یوں تو سبھی انسانوں کی زندگی پر بے شمار لوگوں کے کردار کا اثر آفرین ہوتا ہے تب جا کے ان کی وہ بہتر زندگی بن جاتی ہے جو دوسروں کے لئے قابل رشک، قابل داد، قابل تحسین اور مشعل راہ ہوتی ہے۔ چہ جائیکہ یہ زندگی ایک عام سے لے کر خاص الخاص شخص کی کیوں نہ ہو۔ زندگی کو صحیح سمت پر سنوارنے میں سماج کے کئی اشخاص کا نمایاں کردار ہوتا ہے لیکن اسی زندگی کو غلط رخ دے کر بگاڑنے میں صرف چند گنے چنے افراد کا منفی کردار ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ یہ زندگی ایک بچہ سے بوڑھے شخص کی ہو یا ان پڑھ جاہل گوار سے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کی ہو۔ غرض ہر کسی کی زندگی میں کئی لوگوں کا ایک مثبت و منفی کردار ضرور ہوتا ہے۔
ہماری زندگی بھی کچھ اسی طرح سے گزرتی رہتی ہے جس میں ہمارے سماج کے کئی اہم افراد کا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ابتدائی سکول کی جب بات کریں گے تو ہماری زندگی میں اس ادارے اور معلمہ کا سب سے زیادہ کردار رہا ہے جس کی تعلیم و تربیت، صداقت و دیانت، امانت و پاس عہد، عدل و انصاف، حق شناسی، ہمدردی و اخوت، ایثار و قربانی، فرض شناسی و پابندی حدود، ہدایت و نصیحت، محبت وہمدردی، پرورش و رہائش، سچائی و راست گوئی، شفقت و نرم مزاجی، صبر و انتظار جیسے اوصاف سے بڑھ کر ظاہر و باطن کی پرہیز گاری سے ذہن سازی کی ہے۔ اس سے بڑھ کر آپ کی گود میں دعاؤں کے سایہ تلے ہم اپنی بے شعوری کی زندگی کے کافی لمحات گزارتے چلے گئے ہیں۔
اس ادارے اور معلمہ نے کبھی بھی کڑکتی ہوئی دھوپ کو ہمارے معصوم چہرے و نازک جسم پر براہ راست پڑنے نہیں دیا جس سے آپ نے Staratosphere سے بڑھ کر نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس سے زیادہ اپنی چھاتی کا معتدل دودھ جیسے بے لوث دولت سے سیر کر دیاجس سے نہ کبھی ٹھنڈا کرنے کی ضرورت پڑی اور نہ ہی گرم، جیسے ہمارے مزاج کے عین مطابق پیدا کیا گیا ہو۔ اس طرح سے ہمارے tissue epithelial کو نہ جلا دیا اور نہ کھانسی و زکام جیسی تکلیف پیدا کی ہیں۔ اپنے ہاتھ جب بھی اللہ کی بارگاہ میں بلند کیے تو ہمارے ہی خاطر عا کرتی رہی۔
اس معلمہ نے ہماری چیخ و پکار پر اپنی کئی ضروریات کو قربان کیا لیکن معصوم نگاہوں سے موتی جیسے آنسوئوں کو ٹپکنے نہیں دیا۔ یہ وہ بے لوث محبت تھی جو ہماری اس معلمہ کو بے قرار کیا کرتی تھی لیکن ننھے منے معصوم بچے کی معصوم نگاہوں میں درد کی داستان کو قبل از وقت پڑھ لیا کرتی تھی۔بدقسمتی سے ابھی بھی ہم اس محبت کو جان نہ پائے ہیں۔
تخلیق کائنات کے تعارف سے دلوں کو محظوظ کرنے والا لفظ " اللہ، اللہ، اللہ " سے آشنا کیا۔ ' اللہ ' جیسے خوبصورت جامع لفظ کو اپنے دلکش و منفرد انداز ترنم میں گن گنایا کرتی تھی۔ کیا ہی خوبصورت لوری سناتی جا رہی تھی یہاں تک کہ ہمیں نیند آیا کرتی تھی ۔یہی لفظ سننے کو کان ترس رہے ہوتے تھے تب جا کے دوبارہ نیند پڑنی شروع ہو جاتی تھی۔ مان لو اب یہ عادت سے ہو گئی تھی۔ لیکن واضح رہے اب وہ معلمہ بھی بدل گئی ، وہ زمانہ بھی بدل گیا اور وہ لوری بھی بدل گئی۔
اس معلمہ نے ہمیں کھانے سے سیر کیا، لباس سے زیب و تن رکھا، ہاتھوں میں قلم و کتاب تھما دی، ذہن میں اچھے خیالات کا بیج بویا، جسم کی نشوونما ایک تندرست ماحول میں کی، دین کی طرف رجحان پیدا کیا، نماز ادا کرنے کی طرف میلان بڑھایا، ہمیشہ سچائی پہ رہنے کا عظم دلایا، بری صحبت سے دور رکھا اور گندگی کے ڈھیر سے کھیلنے نہ دیا۔ یہ تھا اس تربیتی ادارے کا سلیبس جس سے آئے روز بڑے پیار و محبت سے سکھایا جاتا تھا اور دماغ کی رگ رگ پہ نکھارا جاتا تھا۔ اس نے علم و عمل کی راہ پر گامزن کیا اور حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ کیا۔
آخر بات ہو رہی ہے ہمارے اس ابتدائی ادارے اور معلمہ کی جس نے ہماری زندگی سنوارنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی ہے۔ لیکن آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہوگا کہ یہ ادارہ اور معلمہ کون ہے ؟ کیا اس ادارے اور معلمہ کی اہمیت سب کے لئے یکسان معنی رکھتی ہے ؟ آپ میں سے اکثر و بیشتر کے ذہن میں مضمون کا عنوان دیکھتے ہی ماں کا تصور ضرور آیا ہوگا۔ جی ہاں قارئین کرام آپ کی قیاس آرائی صحیح ہے ۔ یہ ادارہ اور معلمہ ہماری " ماں" ہے جس نے نو ماہ کے بعد سخت درد برداشت کر کے انسانیت کو جنم دے دیا۔ اور اس دھرتی پر سب کے لیے یکسان اہمیت کے حاصل مقام پر فائض ہوئی لیکن آج کا انسان اس درد کو ایک پل میں بھول بیٹھا۔ اس انس کی پری کی ناقدری کی گئی ہے اور یہ انسان اپنی خودی بھول بیٹھا ہے۔
ہر ایک فرد معاشرے میں اپنا ایک منفرد مقام و منصب، اپنا ایک الگ نام ، اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ایک مرد ہو تو بحیثیت باپ، بھائی، بیٹا، شوہر، ماما، خالو، پھوپھا، ماسا، چچا، دادا اور نانا جیسے مختلف نام، منصب و پہچان رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت ہو تو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، خالہ، بوا، چاچی، مامی، دادی اور نانی جیسے مختلف نام، منصب و پہچان اپنے مختلف اوقات پر رکھتی ہے۔ لیکن یہاں میں ماں کا ذکر کرنا اولین ذمہ داری سمجھتا ہوں جس نے اللہ رب العالمین کے 'کن فیکون' جیسے عظیم و بالا و نرالا مقدس صفت کاملہ و اذن سے ہمیں جنم دیا اور ابتدائی پرورش میں خاص کردار ادا کیا ہے۔
جب کوئی عورت ماں کے عہدے پر فائز ہو جاتی ہے تو وہ ایک بہت بڑی زمہ داری کو جنم دیتی ہے۔ جس میں اس کی ممتا کا ایک خاص جذبہ پایا جاتا ہے اور مخلصانہ انداز سے لبریز ایک خاص رشتہ بن جاتا ہے۔ تربیت کے لیے محبت اور جذبات ہی کافی نہیں ہوتے ہیں بلکہ بچے کی نفسیات کو سمجھنا اور پھر اس کے مطابق اس سے ایک کامیاب زندگی بنانے میں ایک اہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو صرف ایک ذمہ دار ماں ہی انجام دے سکتی ہے۔ چہ جائیکہ وہ پڑھی لکھی ہو یا نہ ہو۔
ہر ایک انسان کی شخصیت پر سب سے پہلے ایک ماں کی ممتا کے ہی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ جس کی کوکھ سے لے کر گود میں ایک ننھے منے بچے کو ایک پودے کی طرح سینچا جا رہا ہے، نشوونما پاتا ہے اور رفتہ رفتہ بہترین تربیت کرتا ہے۔ ایک ہرے بھرے پودے کی طرح خوشنما شکل و صورت دی جاتی ہے اور آخر پر وسیع احاطہ پر محیط پھل دار درخت کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کی شاخیں کافی دور دور تک چلی جاتی ہیں اور سایہ بھی کافی وسیع ہو جاتا ہے۔
الغرض ہمیں اس ادارے کی شبیہ کو برقرار رکھنا چاہیے۔اس سے تمام قسم کی گندگی سے صاف و پاک رکھنا چاہیے۔ اس ادارے کی دیکھ بھال کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔ اس کی حفاظت و ضرورت پوری کرنا ہمارا مقصد ہو اور اس کی صورت میں چار چاند لگانا ہمارا ہدف ہو۔ اس سے ضعیف العمر ہونے پر ذرا بھی گرنے نہیں دینا ہے۔ اس معلمہ کا حق دنیا کا کوئی بھی مرد ادا نہ کر سکا لیکن کما حقہ جتنا ممکن ہو سکے اس کے دل کو ہمیشہ توڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے چہ جائیکہ ہمیں خود اپنے آپ کو مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
اللہ کرے کہ سبھی مرد و زن پر اس شفقت کی پری کا سایہ برقرار رکھے اور جو لوگ اس ادارے کے فیض سے محروم ہوئے ہیں، اللہ رب العالمین انہیں اس محبت و قربان ہونے والی ماں کے لئے صدقہ جاریہ بنائیں۔ واقعی ماں، ماں ہی ہے جس کے احسان کا ہم ہمیشہ مقروض رہیں گے۔
رابطہ۔ ہاری پاری گام ،ترال کشمیر
فون نمبر۔ 9858109109