والدین کا احترام و اکرام اور ان کی خدمت و عزت نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ مذہبی عقیدہ کے مطابق باعث نجات اور وجہ خلاصی جہنم بھی ہے ۔ جملہ ادیان و مذاہب میں رشتۂ والدین کو بڑا محترم تسلیم کیا گیا ہے ۔ خداوند قدوس نے اپنی آ خری کتا ب قرآن مجید میں والدین کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہدایت بار بار فرمائی ہے اور اپنی عبادت کے تذکرہ کے فوراً بعد وا لدین کے سا تھ حسن سلو ک کا ذ کر فرمایا ہے۔
خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں ایمان کے بعد اولین درجہ کی نعمت والدین ہیں ۔ ماں کے قدمو ں تلے جنت اور باپ جنت کا مرکزی دروازہ ہے ۔ دنیا میں ہر گراںمایہ شئے کی قیمت چکا ئی جا سکتی ہے مگر ماں کے دودھ کا قرض کبھی ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ ما ں وہ انمول ہیرا ہے جسے نہ تو خریدا او ر نہ ہی بیچا جا سکتا ہے ۔ شفقت و ہمدردی سے عبارت ماں ایک ایسی روشنی ہے جو کبھی ماند نہیں پڑ سکتی ۔اس کی رضا میں رضائے خدا وندی او ر اس کی نا راضگی میں ناراضگی خدا وندی ہے ۔ انسانی ہو نٹو ں سے اد ا ہو نے وا لاسب سے شیریں لفظ ماںہے ۔انسا ن عمر کی جس منز ل پر پہونچ جا ئے ،ماں کے نز دیک ایک بچہ ہی ہو تا ہے ۔ بقول اقبال ؒ ؎
زندگی کی اوج گا ہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سا دہ رہ جا تے ہیں ہم
اگر ہم بہترین قوم کے خواہش مند ہیں تو ہمیں بہترین مائیں پیدا کرنی ہوں گی (سرسیداحمد خان ؒ)۔سخت سے سخت دل کو ماں کی پر نم آنکھو ں سے موم کیا جا سکتا ہے (علامہ اقبالؒ )۔ہماری ماں نے ہمیں زندہ رہنے اور آزادی سے زندگی گز ارنے کا سبق دیا (مولانا شوکت تھانویؒ )۔مجھے ماں اور پھولوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا (ناد رشاہ ؒ)۔ ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے (اور نگ زیب عالمگیر ؒ )۔ان جیسے اقوال زریں سے ماں کی عظمت اور رفعت کا اچھی طرح عرفان ہوجا تا ہےاور یہ حقیقت واضح ہو جا تی ہے کہ کوئی بڑا سے بڑا جا بر شخص بھی ماں کی ممتا اور اس کی شفت ورحمت بھری ہستی مجسم کی قدرو قیمت سے اچھی طر ح واقف ہی نہیں ہو تا بلکہ فطری طور پر غصہ و غضب کی آگ میں جلتا بھنتافردبھی اس کی شیتل چھا یہ میں آکر سرد بھی پڑ جاتا ہے ۔
ایک عورت کی صحیح تکمیل اس وقت متحقق ہوتی ہے جب وہ کسی بچہ کو جنم دے چکتی ہے ،گو یا ماں بننا ہر عورت کی معراج ہے ۔اسی کی آغوش تربیت میں پرورش پاکر یہ ننھے منے بچے آگے چل کرجیا لئے کہلاتے اورنابغہ ٔ روز گا ر ہستیوں میں شمارکئے جا تے ہیں ۔ ماں کی دعائوں سے دوائیں پُر اثر ہو جا تی ہیں اور انسان حادثات و ناگہانی مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ گویا ماں اولاد کی فلاح و نجاح کی ضمانت اور حوصلوں ،شفقتوں اور ہمدردیوں کی شکل میں ایک بہترین اور قوی ترین ذریعہ ہے ۔بقول شاعر ؎
ابھی ز ندہ ہے ما ں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں گھر سے جب نکلتا ہو ں دعاء بھی سا تھ چلتی ہے
یقینا ًجس نے ماں کھو دی، اس سے ایک ہمدرد دل ،مہر با ن آنکھیں ،مشفق نگاہیں ،درد کش تریاق اور سکون بخش آغوش ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئی ۔اب اس کے لئے نحوست کا آغاز ہو چلا کیونکہ مصائب سے ٹکرانے کا حوصلہ ماں کے عزم بخش بول سے ملتا ہے ۔ مشکلات کے نا قا بل برداشت صدموں پرصبر کی طاقت ماں کے تسلی بخش آنچل سے نصیب ہو تی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو ماں کی ممتا کی عظمت سے واقف اور ا س کے مبارک لمس کا ذائقہ چکھ چکے ہوتے ہیں ،آبائی وراثت کی تقسیم کے وقت ساری دولت دے کر ماں کو اپنے حصے میں پاکر خوشی سے جھوم کر یہ فخریہ نعرہ لگاتے ہیں ؎
کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی دکا ں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
ماں کا مقا م و مرتبہ قدرت کی نظر میں بہت ارفع اور اس کی تعظیم عین عبادت ہے ۔خدا اور رسول ؐکے بعد اگر کوئی ہستی معتبر ہے تو وہ یقیناماںہے ۔بے چینی وبے کلی کے عالم میں آنچل مادر ہی راحت افزا ءسا مان ہو سکتا ہے ۔
آپ جا نتے ہیں کہ ماں کو ہی یہ منز لت ارفع کیوں نصیب ہوئی ؟اس لئے کہ انہوں نے نوماہ تک حمل کی صعوبتیں برداشت کیں ،دردزہ کا جا ن لیوا مرحلہ عزم و حوصلہ کے سہارے طے کیا ۔جسم کے عمدہ ترین خون کا لب لباب سفید دودھ کی شکل میں ۳۰ماہ تک پلایا ، تھپڑ کھایا مگر سینے سے لگا یا ۔یہی نہیں جہاں ہا ں کی گنجا ئش نہ تھی وہاں بھی اس نے بچوں کی خوشی کی خاطر ہاں کہا ،تب ہی تو غم خواری و ہمدردی کے اس بے نظیر نمونہ کو نبی کریمﷺنے یہ سند بھی عطا کردی ،فرما یا :’’جو عورت اپنے بچوں کی خاطر راتو ں کو جاگتی ہے، اُسے سرحد پر کھڑے ایک مجا ہد کے برابر ثواب ملتا ہے ۔ بڑے مبا رک ہیں وہ لو گ جنہیں ماںکی خدمت کے موا قع نصیب ہو ۔
ان دنوںموجو دہ سما ج میں والدین کی قدرو منز لت بڑی برق رفتا ری سے رو بہ زوال ہے ۔کوکھ سے جنم لینے والا جگر پارہ ہی ماں کی دلی شکست کا با عث بناہوا ہے ۔اسے بیوی کی سینڈل عزیز ہے،حالانکہ ماں کے قدمو ں تلے جنت ہیں ، اسی کے دعائو ں کے سہارے بیٹا یا بیٹی کامیابی و کا مرانی سے ہمکنا رہو ئے، ا سی کی ممتا کو وہ آج ٹھیس پہنچا رہا ہے ۔شا ید نا سمجھ بیٹے کو معلوم نہیں کہ ماں کی دعائیں تقدیرکی تحسین کا مضبوط وسیلہ ہو تی ہیں ۔ اس کا وجودِ محض ہی اس کی ترقی و ترفعی کا متین ذریعہ ہے ۔ماں کی نافرمان اولاد پر بد حالی و پریشانی مسلط ہوجا تی ہے ۔نحوست وبدبختی اسے اپنے شکنجہ میں جکڑ لیتی ہے ۔ وہ اسبا بِ راحت کے با وجو د بے چین او روسائل آرائش کے ہو تے ہو ئے بھی بے رونق ہی نظر آتا ہے ۔
ماں باپ سے نفرت کی فضاء عموما ًرشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہو نے کے بعد ہی ہموار ہوتی ہے ۔ وہ س طرح کہ ازدواجی زندگی رفتہ رفتہ ایک غیر مناسب موڑ لیتی ہے اور خونی رشتو ںکے درمیا ن دوریا ں پیدا ہونے لگتی ہیں ، کیونکہ یہی و ہ مقام ہے جہاں ایک مفا د پرست عورت (بیوی یا بہو ) باہمی تعلقا ت میںدراڈیںپیدا کرتی ہے ۔ نتیجتاً بے وقوف جگر پارہ جس ماں کی آغوش میں بچپن گزار ا تھا اسے ہی اپنے سے بر طرف اور لاتعلق رکردیتا ہے ۔ بالآخر حملہ و فصالہ ثلا ثون شہرا کی تفسیر ماں کی ممتا کی طرف اس کی توجہ تک نہیں ہو تی ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہماری زندگی کا وظیفۂ لازمہ ہو تا ۔پھربھی یا درہے یہ مختصر تا ریخی جملہ کہ حضرت علقمہ ؓ صحابی رسول ﷺ کو ماں کی نا راضگی کی وجہ سے ہی عندا لموت کلمہ ٔ حق نصیب نہیں ہو رہا تھا ۔ جب ماں نے معاف کیا تو اُس کے لئے سکرات الموت آسان ہو گئی۔
زن مریدی کے ہمہ گیر سیلا ب میں آج کل وارثین انبیا ءؑیعنی مسلمان بھی خش و خاشاک ثابت ہو رہے ہیں تلخ سچا ئی ہے کہ بڑی بڑی تقریرریںجاڑنے والےبھی اس طاعونی وبا کے شکار ہو چکے ہیں ۔یہ تقریر باز موثر خطبا ت سے عوام و خوا ص کا دل ضرور جیت لیتے ہیں مگر ماں اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے توازن بر قرار رکھنے میں اکثر و بیشتر وہ ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے والدین ان کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں مگریہ بے غیر تی کے سا تھ بیویوں کے تلوےچاٹ رہےہوتے ہیں اوران کی بیجا تعریفیں میں چاپلوسانہ طور رطب اللسان رہتے ہیں۔وہ جن چراغوںکی روشنی میں پل کر جوان ہوتے ہیں، اُنہی چراغوں کوبڑا ہوکر بجھا دینے کے درپے ہوتے ہیں ۔ سوچئے !جب رہبران قوم و ملت ہی لباس عمل سے عاری ہوں تو ان کے متبعین کا کیا حال ہوگا ؟
استاد اردو زبان وادب گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ سری نگر کشمیر
9419966805