پروفیسر اسلم جمشید پوری
جب بھی ریاست جموں و کشمیر کا ذکر آتا ہے تو ہر دل میں جنّت کا نظارہ گھوم جاتا ہے ۔اس علاقے کو ہندوستان کی جنت بھی کہا جا تا ہے ۔اگر ذکر کشمیر کا کیا جائے تو آپ کو حیرانی ہوگی یہاں قدم قدم پر پھل ،پھول ،درخت ،کیاریاں،برف ،جنگلات ،وادیاں ،جھیلیں،چشمے ،آب جو ملتے ہیں۔یہاں بہت سارے پھلوں اور میوں کی فصلیں لہلہا تی ہیں۔سر سبز و شاداب وادیاں ،پہاڑیاں یہاں کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہیں۔برف کی پرت ان پر امن کی چادر چڑھاتی ہیں۔چنار کے درختوں کے پتے چنگاری سے کم نہیں دکھائی دیتے۔یہاں کی تہذیب و ثقافت سب کا دل موہ لیتی ہے ۔
یہ ریاست تہذیبی اعتبار سے دو مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا امتزاج ہے ۔کشمیر کی تہذیب و ثقا فت ،جموں سے بہت مختلف ہے ۔جموں اور کشمیر میں کچھ مماثلتیں بھی ہیں جو ان علاقوں کو ایک کرتی ہیں ۔خاص کر یہاں کی زبان اور کھان پان بلکہ لباس بھی ملتا جلتا ہے ۔ویسے کشمیر پہاڑوں اور ہرے بھرے سبزہ زاروں ،وادیوں سے گھرا ہوا ہے ۔یہاں ٹھنڈ زیادہ پڑتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ یہاں کے لوگ زیادہ گرمی برداشت نہیں کر پاتے ۔کشمیر کی خوبصورتی کا کیا کہنا۔یہاں کے حسن پر اردو ،فارسی ،ہندی اور انگریزی میں منظوم بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔کئی فلموں کی شوٹنگ یہاں ہوئی ہے ۔فلم کشمیر کی کلی ،ماچس اور کشمیر فائل بہت مشہور ہوئیں۔ متعدد گانے بھی کشمیر کے حسن کی تعریف میں ہیں ۔
کشمیر کا حسن دیکھنا ہو تو کرشن چندر کے ناول ’’ شکست ‘‘ اور افسانہ ’’ پورے چاند کی رات ‘‘پڑھیں۔اسی طرح نور شاہ ،دیپک بد کی،آنند لہر، ترنم ریاض ،وحشی سعید ،ریاض تو حیدی ،مشتاق وانی و دیگر فنکاروں نے نہ صرف کشمیر کے حسن کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے بلکہ کشمیر میں فوجی دہشت گردی ، آتنک واد ،عوام کا درد اور دیگر مسائل کی بھی عمدگی سے عکاسی کی ہے۔
کشمیرجب آزاد ہوا تو اس کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔ایک ہندوستان کے پاس رہااوردوسرا پاکستان کے پاس چلا گیا ۔پاکستان کی طرف کشمیر کا جوحصہ گیا اسے پاکستان مقبوضہ کشمیر( Pakistan Occupied Kashmir )کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس پر بھی ہندوستان اپنا حق جتاتا ہے ۔آزادی سے لے کر آج تک کشمیر میں کئی بار حکومتیں بنیں۔متعدد بار وہاںصدر راج اورگورنر راج نافذ ہوئے۔دہشت گردی یعنی آتنک واد نے وہاںسر ابھارا۔سال میں کئی بار دہشت گردوں نے حملے کئے۔بے روز گاری اور اعلی ٰ تعلیم کے نہ کے برا بر ہونے سے وہاں کے نو جوانوں نے دہشت گردی کا راستہ اپنا لیا۔وادی ٔ کشمیر میں امن و امان غارت ہو گیا۔بد امنی ،بے روز گاری،اور دہشت گردی نے وہاں کی معیشت کوبری طرح متاثر کیا۔ٹورزم ،پھلوں اور میوں کی تجارت بالکل ٹھپ ہوگئی ۔
جموں کشمیر کا کل رقبہ ۲۴۱،۴۲ مربع کلو میٹرہے۔اس کی کل آبادی ( ۲۰۲۴ کے مطابق)ایک کروڑ ۲۵ لاکھ ہے ۔اس میں ۲۰ ضلعے اور ۲۰۷ تحصیلیں ہیں۔کشمیرکی کل آبادی میں ۰۶ء۹۷فی صد مسلمان ،۱۱ء۲فی صد ہندو اور۵۸ء۰ فی صد سکھ ہیں۔جبکہ جموں میں ۸۴ فیصد ہندو اور ۷فی صدمسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔
۱۹۴۷ میں جب ملک انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا اور ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے ۔نیا ملک پاکستان بنا۔جموں و کشمیر میں اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی ،انہوں نے ہندوستان نہ پاکستان میں جانے کا مصمم ارادہ کیااور آزاد جموں کشمیر کی وکالت کی۔لیکن اسی سال پاکستان نے جموں و کشمیر پر حملہ کر دیا ۔مہا راجہ ہری سنگھ نے اس جنگ میں ہندوستان سے مدد مانگی اور ہندوستان کے تحت آنے کی بات کہی۔ اس طرح جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ بنا۔
جموں کشمیر مرکز کے ماتحت یونین ٹیری ٹیری علاقہ تھا۔یہاں لفٹینٹ گورنر حکمراں ہوتے تھے۔کبھی کبھی یہاں اسمبلی بھی بحال ہوئی اور انتخابات بھی ہوئے ۔غلام محمد صادق ،سید میر قاسم ،شیخ عبداللہ ،(دو بار) فاروق عبداللہ ( تین بار)غلام محمد شاہ ،مفتی محمد سعید (دو بار) غلام نبی آزاد،عمر عبد اللہ ،محبوبہ مفتی اس علاقے کے وزیر ِ اعلیٰ رہ چکے ہیں ۔اس میں تین علاقے جموں ،کشمیر اور لداخ شامل ہیں۔ کشمیر نے کئی سال تک دہشت گردی کے سائے میں گذارے ہیں ۔بلکہ یہاں کے ہندو پنڈتوں نے یہاں کے حالات سے تنگ آکر ملک کے مختلف علاقوں میں ہجرت بھی کی ۔ایک زمانہ تھا جب کشمیر دہشت گردی کے لئے مشہور تھا ۔سر ِ شام ہی ڈر اور خوف کی دبیز چادر جموں کشمیر کے آسمان پر چھا جاتی تھی ۔موت آسان اور زندگی مشکل ہو گئی تھی۔بڑے بڑے سیاسی لیڈران بھی دہشت گردی کی نذر ہو چکے تھے۔
یہاں کی خاص سیاسی جماعتیں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس (NC) ،جموں کشمیر پیوپل دیموکریٹک پارٹی ( PDP)،انڈین نیشنل کانگریس(Congress ) ،بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) سی پی آئی ایل(CPIL)،سی پی آئی ایم((CPIMہیں ۔جموں کشمیر میں آخری بار ۲۰۱۴ میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔
۲۰۱۴ جب سے مرکز میں این ڈی اے سر کار آئی ہے،کشمیر کے سیاسی حالات تیزی سے بدلے ہیں۔اس اسمبلی کی مدت پانچ کی بجائے چھہ سال تھی ۔اب۲۰۲۴ میں جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔اس دوران جموں کشمیر میں نہ جانے کیاکیا ہو گیا۔دفعہ ۳۷۰ کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا گیا۔جموں کشمیرریاست کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا،یعنی جموں کشمیر کا نقشہ ہی بدل ڈالا گیا۔اب جموں ،کشمیر اور لداخ کو الگ الگ ٹیری ٹیری بنا دیا ہے۔ ایک بار میں تین طلاق پر پابندی لگائی گئی ۔ایک آدھ سال تک کشمیر کے اہم سیاسی رہنمائوں کو نظر بند کیا گیا۔چپہ چپہ پر پولس اور مسلح افواج لگا دی گئی ۔دہشت گردی پر نکیل کسی گئی ۔لیکن ادھر دہشت گردی کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے ۔اب بہت دنوں بعد جموں کشمیر میں انتخاب ہو رہے ہیں۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس میں اتحاد ہو گیا ہے ۔یہ دونوں سیاسی جماعتیں مل کر انتخاب لڑیں گی ۔محبوبہ مفتی یعنی پی ڈی پی اکیلے انتخاب لڑے گی ۔بی جے پی پوری ریاست میں انتخاب لڑنے کو تیار ہے ۔مگر اس کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہاں کے مقامی رہنمائوں نے باغی تیور دکھانے شروع کر دیے ہیں ۔حد تو جب ہو گئی ،جب بی جے پی ہائی کمان نے ۴۴ امید واروں کی پہلی فہرست جاری کی تو جموں و کشمیر بی جے پی نے اس کی پر زور مخالفت کی ۔ہائی کمان نے وہ لسٹ واپس لی اور دوسری فہرست جاری کی ۔بی جے پی کی جموں کشمیر اکائی نے اس لسٹ کو بھی مسترد کر دیا۔ان کا ماننا ہے کہ مقا می لیڈروں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے انتخابی منصوبے کے مطابق جموں و کشمیر میں ۱۸ ،۲۵ ستمبر اور یکم اکتو بر کو ووٹ ڈالے جا ئیں گے اور پہلے ۴ اکتوبر ،اب ۸ اکتوبر کو ووٹ شماری ہر یانہ کے ساتھ ہوگی۔تب پتہ چلے گا کہ وادی ء کشمیر میں کس کی حکومت بنے گی ۔؟یہ بھی طے ہو گا کہ بی جے پی کے کاموں کی تعریف ہوتی ہے ،یا پھر عوام ان کاموں کو مسترد کرتی ہے۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا اتحاد کیا گل کھلاتا ہے۔؟پی ڈی پی کہاں تک کامیاب ہوتی ہے ؟ بی جے پی پر سب کی نگاہیں مرکوز ہیں۔بعض سیا سی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی نے ماحول بھانپ کر ہی ان ریاستوں خاص کر جموں کشمیر میں انتخابی ڈول ڈالا ہے ۔گذشتہ دنوںملکی سطح پر جو کچھ ہوا ،ریاستی سطح پر ایسا نہیں ہو گا اور بی جے پی اپنی انتخابی پالیسی میں بہت تبدیلی کرے گی اور اس بار ریاست جموں کشمیر کے نتائج سب کو چونکا سکتے ہیں۔
[email protected]