میں یونیورسٹی سے باہر آیا تو سڑک پر ایک پژمردہ خاتون کو دیکھاجو کسی کو غمگینی کی حالت میں اپنا دُکھڑا سنارہی تھی۔جب میں ذرا سا قریب آیاتو خاتون زور زور سے رونے لگی اور سننے والا شخض اسے تسلی دیتا رہا۔خاتون نے اپنی دبی آواز میں کچھ لفظ بولے جو میرے دل کو چھو گئے۔اُس نے اپنے اندورنی جذبات بیان کئے:’’ میری چار بیٹیاں ہیں،جس کی وجہ سے نہ تو ان کی عزت کی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی میرا احترام کرتا ہے۔وہ ہمیں مناسب دیکھ بھال نہیں کر رہے ہیں۔وہ ہم پر دبائو ڈالتے ہیں۔وہ کبھی بھی ہماری نہیں سنتے ۔اگر میں اور میری بیٹیاںکچھ کہتی ہیںہماری اَن سنی کردی جاتی ہے‘‘۔
ان دردبھرے لفظوں کو سنتے ہو ئے اُس نے اپنے آنسو کسی طرح روکے رکھے۔ اس واقعہ نے مجھے کافی جھنجھوڑ لیااور میرے ذہن میںباربار یہی سوال گونج رہاتھا کہ آخر لوگ کب خواتین کے ساتھ جان لیوا امتیاز کا رویہ دیکھتے رہیں گے ؟خواتین کے حقوق جاننے کے لئے ہمیں پیغمبر اسلام محمد ؐکے آخری خطبہ کو یاد کر نے کی ضرورت ہے۔پیغمبر کریم ؐ نے لوگوں کو خواتین کے حقوق کے بارے میں یاددلایا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ، ان کے حوالے سے دل میں خوف ِخدا رکھو۔
اسلام کی رُو سے اللہ نے بنت ِحوا کی عزت وآبرو کی ضمانت دی ہے اور ان کے حقوق کو سیکورٹی دی ہوئی ہے۔اسلام مر دوںا ور خواتین کو حقوق اور فرائض کے کھونٹے سے باندھتا ہے ،ا نہیں اپنے اپنے فیلڈ میںمساوات عطاکر تا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کی جنت کی ضمانت ماں بہن بیٹی اپنی خواتین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، ان پر مہربان رہے ،لطف و کرم کا رویہ اختیار کر ے ،ا سے عزت وتکریم دے۔قرآن کی کئی آیات اور احادیث میں مسلمان خواتین کی حیثیت، اُن کے مقام ومرتبہ،اُن کے گھریلو رول، اُن کے فرائض اور حقوق کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔ لہٰذامسلم معاشرے پر خواتین کی عزت کر نا، انہیںپیار دینا اور ان کے وقار کا تحفظ قرآن کا بنیادی تقاضا ہے۔ یاد رکھئے کہ ایک شادی شدہ جوڑے کی خوشی کا راز میاں بیوی کے درمیان اپنائیت اور محبت وعزت مضمر ہے۔نیک سیرت مسلم خاتون خاوند کی غیر حاضری میں اپنی گھر گرہستی اور عزتِ ذات کے تئیں بطور چوکیدار اوروفادارہوتی ہے۔اگر بالفرض میاں بیوی میں کوئی ا ختلافِ رائے ا و ر لڑائی جھگڑے کی اتنی نوبت آ جائے کہ گھر میں صلح صفائی کا امکان نہ رہے تب سورہ نسا34؍35 آیت کے مطابق دونوں اطراف سے صالح فکر اور تجربہ کار دو ثالثوں کو مقرر کیا جانا چاہیے جو میاں بیوی کے مابین مفاہمت اور سینہ صفائی کی گنجائش نکال سکتے ہیں اور اگر یہ تام صلح مشورے کے باوجود ممکن العمل نہ ہو تواللہ ان کو تنسیخ نکاح کی اجازت دیتا ہے اورا نہیں اپنی حمایت کا وعدہ دیتا ہے۔بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے، ہر ایک کی نیت اور عزم سے آگاہ ہے ۔پیغمبر اعظم محمد ؐ نے فرمایا: ’’ جو کوئی باپ دو لڑکیوں کی پرورش بالغ ہونے تک کرتا ہے،وہ یومِ حشر کو میرے ساتھ ہوگا۔(مسلم شریف)۔ فرمایا:’’جس نے تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کی ، ان کو اچھی عادات سکھائے اور ان سے شفقت سے پیش آیا،اللہ اس کے لئے جنت لازمی بنائے گا۔ایک آدمی نے پوچھا کہ دو بیٹیوں کے بارے میں بھی یہی وعدہ ہے ؟ آپؐ نے جواب دیا:اس کے لئے بھی‘‘۔ فرمایا:’’کیا میں آپ کو بتائوں کہ کون سی خیرات عظیم ہے ؟ سامع نے عرض کیا: بتائیں اے اللہ کے رسولؐ۔آپؐ نے فرمایا : آپ کی وہ بیٹی جو طلاق یا بیوہ ہونے کے بعد آپ کے پاس واپس آتی ہے ا ور اس کے پاس روٹی کمانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو‘‘ ( بخاری ،ابن ماجہ)۔
یہ اسلام کی ازدوجی زندگی سے متعلق وہ حسین وجمیل تعلیمات ہیں جن سے بیٹیوں کے متعلق عرب وعجم کے لوگوں میں نظریہ بدل گیا، اور آج دنیا کے تمام ممالک ان اصولوں کی خوشہ چینی کر رہے ہیں۔ایک نیک عمل اور خوب سیرت زوجہ ہر لحاظ سے شوہر کے لئے اللہ کا خوبصورت تحفہ اور عطیہ ہے جس کی خوب قدردانی ہونی چاہیے ۔ دونوں میاں بیوی پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے سے محبت و شفقت سے پیش آئیں کہ ان کی زندگیاں شیریں بن جائیں ۔ مسلم شوہروں کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے پیش نہ آئیں اور بیویوں پر بھی فرض ہے کہ اپنے شریکِ حیات کے تئیں اطاعت شعاری ،فرمان برادی اور نرمی و دل جوئی سے زندگی گزاریں تاکہ دونوں اللہ کی عنایات سے سرفراز ہوں اور اپنے محبوب پیغمبر ؐ کی شفاعت کے حق دار بن جائیں۔