ دنیا سچ کہتی ہے،ماں کی گود کا کوئی متبادل نہیں۔ ماں کی دعا سے بڑی کوئی طاقت نہیں، ماں کے دل سے زیادہ نازک دنیا میں کچھ نہیں۔ ماں اللہ تعالی کا انسان کیلئے قیمتی اور نایاب تحفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو ایسا درجہ عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔حقیقت یہ ہے کہ ماں پرہی دنیا شروع ہے اور ماں پر ہی ختم ۔ ماں دنیا کے محبت کی بنیاد کا ایک ایسا لفظ ہے جس کو سن کر صرف محبت اور مٹھاس محسوس ہوتی ہے ۔ ماں زندگی کے رنگوں میں سے ایک ایسا رنگ ہے جو ایک ویران زندگی کو خوبصورت بناتا ہے ۔ ماں اللہ کے بعد ممتا اور محبت کا وہ خزانہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماں ایک عظیم اور برکت والی نعمت ہی نہیں بلکہ ماں کا ہر امر عبادت اور ہر عمل نعمت ہے ۔ ماں وہ مقدس ہستی ہے جس کے دعا میں اولاد کی تقديٖر پنہاں ہے، ماں کی آہ اولاد کی زندگی کا فاصلہ کم کرتی ہے ۔ ہر دور میں پیغمبروں ، صحابہ ،اولیا اور صلحا ءکے علاوہ دانشوروں اور مفکروں نے لب کشائی کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ ماں کے بارے میں کہا ہے۔ دنیا میں ماں کے رشتہ کو ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور الفاظ میں بیان کرتا ہے۔کوئی جذباتی ہوکر بیان کرتا ہے اس رشتہ کو،کوئی بغیرایک لفظ ادا کئےآنکھوں سے بیان کر دیا ہے ماں کی قدرکو،کسی نے کہا کہ ماں کی محبت ہمالیہ کا وہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلندیوں کو آج تک کوئی چھو نہ سکا ۔کسی نے کہا کہ ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی، کسی کا کہنا ہے کہ کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ایک اور روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہےکہ ’’ماں کے قدموں میں جنت ہے۔‘‘
مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ اس بات سے ہمیشہ ڈرو کہ ماں نفرت سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔ ایک اور فلسفی ارسطو کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ ’’ماں سے ہمدردی کی توقع رکھنے کی بجائے ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے‘‘۔ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگارشکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ بچے کے لئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے‘ ‘۔ حکیم لقمان نے ماں کی تعریف کچھ اس انداز میں کی تھی کہ ’’ اگر مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘ مغل دورکے اکبر بادشاہ نے ماں کی عظمت کو کچھ ان الفاظ میں یاد کیا تھا کہ ’’ہر شخص انسانیت کی حقیقی تصویر اپنی ’ماں‘ کے چہرے پر دیکھ سکتا ہے‘‘۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے‘‘۔ الطاف حسین حالی کے مطابق ’’ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے‘‘ ۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے مجاہد محمد علی جوہر ے کہا تھا کہ’’ دنیا میں حسین شے صرف ماں ہے‘‘۔
کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کُل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ دنیا یہی سوچتی ہے کہ کیا شئے ہے ماں ؟ سچائی کا پیکر ، لازوال محبت کا نمونہ، شفقت کا سمندر
، تڑپ کا دریا ، قربانی کا سیلاب، مہربانی کا خزانہ ہے ماں۔ تین حرفوں کا لفظ ’ماں‘ناقابل فراموش رشتہ ہے۔جس کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔اب اندازہ لگا لیں کہ ماں کا مقام کیا ہے؟کیا ہے درجہ ماں کا،کیا ہے رتبہ ماں کا۔
اللہ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال ماںبہت جلد جان لیتی ہے۔ اولاد کے دل میں کیا چل رہا ہے ماں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔دنیا مانتی ہے کہ دنیا میں ماں ،خدا کی محبت کا ایک روپ ہے ۔ ماں سے زیادہ اولاد سے محبت کرنے والا کوئی اور نہیں ۔ کوئی ماں کی محبت، شفقت، مرتبے اور اس رشتے کی انفرادیت کے حوالے سے قرآن و حدیث سے لے کر عظیم ہستیوں کے اقوال تک، اس قدر خوبصورت تشبیہات سے مزین افکار موجود ہیں ،جنہیں پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر عام سے عام شخص کے پاس ماں کی تعریف کے الفاظ الگ الگ ہے اور ہر تعریف قابل قدر بھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماں ہے تو دنیا ہے ورنہ زندگی ادھوری ہے۔ مذہب ہو یا معاشرہ، ماں کا لفظ آتا ہے توبا ادب ہوجانے کا احساس ہو جاتا ہے۔
ماں بڑا پیارا لفظ ہے، جسے انسان اپنے دل کی گہرایوں سے اداکرتا ہے۔بچپن سے لیکر عمر کے ہر مرحلے میں وہ ماں کی ممتاکا محتاج رہتا ہے۔اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے اسی سے توقع رکھتا ہے۔ماں کے بغیر گھر سنسان اور زندگی ویران ہوتی ہے۔ برکت کا راستہ ماں باپ کی خدمت سے ہی آسان ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں : ’’ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔ ‘‘بخوبی معلوم ہوا کہ ماں کا درجہ کیا ہے اورکیا رتبہ ہے۔حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیںکہ ایک شخص رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی قدرت نہیں ۔ رسول اللہ ؐنے دریافت فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس شخص نے کہا ہاں میری والدہ زندہ ہے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا : اُس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ سے ملو، اگر تم نے ایسا کیا تو تم حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے (کی طرح) ہو۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)ایک دفعہ ایک سائل نے ہادی عالم ؐسے سوال کیا کہ حضور قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ سائل نے دوبارہ سوال کیا کہ قیامت کے آنے کی کوئی نشانی بتا دیں۔ حضور پاکؐ نے فرمایا، جب اولاد ماں کو ذلیل کرے گی تو قیامت آنے کے آثار ہونگے ۔ ماں کا جو رتبہ اسلام اور قرآن میں بیان کیا گیا ہے یا دیگر مذاہب نے اپنی کتابوں میں دیا ہے ،اس کی بنیاد پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ ماں کو یاد کرنے کےلئے ایک دن مقرر کرنا بھی ماں کے پیار کے ساتھ نا انصافی ہے۔ہماری زندگی کا ہر پل ماں کا مقروض ہے، اس قرض کو ہم زندگی کے ہر پل میں ماں کو یاد کرکے بھی ادا نہیں کرسکتے۔ماں کا رتبہ ،ماں کا پیار،ماں کی ممتا اور ماں کا دودھ یہ انسان کو اس بات کا احسا س دلانے کےلئے کافی ہے کہ زندگی ماں کا قرض ہے، جس کو انسان کبھی چکا نہیں سکتا ۔ يوم مادر سب مناتے ہیں مگر ماں کی قدر حقیقت میں کوئی کوئی ہی کرتا ہے، جو اپنی ماں سے محبت کرتا ہے ،اُس کے لئے ہر دن يوم مادر ہی ہے ۔ مجھے اس بات کا دکھ کھائے جا رہا ہے کہ ہمارے قوم کا دانشور طبقہ يوم مادر منانے میں مصروف ہے مگر ہماری بیشترمائیں دوسروں سے مدد مانگتی پھر رہی ہیں ۔ کاش ہم نے یہ بات اپنے دل میں اُتاری ہوتی کہ جس ماں کے قدموں میں جنت ہے، اُس ماں کی عظمت کیا ہوگی ۔
@[email protected]