Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

! ماضی کے رستے زخم حکیم کی تلاش میں فکرو ادراک

Towseef
Last updated: November 11, 2024 11:02 pm
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

سید مصطفیٰ احمد

جموں و کشمیر میں پچھلے ایک ہفتے سے حقیقی سیاست کی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ چھ سال سے پڑی سیاست کی بنجر زمین میں اب سیاست کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ صاحب اور اس کی کابینہ کا حلف اٹھانے کے ساتھ ساتھ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا صاحب کا حکومت تشکیل دینے میں میں نمایاں رول ادا کرنا، قابل تعریف کوششیں ہیں۔ جیسے کہ مضمون کے عنوان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سارا مضمون ماضی کی یادوں پر مبنی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کے پیچھے میرا منشاء ماضی کے زخموں کو پھر سے کریدنا نہیں ہے۔ ماضی اب ماضی ہے۔اب حال اور مستقبل کو روشن بنانے کی ضرورت ہے لیکن ماضی کے زخم جب یاد آتے ہیں توہ روح کانپ جاتی ہے۔ زندگی ایک بوجھ دکھائی پڑتی ہے۔ یادیں لہروں کی طرح دل سے ٹکراتی ہیں اور طوفان اٹھاتی ہیں۔ میں معذرت خواہ ہوں، اگر میری وجہ سے کسی شخص کی دلآزاری ہوتی ہے۔ مضمون حساس نوعیت کا ہے لیکن میں حکمت اور دانائی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔ ہر قاری پر آزاد ہے کہ وہ میری تحریر کو کس زاویے سے دیکھتا ہے۔ میری نیت صرف اتنی ہے کہ میں اپنے کچھ زخموں اور کچھ ایسے وعدوں کی بات کروں جو ہم سے کرنے کے بعد بڑی بےشرمی سے توڑے گئے۔ ان چہروں کی یادیں آتی ہیں جنہوں نے ہم سے ہمارا ساتھ مانگ گر اپنی سات پیڑیوں کی زندگیوں کو آسان بناکر ہمارے لئے جہنم کے دروازے کھول دیئے۔ ہم کیسے روح اور دل پر لگی انمٹ چوٹوں کو بھول سکتے ہیں! جب لوگوں سے معصومیت اور انسانیت خوبصورت انداز سے چھینی جاتی ہیں تب ہزاروں سال کی طرح نرگس اپنی بےنوری پر روتی رہتی ہے۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ بہادر شاہ ظفر کیا خوب لکھتے ہیں کہ عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن، دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میںکے مصداق ہمارے چاروں دن نہ تو آرزو میں نہ تو انتظار میں کٹے۔ ہمارا سارا وقت بے بسی کی بدصورت داستانیں بننے میں صرف ہوا اور موت اور رنج کے اونچے اونچے پہاڑ ہمارے نصیب میں آئیں۔

جب جذبات اور جہالت کسی قوم کے اندر سرایت کر جاتی ہیں، تب اس قوم کا صرف خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ کشمیری قوم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر لوگ جذبات اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور ہیں۔ اول دن سے ہی یہاں عقل سے بعید فیصلوں نے قوم کی ناؤ کو مختلف طوفانوں کے حوالے کر دیاہے۔ دین کی سمجھ نہ ہونا اور فرضی لیڈروں کی رال کو مقدس سمجھ کر اپنی آنکھوں پر لگانے کی وجہ سے چیزوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنے کی قوت سے ہم محروم ہوگئے۔ ہم نے کبھی بھی چیزوں سے اوپر اُٹھ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی، تاکہ ہم اپنے آپ سے مخاطب ہوکر خود کی بچکانہ حرکتوں پر اپنے آپ کو انصاف کے کٹھہرے میں کھڑا کرتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھتے کہ کیا سے کیا ہوا۔ پہلے قانون اندھا ہوا کرتا تھا لیکن اب قانون نے بھی اپنی آنکھوں کے اوپر سے کالی پٹی کو اتار پھینک دی ہے لیکن انسان کے پاس شعور اور جوابدہی کا مادہ ہونے کے باوجود وہ کھرے اور کھوٹے میں فرق نہیں کرسکتا ہے اور رات اور دن کے درمیان ایک نفیس لکیر کھینچنے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے جس سے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں فرق کیا جاتا ہے۔

اس رویے کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ہزاروں لوگ قبروں میں آرام فرما رہے ہیں، زخمیوں کی لمبی فہرست ہے، بیواؤں اور یتیموں کا کوئی حساب نہیں، کتنے گھر اور جائدادیں اجڑ گئے، کتنی زندگیاں جیلوں میں سڑ گئی، کتنے نفسیاتی مریض بن گئے، کتنے پاگل ہو کر زندہ لاشوں کی طرح دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو بچھڑے ہوئے اپنوں کی یاد میں آج بھی آہ و فغاں کے ادوار سے گزر رہے ہیں، وغیرہ۔ درد و الم کا ایسا سماں ہے کہ ہنسی ہمارے چہروں سے لگ بھگ غائب ہی ہوچکی ہے۔ ہر وقت اپنی جان جانے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ افسردگی کے ماحول میں کبھی گھر سے نکلنے میں ڈر لگتا ہے تو کبھی گھر کے اجڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر انسان گھر جانے سے کتراتا ہے۔ اس درد بھرے ماحول کو الفاظ کا جامہ پہنانا، آہنی چنے چبانے کے مترادف ہیں جس سے منہ چھلنی ہونے کے مواقع زیادہ ہیں۔ ایک بیوہ ماں آج بھی اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کی آنکھیں اب سفید ہوکر رہ گئی ہے۔ 1990 سے آج تک لکھے گئے ناولوں اور افسانوں میں ان والدین کا درد اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ دل خون کے آنسوؤں روتا ہے۔ The Collaborator جیسی ناول کو پڑھ کر قاری کے سارے زخم ہرے ہونے لگتے ہیں اور خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔ اپنوں کی بیوفائی، اپنی خطائیں اور غیروں کے ستم نے ہم سے سب کچھ چھین لیا ہے، سوائے سانسوں کے جن کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ زخموں پر مرہم لگانے کی کوششیں تیز کی جائے۔ماضی کے زخموں کو اگر نیک نیتی سے بھرنے کےخاطر خواہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو بہت حدتک ہمارا مداوا ممکن ہوسکتا ہے۔ نئے زخم کھانے کی تاب اب لوگوں میں نہیں رہی ہیں۔ سیاسی مرہم کے علاوہ معاشی مداوا بھی بنیادی ضروریات میں ایک اہم ضرورت ہے۔ نفسیاتی مرہم سب مرہموں میں سرفہرست ہے۔ Psyche پر لگی ٹھیس اتنی گہری ہے کہ چھوٹی سے آہٹ سے دل گھبرا جاتا ہے اور پرانے ڈھانچے بند کمروں سے نکل کر آتے ہیں اور بھولی داستانیں پھر سے یاد آنے لگتی ہیں۔ سب کا بھلا، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے نعرے ہمارے درد بھرے لہجوں میں کچھ مٹھاس پیدا کرسکتے ہیں۔ حکومت سے لے کر سماج کے ذی شعور حضرات کو کشمیر کو پھر سے تعمیر کرنے کی فکر میں تن و من سے جُٹ جانا چاہیے۔ ماضی میں وسائل کا بہت زیادہ زیاں ہوا ہے اور اب بچے کُچے وسائل کا بھرپور استعمال کرکے sustainable living اور sustainable economic development کی راہوں پر ہم سب کو چلنا شروع کرنا ہوگا۔ Psychologically mature personalities کو پیدا کرنا پوری قوم کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
(رابطہ: حاجی باغ، بڈگام ۔7006031540)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پونچھ کے سرکاری سکولوں میں تشویش ناک تعلیمی منظرنامہ،بنیادی سرگرمیاں شدید متاثر درجنوں سرکاری سکول صرف ایک استاد پر مشتمل
پیر پنچال
فوج کی فوری طبی امداد سے مقامی خاتون کی جان بچ گئی
پیر پنچال
عوام اور فوج کے آپسی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ناڑ میں اجلاس فوج نے سول سوسائٹی کے ساتھ سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا
پیر پنچال
منشیات کے خلاف بیداری مہم بوائز ہائر سیکنڈری سکول منڈی میں پروگرام منعقد کیاگیا
پیر پنچال

Related

کالممضامین

! صحت کشت اور خاموش دعوے | جموں و کشمیر میں کاشتکاروں کے حقوق کی بنیاد کا جائزہ معلومات

July 15, 2025
کالممضامین

! بغیر ِ محنت و جدوجہدکامیابی حاصل نہیں ہوتی فکر و ادراک

July 15, 2025
کالممضامین

کسان ۔ شکر، صبر اور توکل کا دوسرا نام عزم و استقلال

July 15, 2025
کالممضامین

ماہ جولائی میں زراعت میں کرنے کے کام زراعت

July 15, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?