جاویدگھرکے باہر آنگن میں پڑی چارپائی پربس یوں ہی سستارہے تھے۔ وہ باربار اِدھرسے اُدھرکرو ٹیں بدل رہے تھے۔وہ سوناچاہتے تھے مگر ایسالگتاتھاکہ کوئی اہم خیال انہیں مسلسل ستارہاہے ۔ اس دن گھرمیں کوئی اورنہ تھا۔ صرف ہم ہی دوتھے۔ گھرکے دوسرے لوگ کسی نہ کسی کام کی وجہ سے باہرتھے۔ اس لئے گھرمیں خاموشی اورسکون کاماحول تھا۔انہوں نے لیٹے لیٹے ہی مجھ سے کہا۔
نجمہ! آج نہ جانے کیوں میرے دِل ودماغ کے دروازے پروالدہ مرحومہ کا خیال شدت سے دستک دے رہاہے ۔مجھے بارباران کی یاد آنے لگی ہے۔ان کی شفقت، محبت اورہمدردی مجھے حدسے زیادہ بے چین کررہی ہے۔ ان کے ساتھ گذاری ہوئی زندگی کی یادیں مجھے کس قدرفرحت اورسکون عطا کررہی ہیں!! ہائے وہ کیادن تھے؟ کیاسکون واطمینان تھا ان دنوں؟ کیاپیارتھا ماں کی صحبت میں اورکس قدرراحت تھی ماں کے آنچل تلے ۔
نجمہ تمہیں معلوم ہے آج مجھے ماں کی کون سی بات زیادہ یاد آرہی ہے ؟ کون سی ؟ میں نے پوچھا ۔بچپن میں مجھے سلانے کے لئے والدہ میراسراپنے ’’آنچل ‘‘ تلے اپنی گودمیں لے کرمیرے بالوں میں اپنی انگلیاں اس طرح پھیرتی تھیں جیسے وہ کچھ تلاش کررہی ہوں ۔ ایساکرنے سے مجھے بہت ہی میٹھی اورگہری نیندآتی تھی ۔ نجمہ ! آج میں دوبارہ ویسی ہی نیندسوناچاہتاہوں اورجوسکون مجھے سرکے بالوں میں ماں کی انگلیاں پھیرنے سے ملتاتھا ۔وہ سکون محسوس کرکے میں آج بھی سوناچاہتاہوں ۔
مجھے یادہے جاویدمجھ سے اکثرکہاکرتے تھے شب برات کی رات تمام روحیں اپنے اپنے لواحقین کے گھروں کارُخ کرتی ہیں اور صبح کی اذان کے ساتھ واپس چلی جاتی ہیں ۔ اتفاق سے اس دن بھی شب برات تھی ۔ انہوں نے نماز کے لئے وضوکیا۔ نمازادا کی۔ درودواذکار سے فارغ ہوکر روزمرہ کی طرح خاموشی سے دُعامانگنے میں مصروف ہوگئے ۔دعامانگتے مانگتے ان کی خاموشی اظہار کی صورت اختیارکرگئی۔
’’اے رب العالمین ! تونے آج تک میری تمام جائزدُعائیں قبول کی ہیں۔میری آج کی یہ دُعابھی قبول کر۔ میں تیراسراپااحسان منداور شکرگذارہوں ۔ میری اس دُعاکو شرف قبولیت بخش کر تُواپنے اس عاجز،حقیروفقیر بندے پربے پایاں احسان اورکرم کر۔ تومالک ومختارہے ۔ تیری منشاکے بغیر تو ایک پتابھی نہیں ہلِ سکتا پھر میری دُعا قبول کرناتیرے لئے کونسا مشکل اورناممکن کام ہے ۔ تودِلوں کے پوشیدہ رازوں کوجانتاہے۔
مجھے اپنی ماں سے کس قدر محبت تھی ۔جسے اِس دنیاسے رخصت ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں۔ میرے لئے اپنی ماں کی جُدائی کاغم اب ناقابل برداشت ہوگیاہے۔ کیایہ ممکن نہیں کہ تواسے چندلمحوں کے لئے میرے پاس بھیج دے۔اس کے دیدار کے لئے میری آنکھیں ایک مدت سے ترس رہی ہیں مجھے ہرلمحہ اس کی کمی محسوس ہورہی ہے۔نہ کھانے میں مزہ ہے نہ سونے میں راحت ہے ۔ نہ جینے میں لطف ہے۔
میں نے دیکھایہ دُعامانگنے کے بعدآمین !!! یارب العالمین کہہ کروہ ، مصلیٰ سے اُٹھے اوریہ شعرگُنگناتے ہوئے اپنے کمرہ میں چلے گئے ؎
کہاں سے لائوں وہ ماں کاآنچل
وہ نیندخوشیاں،وہ خواب خوشیاں
ہاتھ میں قلم اورپیڈلیکر وہ کُرسی پربیٹھے۔ انہوں نے کہانجمہ ! میرا دِل بہت ہی بوجھل اورغمگین ہے ۔ ماں پرکچھ لکھ کرذرا ہلکاہوناچاہتاہوں۔
وہ مسلسل ماں کی عظمت ، تقدس، ممتا،ایثار، صبر قناعت اوردوسرے اوصاف حمیدہ پرلگاتار باتیں کرتے رہے ۔ اسی دوران انہوں نے اپنا رائٹنگ پیڈکھولا اور اس پرکچھ لکھا ؎
مزیدکچھ لکھنے سے پہلے انہوں نے تھوڑی دیرآرام کرنے کی خواہش ظاہر کی اوریہ کہہ کر لیٹ گئے کہ اذان ہوتے ہی انہیں جگادینا۔ جب کافی وقت گذرنے کے بعد میں انہیں جگانے کے لئے کمرے میں گئی ۔تومیں نے انہیں گہری اورمیٹھی نیندمیں پایا۔ اس لئے ان کوجگائے بغیرہی کمرے سے باہرنکل آئی۔ پھرجب اذان بُلند ہوئی تومیں دوبارہ انہیں جگانے کے لئے کمرے میں گئی۔ ان کے شانے پرہاتھ رکھ کرجھنجھوڑنے کیلئے جب میں نے تھوڑی سی جنبش دی توان کی گردن ایک طرف لڑھک گئی ۔ان کی روح قفس عنصری سے پروازکرچکی تھی۔ میرے منہ سے ایک لمبی چیخ نکل گئی۔ سارے گھرمیں کہرام مچ گیا۔ شب برات کی سحر شب دیجور میں بدل گئی۔ محلہ والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہرکوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہاتھا کہ یہ اچانک کیاہوگیا۔ کوئی کہہ رہاتھا کہ ان کی موت فشار خون کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کسی نے کہایہ حرکت قلب بندہونے کامعاملہ لگتاہے ۔ غرض جتنے مُنہ اتنی باتیں ۔ جب تجہیز وتکفین کی تیاری ہونے لگی اور جاویدکے جسدِ خاکی کونہلانے کے لئے بسترپرسے اٹھایاگیا تواُن کے سرہانے کے نیچے سے ان کی یہ تحریرملیـ:
’’دودھ میں خون جگرڈالاپلائے مجھ کوجام
جس کے قدموں میں ہے جنت اس مقدس ماں کے نام ‘‘
آج مجھے ماں کی بہت یادآئی ۔اسے اس دُنیاسے گئے ایک مدت ہوگئی ہے ۔ مجھے رہ رہ کر اس کی شفقت اورمحبت یاد آرہی ہے۔ اس کاوہ ’’آنچل ‘‘ یادآرہاہے ۔جس کے نیچے وہ مجھے اپنی گودمیں لے کر میرے سرکے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیراکرتی تھی ۔ میرے سرکوسہلایاکرتی تھی جس کی وجہ سے مجھے میٹھی اورگہری نیندآتی تھی۔ آج میں ماں کی صورت دیکھنے کوترس گیاہوں ۔ میں نے نمازمیں ماں کادیدار کرنے کی خداسے دُعامانگی ہے۔ شب بیداری کے بعدجب میں تھوڑی دیرکے لئے گھرآکر سوگیاتو جلدی ہی نیندنے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ میں نے خواب میں اپنی والدہ مرحومہ کومُسکراتے ہوئے دیکھا۔اس نے مجھے گلے لگایا ۔میراماتھاچوما اورمیراسراپنی گودمیں آنچل کے نیچے رکھا اورمیرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔ وہ میرے سر کو سہلارہی تھی اورپیاربھری نظروں سے مجھے مسلسل دیکھ رہی تھی۔میں بھی ٹکٹکی باندھے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھ رہاتھا۔ نہ وہ مجھے دیکھ کر تھک رہی تھی اورنہ میراجی اسے دیکھ کربھررہاتھا۔
مجھے ایسامحسوس ہورہاتھا ۔ جیسے میں کہیں نیندکی وادی میں چلاگیا ہوں ۔مجھ پرغنود گی کی حالت طاری ہورہی ہے ۔ جولمحہ بہ لمحہ گہری سے گہری ہوتی جارہی تھی ۔ اتنے میں دورکسی مسجد سے اذا ن کی آواز سنائی دی ۔ ماں یکایک اُٹھ کھڑی ہوئی اورمجھ سے کہا۔ بیٹا! اب میرے جانے کاوقت ہوگیاہے ۔ اچھامیں چلتی ہوں ۔ اپناخیال رکھنا۔
میں نے ماں کوروکناچاہا۔مگر اس نے ایک نہ مانی اورخُداحافظ کہتی ہوئی دروازے سے باہرنکل گئی ۔ میں نے ماں کوزورسے پکارا ماں !! ! اگرآپ نہیں رکتی تو مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ یہاں میراجی نہیں لگتا ۔ مجھے یہاں جینے میں کوئی مزہ نہیں آرہاہے ۔ میں تمہارے بغیر اب زندہ نہیں رہ سکتا ۔نہیں بیٹا ! میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی۔ مجھے ایساکرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ماں ! ٹھہرو ماں ! میں بھی تمہارے ساتھ چلتاہوں ، مگراس نے سنی ان سنی کردی اوروہ مجھ سے دُور بہت دورآنکھوں سے اوجھل ہوکرفضامیں تحلیل ہوگئی ‘‘۔
کہاں سے لائوں وہ ماں کاآنچل
وہ نیند خوشیاں،وہ خواب خوشیاں
ساغرصحرائی
غموں سے نڈھال سوگوارنجمہ کاخیال ہے کہ یہ جاویدکی تہجد نمازکے بعدکی تحریرہے ۔
موبائل نمبر ۔8825051001
�����