جب ایک بچہ اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے ۔ اِس دنیا کی چکا چوند دیکھ کر زور آواز میں چلّاتا ہے اور روتا ہے۔مگر ماں کی گود میں پہنچ کر سکون پاتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ دودھ پیتا ہے اورنیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ بیدار ہوتے ہی پھر رونے اور چلانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مگرکچھ گھنٹے بعد وہ اس دنیا سے مونوس ہو جاتا ہے اوراِس دنیا کو، جہاں تک اسکی نظریں جاتی ہیں ،بغور دیکھتا رہتا ہے ۔اللہ سب کو بقائے زندگی کی کچھ فطری عادت دیکر اس دنیا میں بھیجتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ دیرپہلے پیدا ہوا بچہ ماں کی گود میں جاتے ہی دودھ پینا شروع کر دیتا ہے ۔ ماں کی گود سے اس دنیاوی زندگی کی شروعات ہو تی ہے اور یہیں سے وہ سیکھنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے دنیا میںپہلی تعلیم گاہ ماں کی گود ہوتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں مدرس میں ماںکا مقام اول ہے ۔ ماںچاہے خواندہ ہوں یا ناخواندہ، اپنے بچوں کواچھی بات بتاتی اور صحیح راہ دکھاتی ہے ۔اس میں ذرا بھی شبہ نہیں، ماں مدرس اعلیٰ ہے۔ ایک بچے کی کوئی مستقل زبان نہیں ہوتی ۔ ابتدئی مراحل میںوہ اردو، عربی، فارسی، ہندی ، بنگلہ ،انگلش، تیلگو، ملیالم ، مراٹھی، اوڑیا پتہ نہیں وہ کون سی زبان بولنا شروع کرتاہے۔سن طفلی میں آں، ایں، اوں وغیرہ جیسے مہمل الفاظ سے اپنی احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ اسے صرف اسکی ماں ہی سمجھ پاتی ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی دوسرا، اس لئے وہ مدرس اعلیٰ ہے۔ وہ ہمیشہ نیک خواہشات کے ساتھ اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے ۔ وہ بھی بے لوث۔ یہ فطرت خدا کی عطا کردہ ہے۔ سن طفلی میںبھوک، پیاس اور درد کا احساس وغیرہ کو ایک بچہ نا جانے کس زبان میںاظہار کرتا ہے۔ اسے کون سمجھ پا تا ہے؟ وہ ہے اس بچّے کی ماں، اس لئے وہ مدرس اعلیٰ ہے۔ پیدائش سے لیکر موت تک اس نے جو کچھ سیکھا اس کا سہرا ماں کو ہی جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں اس کی ماں پیار ،محبت،شفقت اورالفت جیسے خالص شئے کی آمیزش ڈال کر ا سے بالکل پختہ بنا دیتی ہے۔ اس لئے وہ مدرس اعلٰی ہے ۔ ماں کے بعد باپ کا مقام سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے۔ وہ اپنے بچّے ، بیوی اور گھر والوںکی کفالت کے لئے محنت و مشقت کرنے کے لیے ہمیشہ پُر عزم رہتا ہے۔ کسی چیز کی کمی نہ ہو اس کے لیے اپنی محنت و مزدوری کے وقفے میں اضافہ کرتا ہے۔ ہر ضروری اشیاء وقت پر مہیا رہے اس کا پورا خیال رکھتا ہے۔ بعد ازاں خاندان ، پڑوسی، دوست و احباب اور استاد کا نام آتا ہے۔
ہر انسان مندرجہ بالا اشخاص سے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ ماں باپ کے بعداستاد کا درجہ بلند ہے۔ استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر ہے۔ِ ایک بچے کی زندگی کا سفر جو ماں باپ کے ہاتھوں شروع ہوا تھا۔ استاد اس میں ثابت قدمی ، مستقلی ، کامیابی و کامرانی کی ضمانت اپنی تعلیم، تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر دیتا ہے۔ ایک استاد اپنے تجربے و مشاہدے کی بدولت ،پہلے بچے کے اندر پنہا خصوصیت و اوصاف کو پڑھتا ہے اور اسی کے مطابق اسے ڈھالنے کی کوشش کر تا ہے اور ایک دن اُس سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جا تا ہے۔ جس میں ڈھل کر ہی انسان ایک دن انسان بنتا ہے۔استاد کا بچوں میں پنہا خصوصیت و صلاحیت کو سمجھنا اور پرکھنا اللہ کی عطا کردہ ماں کے اندر قدرتی فطرت سے مشابہت ہے، اس لئے انکا درجہ ماں باپ کے برابر ہے۔کسی کولائق و فائق انسان بنانے میں والدین کے ساتھ استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ایک لائق و فائق استاد کا شاگرد بھی لائق و فائق ہی ہوتاہے۔ استاذمیں بھی کئی طرح کے استاذ ہیں۔ ایک استاد جو بذریعہ درس و تدریس زندگی کا مقصد، زندگی کا صحیح مفہوم، اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتا یاہو اور خود عملی زندگی میں اسپر عمل پیرا ہو اوراپنے تجربے کی بنیاد پر کامیابی و کامرانی کے راسطے طے کرنااور دشوار کن مراحل سے گزرنا سکھایا ہو۔وہ قابل احترام استاد ہیں،جنکا مقام دل میںہو تا ہے۔ یہ سب سے اونچا مقام ہے۔ استاد وہ بھی ہے جنکی طرز زندگی سے منفی سوچ، تنگ نظری، جھوٹ، فریب، دغا و دھوکہ وغیرہ کا مشاہدہ ہوا ہو۔ اس مشاہدے میں ہم غلط حرکات و سکنات سے واقف ہوئے۔ مطلب ان سے یہ سب کچھ سیکھا۔ جب ہم نے کسی سے کچھ سیکھا تو وہ ہمارے استاد ہوئے ۔ یہ ہمارے ارد گرد کے عام آدمی میں پڑوسی یارستہ دار اور خاص میں ہمارے استاد بھی ہو سکتے ہیں۔ چاہے جو بھی ہوں ان کا مقام فہرست میںسب سے ذیل کے خانوں میں ہوگا۔کیونکہ ایسے لوگ یا استاد جنکی طرزِ زندگی سے ہم نے جو کچھ بھی سیکھا، ان میں اچھی باتیں ، فعل یا ہنر کا فیصد ۵ سے ۱۰ ہے، بقیہ جومنفی اثرہماری زندگی پر پڑا، وہ ۹۰ سے ۹۵ فیصدہے۔ یہاںاچھے پر بُرے کا سبقت حاصل ہے اس لیے ایسے بُر ے سبقت کا سہرا جس انسان یا استادکے سر جاتا ہے وہ دوسرے لوگوں سے یا اپنے ساگردوں سے اچھے کی توقع اور عزت کی امید نہ رکھیں۔شاگرد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اُس استاد کی عزت و احترام کریں، جن سے زندگی میں اچھے ہونے یا بننے کا علم وہنر سیکھا ہو۔ ا نکے بتائے ہوئے راہ پر چل کر کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔یہ انکا حق ہے کہ انکی قدر کی جائے۔
کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ’’ جب ایک بچے کی طرف سے پوری دنیا مایوس ہو جاتی ہے تب صرف دو لوگ ہیں جنکے دل میں امید باقی رہتی ہے۔ ایک ماں اور دوسرا استاد‘‘۔ اس لیے وہ استاد جنہوں نے ہمیں کامیابی و کامرانی کی منزلیں طے کرنے میں صحیح رہنمائی کی اور زندگی کا صحیح معنٰی و مفہوم سے آشنا کرایا اور حائل رکاوٹوں پر عبور حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس میں ہماری رہنمائی کی یاآگاہ کرایا تاکہ ہم فلاح پائیں۔ ایسے استادبیشک قابل احترام اور عزت والے ہیں ۔اور ماں جس نے سن طفلی میں ہماری ایک مسکراہٹ کے لیے پو ری رات جاگنے میں اف تک نہیں کی۔ ہماری ہر ضروریات کو پورا کرنے میں اپنی ہر خواہشات کو بالائے تاک رکھ دی۔انگلی پکڑ کر چلنا سیکھایا۔ ہونٹوں کی لرزش سے ہمیں بولنا سیکھایا۔ہاتھوں کی انگلیوںپہ حساب و کتاب کو گننا سیکھایا، جو عملی طور پر زندگی بھر کام آتا ہے۔جب ذراشعور ہوا تو اچھے اور برے کی تمیز سیکھائی۔ اچھے کام کو عمل میں لانے کو یاد دلاتی رہی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتی رہی اور برے کام یا زبان کے استعمال سے روکے رکھا۔اس طرح سے ہمارے اندر نیک اوصاف نمایا ہوئے، جس کی بنیاد پر ہم زمانے میں نیک اور اچھے کہلائے۔کامیابی و کامرانی اور خوشحالی جس کی دعائوں سے نصیب ہوا،وہ ہماری ماںکی دین ہے اس لئے ماںمدرس اعلیٰ ہے۔
برقی پتہ۔ [email protected]