مالدیپ سے ایک مرتبہ پھر سیاسی اتھل پتھل کی خبریں آرہی ہیں ، وہاں ایمرجنسی کا نفاذ ہوچکاہے ، سپریم کورٹ کے دو ججز گرفتار کر لئے گئے ہیں،عوام میں بے چینی ،انتشار اور افتراق ہے ،محمدنشیط اور عبد اﷲ یامین کی سیاسی چپلقش کی وجہ سے دنیا کا یہ خوبصورت ترین ملک کئی سالوں سے مسلسل سیاسی بحران کا شکار ہے ۔ کچھ لوگ عبد اﷲ یامین کی حمایت کررہے ہیں ،کچھ لوگ محمد نشیط کے ساتھ ہیں ، تاہم ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں دونوں میں سے کوئی پسند نہیں ہے ۔1965 میں برٹش حکومت سے آزادی ملنے کے بعد اس ملک نے بے مثال ترقی کی ہے ۔ ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا میں اپنی شناخت قائم کرنے میں اسے کامیابی ملی ہے ، پچاس سال پہلے جس ملک کے کی اقتصادی سطح پر کوئی حیثیت نہیں تھی ، آج وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے اور عالمی سطح پر سیاحوں کا سب سے بڑامرکز بناہواہے ۔ ماہی گیری (فش انڈسٹری ) کے بجائے ٹورازم انڈسٹری نے دنیا بھر میں اس ملک کو نمایاں شناخت عطا کیا ہے ۔ سال 2017 میں 14لاکھ سیاحوں نے وہاں کا سفر کیا ہے۔ آزادی ملنے کے بعد مامون عبد القیوم مالدیپ میں اقتدار پر قابض ہوکر حکومت کی اور مسلسل35 سالوں تک ان کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ دوڑ رہی ۔ یہ عوام کا شدید احتجاج تھا جس کے بعد انہیں اقتدار کو چھوڑکر اس ملک سے الود اع کہنا پڑا ۔جمہوری نظام کے مطابق انتخابات کرائے گئے اور 2009 میں صحافت سے سیاست میں قدم رکھنے والے محمد نشیط یہاں کے صدر منتخب ہوگئے ، لیکن وہ بھی اس ملک کے لئے زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوئے کیوں کہ انہوں نے سیکولزم کا لبادہ اوڑھ کر ملک کی ثقافت اور شناخت کو ختم کرنا شروع کردیا ،اسلامی آثار کو فروغ دینے کے بجائے وہ سیکولر اسٹیٹ مشن پر عمل پیرا ہوئےا ور حکومت کرنے لگے، مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو وہاں تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا ،ایک مسلم ریاست کے بجائے ملک کی تصویر ایک سیکولر اسٹیٹ کی حیثیت سے انہوں نے پیش کی ۔ہندوستان نے بھی اس معاملے میں ان کا بھر پور ساتھ دیا اور مالدیپ ۔ہندوستان کی دوستی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔بہر حال محمد نشیط کے اس نظریہ کے بعد سخت عوامی ردعمل سامنے آیا،فوج نے بغاوت کی اور انہیں صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ 2013 میں دوبارہ الیکشن ہوا جس میں پی پی پی کو کامیابی ملی اور 35سالوں تک صدر رہنے والے مامون عبد القیوم کے بھائی عبداﷲ یامین صدر بن گئے ۔انہوں نے صدر بننے کے بعد ملک میں اسلامی ثقافت کو فروغ دیا ،بے حیائی اور عریانیت کے اسبا ب پر قد غن لگائی ،مساجد ،اسلامک اسکول اور علم دین کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی ،عوام نے بھی شرو ع میں بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ۔اس دوران انہو ں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے مخالفت کے تمام درواز ے بند کرنے کی کوشش کی ۔ اسی بیچ سابق صدر محمد نشیط پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے 13 سالوں کیلئے قید کی سزا سنا دی ۔اپنی پارٹی کے کئی باغی ممبران کو بھی انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا،دوسری طرف انہوں نے ہندوستان کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات میں وسعت پیدا کی ۔ چین نے بھی مالدیپ میں سرمایہ کاری پر خاص توجہ دی۔ بات اس وقت خراب ہوئی جب عوام کو یہ خبر ملی کہ عبد اﷲ یامین نے چین کو کئی جزیرے فروخت کردئے ہیں ۔یہ اطلاع عوام کے سروں پر بجلی بن کر گری ،عوام کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی اس کی شدید مذمت ہونے لگی ، مخالف آوازوں کو بند کرنے کیلئے صدر مملکت اپنے تمام مخالفین کو جیل میں بند کرنے لگے ۔حالیہ بحران اس وقت پیش آیا جب مالدیپ کی سپریم کورٹ کے جج نے سابق صدر محمد نشیط سمیت جیل میں بند تیرہ سیاسی لیڈروں کورہاکرنے کا فیصلہ سنادیا ۔عدلیہ کے اس فیصلہ کے بعد عبد اﷲ یامین نے نیشنل ٹی وی چینل سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں 15 دنوں کیلئے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا ۔ اپنی قوم کے نام خطاب میں انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ ملک کا تمام نظام حسب سابق باقی رہے گا ،ایمرجنسی کی وجہ بتاتے ہوئے کہاکہ عدلیہ نے فوجی بغاوت کی سازش رچی تھی اور اس کے پس پردہ سابق صد رمحمد نشیط کا ہاتھ کارفرماہے ۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جن دنوں مالدیپ میں یہ سب چل رہاتھا، محمد نشیط برطانیہ کے بجائے سری لنکا کی راجدھانی میں قیام پذیر تھے ۔ عبد اﷲ یامین نے فوراًسے پیش ترسپریم کورٹ کے جج عبد اﷲ سعید اور دیگر کو گرفتار کرنے کا حکم بھی صادر کردیا ۔ججز کی گرفتاری کے بعد صورت حال سنگین ہوگئی ہے ۔سابق صدر محمد نشیط اور مامون عبد القیوم نے ہندوستان سے فوجی مداخلت کی اپیل کی ۔ہندوستان اس سے پہلے بھی 1980 میں مداخلت کرکے مالدیپ کی مدد کرچکاہے ۔دوسری طرف چین کی بھی پورے معاملے پر نظر بنائے بیٹھاہے ۔ چین کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ ہندوستان مالدیپ میں مداخلت کرے یاعبد اﷲ یامین کی صدارت پر کوئی زدپڑے ۔ دوسری جانب ہندوستان کا مفاد محمد نشیط کی حکومت میں واپسی سے وابستہ ہے ۔اقوام متحدہ اورامریکہ سمیت کئی ملکوں نے عبد اﷲ یامین کے سپریم کورٹ کے احکامات کی تابع داری نہ کرنے پر مذمت کی ہے ۔بہر حال مالدیپ کا یہ داخلی معاملہ ہے ،ا جزیرے کی بھلائی اور بہتری کا مفاداسی میں ہے کوئی وہاں بیرونی مداخلت نہ ہو اور وہاں کے اربا بِ سیاست خود یہ معاملہ حل کرلیں ۔
مالدیپ بحر الہند میں واقع ایک جزیرہ نماملک ہے ،پانی اور سمندر کے درمیان اس کا جائے وقوع ہے ،خشکی سے زیادہ پانی کا حصہ یہاں پایاجاتاہے نوےہزارمربع کیلومیٹر اور 35000 ہزار مربع میل کل رقبہ ہے ،پورے ملک میں کل12 سو کے قریب جزیرے ہیں ،جن میں دوسو آبادہیں۔کچھ پر ریزاٹس بنے ہیں،بعض جزیروں کا استعمال کاشت کاری کیلئے ہوتاہے ، بقیہ غیر آباد ہیں ۔ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ میں جانے کیلئے کشتی کا سہارا لینا پڑتاہے ۔ایک جزیرہ کا جغرافیہ عموما ڈھیڑھ دو کلومیٹر کا ہے ، وہیں دوکلومیٹر کا رقبہ جزیرہ کی آبادی کیلئے سب کچھ ہوتاہے ۔خشکی کا وہی حصہ انہیں نصیب ہوپاتاہے ،بقیہ ساری ضروریات انہیں سطح آب پر پوری کرنا ہوتی ہےہیں۔ سطح سمندر سے صرف ڈیرھ میٹر اوپر آبادی ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ نیچا ملک ماناجاتاہے ۔سطح آب سے اس قدر قلیل فاصلہ ہونے کے بناپر مالدیپ کو خطرات سے دوچار ممالک میں شامل کیا جاتاہے ۔ ملک کا سب سے بڑا جزیرہ گین (Gan)ہے جو تقریبا 8 کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔ ملک کی راجدھانی مالے ہے جو صرف تین کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔اس کے مساوی دوتین جزیرے بھی اس میں شامل کرلئے گئے ہیں۔بارہویں صدی میں عرب تاجر شیخ ابو البرکات نے اس وقت کے بادشاہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا اور پوری رعایا کو اسلام میں داخل ہونے کا حکم دے دیا۔مالدیپ کے تمام شہری مسلمان ہیں، دوسرے لفظوں میںہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سعوی عرب کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جہاں سو فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔