ماؤ وادی مارا ماری

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read
 گزشتہ ماہ چھتیس گڑھ میں مائووادیوں نے CRPFکے 25 سپاہیوں کو گولی سے بھُو ن دیا۔ بے شک بہت دُکھ کی خبر ہے۔خبروں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا اس حملے میں مائووادی بھی مارے گئے یا نہیں۔صرف ایک افسر شیر محمد کا بیان آیا ہے کہ ’’ہم نے بھی گولیاں چلائیں اور کئی سارے مائووادیوں کو مار مکایا‘‘۔اس کی توضیح معلوم نہیں لیکن جس طرح دو ملکوں کی جنگوں کا دستور ہے جہاں بھی ایک طرف پولیس کے جوانوں کو شہید اعلان کر کے سلامیاں دی جا رہی ہیں، اُدھر مائو وادیوں کی شہادت کو بھی سلام کیا جا رہا ہے۔کون کس کے لئے شہید ہوا، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔
اگلے دِن ملک کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا بیان ہے کہ ’’ ہم اس حملے کا قرضہ موڑیںگے‘‘۔ جو سپاہی اس میں زندہ بچ گئے ہیں ان کے بھی بہت غصے بھرے بیانات آئے ہیں۔ایک سپاہی مہندر کمار نے ہسپتال کے بستر سے ہی کہا ہے کہ وہ ذرہ تندرست ہو جائے تو بدلے میں 50 مائووادیوں کو مار مکائے گا۔دُکھ اور غصہ قدرتی ہے لیکن ان کے الفاظ پر غور کرنا بنتا ہے۔پولیس ملازموں کی لاشوں کو پہلے چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور لے جایا گیا جہاں وزیر داخلہ سمیت کئی سیاستدانوں نے خراج اقیدت پیش کی۔ فر ان کو ہوائی جہاز سے انکے جائے پیدائش لے جایا گیا۔ان کے گھر والوں کی درد بھری تصویریں اخباروں میں چھپی ہیں۔رشتہ داروں کی چیکھیں دل ہلا دینے والی تھیں۔اگر مائووادیوں کی بھی موتیں ہوئی ہوںگی تو ان کے گھروں میں بھی اسی طرح کا رونا دھونا ہوگا۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ہلاکتوں کا یہ کھیل کیوں او ر یہ کب تک چلے گا؟پہلے ہی دن مائووادی سپوکسمین نے صرف دو ستری بیان دیا کہ وہ آدیواسی اور بے زمین کسانوں کے حقوں کی لڑائی لڑ رہے ہیں، دوسرا کہ وہ موجودہ سرکار کو بدل کر انصاف پر مبنی سماج کی تعمیر کرنا چاہتے ہیںلیکن آدیواسیوں اور کسانوں کو حق دینے کا کام صوبے کی سرکار ہے اور یہ حق مانگنے کا کام آدیواسی تنظیموں کا ہے۔ ان کے حقوق کے ضمن میں وہ دلیلیں دیںگے، جلسے جلوس اور مظاہرے کریںگے، لوگوں کو لام بند کریںگے۔ اگر پھر بھی سرکار نہیں مانتی تو آخری ہتھیار تو اُن کے پاس ہے ہی۔ وہ اگلے چناؤ میں سرکار کو بدل دیں گے۔آخر لوگوں میں آدیواسی اور بے زمین کسانوں کی اکثریت ہے۔ ان کے لئے خود اپنی سرکار بنا لینا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔کسی بھی طرح فوجیوں اور پولیس ملازموں کو مارنا اور اُن کے ہاتھوں خود مارے جانے کو لوگوں کے حقوں کی لڑائی نہیں کہا جا سکتا۔اس کے بعد ایک مائووادی لیڈر نے کہا کہ کیونکہ پچھلے سال پولیس نے ان کے تیس بندے مارے تھے، اس کا بدلہ لیا ہے۔اگر یہ بات ہے تو پھر تو یہ بندوقوں والے دو گروپوں کی آپسی مقابلے بازی ہے، اس میںبے زمین کسانوں کے حقوں کو گھسیٹنے کا کوئی مطلب نہیں۔ پھر تو یہ زمانے میں رد کئے گئے نعرے کی بات ہے   ؎
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
 دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے 
آج کے مزدور کسان کو،آج کے عوام کو ان نعروں یا ایسے نعرے والے ہمدردوں کی ضرورت نہیں۔آج سروں کو محفوظ رکھ کر ہی لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔در اصل اندھ وشواس یا اندھا اعتقاد صرف جادو ٹونوں اورپوجا پاٹھ میں ہی نہیں، سیاسی خیالات اور انقلابی وچار دھارا میں بھی موجود ہیں، جیسا کہ مائووادیوں کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ یہ لوگ چین کے آنجہانی چینی صدر مائو زے تنگ کے نام کی مالا آنکھیں موند کر جپتے ہیں۔مائو کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’انقلاب بندوق کی نالی سے نکلتا ہے‘‘۔ہو سکتا ہے کہ 1930-40کے وقت اس کے کوئی خاص معنی ہوںلیکن آج کی حقیقی اور rationalistسوچ کا ماننا ہے کہ بندوق کی نالی سے صرف موت نکل سکتی ہے ،چاہے آدمی کی نکلوا لو چاہے کسی حیوان کی ۔اس لئے یہ لوگ ایک دقیانوسی فلاسفی کے شکار ہیں۔یہ بالغ ووٹ پر مبنی جمہوریت کو نہیں مانتے،اس کو برجوواژی جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔یہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ اسی کے ذریعہ انسان نے صدیوں سے چلتی آ رہی خاندانی شخصی حکومتوں سے آزادی حاصل کی ہے۔ اسی کو لوگوں کا راج، مزدوروں کسانوں اور آدیواسیوں کا راج کہا جائے گا۔ اس میں عوام کی خودمختاری ہے لیکن یہ ووٹ کے بائیکاٹ کا نعرہ اس طرح دیتے ہیں جیسے یہ پاپ ہو، گناہ یا عذاب ہو۔یہ حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن عوام کا سب سے برا حق کہ وہ اپنی مرضی کی سرکار بنایں اس میں یہ خود رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ مائووادیوں کو لوگوں پر اعتقاد نہیں، ان کو ان کی جمہوری طاقت پر یقین نہیںیا یہ تنظیمی صلاحیت کو نہیں مانتے۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جن مسائل کو یہ لوگوں کے مسائل بولتے ہیں،وہ لوگوں کے ذہن میں نہیں، رو صرف انہیں کے خیالات میں ہیں۔ اسی لئے لوگوں کو لام بند کرنے کے بجائے یہ بندوق کا سہارا لیتے ہیں، فولاد کے اس بھاری اوزار کو چومتے ہیں، اس کو بوسا دیتے ہیں جو اس دور کی سب سے منحوس مشین ہے۔اس کا استعمال بندے مارنے کے علاوہ اور کسی کام کے لئے نہیں ہو سکتا۔
اگلا مسئلہ ملک کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیان کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کا قرضہ چکتا کریںگے جس کے معنی بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ہسپتال کے بستر پر پڑے ایک زخمی سپاہی کا کہنا ہے کہ وہ راضی ہوتے ہی 50 مائووادیوں کو مار مکائے گا۔ سوال یہ ہے کو کون سے پچاس مائووادی؟کیا اس نے ان قتلوں کو انجام دینے والوں کی شناخت کر لی ہے؟ نہیں، اس کا ایسا مطلب نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے کوئی بھی پچاس مائووادی ، کیوں کہ عملی مطلب یہی نکلے گا، کوئی بھی پچاس، ساٹھ یا سو آدیواسی، کسان اور مقامی باشندے۔لگتا ہے کہ راجناتھ سنگھ کا قرضہ واپس کرنا بھی کچھ اسی طرح کا ہوگا۔مائووادیوں کی دہشت گردی کے عذاب میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی تو اس کو اب سرکاری دہشت گردی پورا کرے گی۔پوچھ تاش اور تلاشی کے نام پر ظلم برسنا شروع ہوگا، مار پیٹ ہوگی اور اب تک بندوق والے تو علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں، اس لئے پولیس والوں کو ننگے بدن والے لوگوں سے ہی مقابلے کرنے ہوں گے۔عام کسان اور آدیواسیوں کو مارا جائے گا۔
ایسا ہی سلسلہ آگے چلتا رہ سکتا ہے۔ ننگے بدن والے دہشت گردوں میں سے ہی کسی کا بیٹا باپ کی لاش ٹکانے لگانے کے بعد اسی بندوق کو بوسا دے سکتا ہے جس نے اس کو یتیم بنایا تھا۔ اس طرں نئے قرضے چڑتے رہ سکتے ہیں اور اترتے رہ سکتے ہیں۔چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اُڑیسہ اور بنگال کے بھی کچھ علاقے ہیں جن کو مائووادکے اثر والا خطہ بولتے ہیں، یہ بہت پچھڑا ہوا خطہ ہے۔یہاں آمدورفت کے وسائل بہت کم ہیں، تعلیم، صحت اور سڑکوں وغیرہ کی تعمیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ غریب ہیں،کھانے پہننے کے وسائل کم ہیں۔ بندوق نے ان لوگوں کی مشکلوں کو کئی گنا بڑا دیا ہے۔بندوق ان کے لئے راحت نہیں قحط کا سبب بن گئی ہے۔ بندوق کو بندوق سے نہیں روکا جا سکتا۔ نہ ہی 25 کے بدلے 50 مارنے سے او ر نہ ہی قرضہ موڑنے سے۔ ان قرضوں کو آج تک کوئی چکتا نہیں کر سکا ہے،ان کی کبھی بے باقی نہیں ہوتی۔سرکار کو ان لوگوں کے حقیقی مسائل سمجھنے ہوںگے اور ان کے حل کے لئے بڑے قدم اٹھانے ہوںگے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن وزیر داخلہ کی بہادری اسی میں ہوگی،قرضہ موڑکر غازی بننے میں نہیں۔بندوق کو صرف لوگوں کی لام بندی، منظم عوامی تحریک اور جمہوریت ہی روک سکتی ہے۔ ان کو مضبوط بنانا ہو گا۔آخر میں دو تین باتیں اُن ادیبوں دانشوروں سے جو مائوواد کے علاقوں میں جاتے ہیں۔یہ ان کی تکلیفیں سنتے ہیں، ان کی مانگیں سنتے ہیں،ان کے خواب سنتے ہیں۔بہت اچھا کام ہے ، ثواب کا کام ہے لیکن یہ وہاں بندوقوں کے ساتھ تصویریں بھی کھچواتے ہیں ،جو کچھ حد تک فخر کا احساس ظاہرکرتا ہے اور بندوق کے وجوب کا تصور بھی۔یہ درست نہیں ہے، ثواب نہیں ہے۔ہم نے ادیبوں سے ہی سنا ہے کہ قلم تلوار سے طاقت ور ہوتا ہے، اگر قلم ہی تلوار کا گن گان کرے تویہ اس کی شکست خوردگی ہوگی۔ادیبوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو منظم لام بندی اور جمہوریت کی طاقت کا احساس کروائیں۔دانش وروں کو انہیں کہنا چاہیے کہ بندوق کی نالی سے نہ انصاف نکلتا ہے نہ انقلاب،نہ مکتی،نہ خلاصی اور نہ آزادی۔ اس سے صرف موت نکلتی ہے اور موت دینے میں یہ اپنے مالک کو بھی نہیں بخشتی، بوسہ دینے والے کو بھی نہیں۔
رابطہ 098783 75903 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *