سرینگر//سعدپورہ عیدگاہ میںلوگوں نے پولنگ مرکز کے بجائے پیلٹ کا شکار بنے نو عمر طالب علم 12 سالہ جنید آخون کے گھر کا رخ کیا ہوا تھاجہاں ابھی بھی دروازے پر سیاہ جھنڈے لہرا رہے ہیں ۔عمومی طور پر نیشنل کانفرنس کا گڑھ مانے جانے والے سعد پورہ عیدگاہ میں آج یکسر مختلف صورتحال تھی۔لوگ نہ چوک میں موجود تھے نہ پولنگ بوتھوں کے ارد گرد موجود تھے بلکہ لوگ جنید کے گھر کا رخ کررہے تھے۔7اکتوبر 2016کو 12سالہ جنید احمد آخون کو فورسز نے اس وقت پیلٹ سے جاں بحق کیا جب وہ اپنے مکان کا گیٹ بند کررہا تھا ۔جنید احمد 2بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور وہ آج بھی خون کے آنسو رو رہی ہیں ۔کشمیر عظمیٰ کی ٹیم جب سعدہ پورہ پہنچی تو یہاں نوجوانوں نے آزادی کے حق میں نعرے لگائے اور جنید کے گھر کی جانب رخ کیا ۔فورسز نے جس جگہ پر جنید پر پیلٹ چلائے وہاں لگے ٹین اور گیٹ پر ابھی بھی چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں ‘‘۔مکان کے گیٹ پر 2سیاہ جھنڈے لگے ہیں جبکہ گیٹ کے سامنے دیوار پر کاغذ کا ایک بڑا ورق چسپان ہے جس پر ’’ماں کا دلارا ۔۔۔شہید ہمار ا،بہنوں کا پیارا۔۔جنید ہمارا‘‘ کی عبارت لکھی ہوئی ہے ۔جنید کا گھر ابھی بھی ماتم کدہ بنا ہوا ہے اور اسکے والدین اپنے اکلوتے بیٹے اوراسکی2بہنیںاپنے اکلوتے بھائی کی جدائی کے غم میں نڈھال ہیں ۔یہاں موجود لوگوں نے بتایا ’’ہم ووٹ نہیں ڈال رہے ہیں ،ہمارے محلے میں ایک معصوم لڑکے کا قتل ہواہے ‘‘۔جنید کے والد غلام محمد آخون نے بتایا ’’میرا معصوم بیٹا تھا اور میں اس کے خون کا سودا نہیں کروں گا ‘‘۔انہوں نے بتایا ’’اپنے اکلوتے لخت جگر کو کھونے کے باوجود میرا ضمیر زندہ ہے‘‘۔انہوں نے بتایا ’’میرا بیٹا پتھر نہیں مار رہا تھا بلکہ مکان کا گیٹ بند کررہا تھا اور فورسز نے اس پر پیلٹوں کی بوچھاڑ کردی‘‘۔ غلام محمدنے بتایا’’وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پہلے کہا کہ جنید بے گناہ ہے اور پھر اگلے روز کہا کہ جنید پتھر مار رہا تھا ‘‘۔انہوں نے بتایا ’’وزیر اعلیٰ نے مجھے5لاکھ روپے ایکسگریشا ریلیف دینے کی پیش کش کی جو میں نے یہ کہہ کر ٹکرا دی کہ بیٹے کے خون کا سودا نہیں کروں گا ‘‘۔