سبدر شبیر ، کولگام
وقت بدل چکا ہے، اندازِ زندگی، رشتوں کی نزاکت، اور توجہ کا مرکز بھی۔ ایک زمانہ تھا جب ماں کی آنکھوں میں بچے کی نیند چھپی ہوتی تھی، اُس کی مسکراہٹ میں ماں کی دعا شامل ہوتی تھی اور اُس کی خامشی میں ماں کی فکر چھلکتی تھی۔ مگر اب منظر بدل گیا ہے، اب ماں کی انگلیاں موبائل کی اسکرین پر مصروف ہیں اور بچے تنہائی کی چادر اوڑھے خاموش بیٹھے ہیں۔ آج ماں بچے کی طرف دیکھنے سے پہلے نوٹیفکیشن چیک کرتی ہے اور بچے ماں کی گود میں سُکون ڈھونڈنے کے بجائے اسکرین پر رنگین کارٹونز میں خوشی تلاش کرتے ہیں۔ یہ خاموش انقلاب صرف ماحول نہیں بدل رہا بلکہ نسلوں کی نفسیات، جذبات، اخلاق، اور روحانی ساخت کو بھی متزلزل کر رہا ہے۔
ایک ماں کے پاس بچے کے لئے سب سے قیمتی چیز اُس کی توجہ، وقت اور لمس ہوتا ہے۔ جب بچہ گرتا ہے تو ماں کا ایک بوسہ مرہم بن جاتا ہے، جب وہ ڈرتا ہے تو ماں کی آغوش پناہ گاہ بن جاتی ہے اور جب وہ بات کرتا ہے تو ماں کی توجہ اُس کے لیے اعتماد کی پہلی اینٹ ہوتی ہے۔ مگر جب ماں خود اسمارٹ فون کی دنیا میں کھو جائے تو بچے کے لیے دنیا ایک اجنبی جنگل بن جاتی ہے جہاں وہ خود اپنی راہیں تلاش کرتا ہے۔ ایسا بچہ اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ ماں کے پاس وقت نہیں، توجہ نہیں، دلچسپی نہیں۔ وہ ماں سے بات کرنا چھوڑ دیتا ہے اور یہ خاموشی اُس کے اندر ایک دیوار بناتی ہے جو دن بہ دن اونچی ہوتی جاتی ہے۔
نفسیاتی ماہرین متفق ہیں کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت کا سب سے بڑا حصہ ماں کے ساتھ وقت گزارنے سے بنتا ہے۔ مگر جب یہ وقت موبائل نگل جاتا ہے تو بچے کے اندر اضطراب، ضد، چڑچڑاپن، اعتماد کی کمی اور احساسِ کمتری جنم لیتے ہیں۔ ایسا بچہ یا تو شدید حد تک خاموش اور ڈرا سہما ہوتا ہے یا بے جا ضدی، چیخنے والا اور ضدی۔ دونوں صورتوں میں اُس کا فطری توازن بگڑ چکا ہوتا ہے اور اس بگاڑ کی جڑ وہ موبائل ہوتا ہے جسے ماں نے صرف’’کچھ دیر کے لیے‘‘ ہاتھ میں لیا تھا، مگر وہ’’کچھ دیر‘‘ بچپن کا مکمل موسم چاٹ گئی۔
آج کی مائیں، جانے انجانے، اپنے بچوں کے ساتھ وہ ناانصافی کر رہی ہیں جو اُن کی روح کو زخمی کر رہی ہے۔ ماں کی توجہ بچے کا پہلا آئینہ ہے، پہلا استاد، پہلا محافظ، پہلا دوست۔ جب یہ سب کچھ ایک موبائل فون کی وجہ سے ماند پڑ جائے تو بچے کی ذہنی نشوونما کا دروازہ بند ہونے لگتا ہے۔ بچہ دنیا کو ویسا ہی دیکھتا ہے جیسا وہ اپنی ماں کی نظروں میں دیکھتا ہے اور جب ماں کی نظر ہر وقت فون پر جمی ہو، تو دنیا بچے کو اجنبی، بے رنگ اور سرد محسوس ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ مصنوعی دنیا کو اپناتا ہے، حقیقی جذبات سے کٹ جاتا ہےاور سیکھنے، سمجھنے، سوال کرنے اور محسوس کرنے کی فطری صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔
دوسری جانب جب ماں خود ہر وقت سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگیوں، تصویروں، سفروں اور کامیابیوں کو دیکھتی ہے تو لاشعوری طور پر اپنی زندگی سے ناخوش ہو جاتی ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ اُس کے بچے یا شوہر اُس کے لیے ویسے نہیں جیسے دوسروں کے ہیں۔ وہ حسد، مایوسی اور خود ترسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یوں موبائل نہ صرف بچے کی تربیت چھینتا ہے بلکہ ماں کی ذہنی کیفیت کو بھی بگاڑتا ہے۔ ماں کا چڑچڑاپن، بے صبری اور جلد غصے میں آنا اکثر موبائل کے بے جا استعمال کا نتیجہ ہوتا ہے، جو گھر کے ماحول کو بگاڑ دیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے، کیونکہ وہی پہلا فرد ہے جو بچے کو اللہ، رسول، نماز، اخلاق اور محبت سے روشناس کراتی ہے۔ مگر جب ماں خود موبائل کی اسکرین میں غرق ہو جائے اور بچے کو گیمز یا یوٹیوب تھما دے، تو نہ تربیت ہوتی ہے نہ تعلیم۔ پھر ماں حیران ہوتی ہے کہ بچہ بڑوں کا ادب کیوں نہیں کرتا، نماز کیوں نہیں پڑھتا، سچ کیوں نہیں بولتا، اور ہر وقت چیخ چیخ کر کیوں بات کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ بچہ صرف وہی بول رہا ہے جو اُس نے غیر تربیت یافتہ ماحول سے سیکھا، کیونکہ ماں نے اُسے وقت نہیں دیا، بات نہیں کی، سننا گوارا نہیں کیا۔اصلاح کی شروعات ماں کے اندر سے ہونی چاہیے۔ اُسے خود سے پوچھنا ہوگا کہ وہ کس طرف جا رہی ہے؟ کیا اُس کی انگلیاں قرآن کے صفحات پلٹتی ہیں یا انسٹاگرام کی ریلز؟ کیا اُس کی زبان پر بچوں کے لیے دعائیں ہیں یا سوشل میڈیا کی گپ شپ؟ کیا اُس کی گود میں محبت ہے یا موبائل فون؟ اُسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کون سی وراثت چھوڑ رہی ہے. ایک ٹوٹی ہوئی شخصیت یا ایک باکردار انسان؟
ماں اگر چاہے تو چند سادہ اصولوں سے اس تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔روزانہ کا ایک وقت مقرر کریں جو صرف بچوں کے لیے ہو، موبائل بند کر کے ان کے ساتھ کھیلیں، بات کریں، کہانیاں سنائیں، دعائیں سکھائیں اور محبت کا اظہار کریں۔ بچے ماں کی آنکھوں میں دنیا دیکھتے ہیں، اگر وہ آنکھیں مسلسل موبائل پر جمی رہیں تو بچے اندھیرے میں بھٹکتے رہیں گے۔ یاد رکھیں، بچپن ایک بار آتا ہے، اور ماں کی کوتاہی سے اگر یہ پل گزر جائیں تو کل کا پچھتاوا بہت بھاری ہوتا ہے۔
موبائل فون ضرورت ہے، مگر جب وہ رشتوں پر غالب آ جائے تو زہر بن جاتا ہے۔ آج ہمیں ان لمحوں کو بچانا ہے، ان رشتوں کو زندہ رکھنا ہے، ان معصوم آنکھوں میں اپنی موجودگی کا عکس بننا ہے۔ وقت نکالیے، توجہ دیجئے، بچوں کی باتوں کو سنئے، اُن کی آنکھوں میں دیکھئے، کیونکہ کل یہ آنکھیں آپ کی غیر موجودگی کو یاد کر کے آنسو بہائیں گی، مگر اُس وقت موبائل آپ کے آنسو پونچھنے کے کام نہیں آئے گا۔
[email protected]