مرحوم ومغفور عبدالرشید پرے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ایک مکمل انقلابی ، بلند حوصلوں سے لبریز مربی و مبلغ اور اُمت و انسانیت کا درد آشنا ، تحریک اسلامی جموں کشمیر کا باعزم داعی ۱۰ ؍مئ ۱۹۴۷ کو ضلع سرینگر کے مضافاتی علاقہ لاوے پورہ تحصیل سرینگر کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں تولد ہوئے۔بچپن سے ہی انتہائی ذہین و فطین تھے ۔والدین نے بڑے ہی ناز و نعم سے پرورش کی۔ ان کی قابلیت دیکھ کر انہیں اپنے والد محترم نے حصول تعلیم کے لیے تمام گھریلو کام سے فارغ کر دیا۔ دسویں جماعت کا امتحان اول درجے میں پاس کیا ۔ امتحان پاس کر کے محکمہ تعلیم میں بہ حیثیت مدرس متعین ہوئے۔ تعلیم کے ساتھ شہید عبدالرشید پرے صاحب کو انتہائی لگاو تھا ۔ اسی لئے دورانِ ملازمت بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پہلے بی۔اے اور بی ۔ایڈ کی ڈگریاں امتیازی نمبرات سے حاصل کیں۔انہیں اپنے گاؤں کا پہلا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اُستاد ہونے کا شرف حاصل رہا۔ محترم عبدالرشید پرے صاحب اپنے علاقے کے دانشور مانے جاتے تھے۔آپ بڑے ہی دین دار، انسان دوست، ملنسار اور اپنے ہمسایہ بستیوں کے لیے سراپا رحمت تصور تھے۔ بچپن سے ہی شریفانہ مزاج ،سنجیدگی اور حیا مندی کے پیکرتھے۔ دین و شریعت سے خاصا شغف تھا، جہد مسلسل اور عمل پیہم سے اُنس تھاتھا۔حسن تدبُر، خوش خلقی، نفس کی پاکیزگی اور انسانیت کا درد جیسی صفات خدائے تعالیٰ نے ان میں جمع کر رکھی تھیں۔
مرحوم عبدالرشید پرے صاحب پہلے پہل تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے۔ ۱۹۸۱ء میں پہلی بار چالیس دنوں کا تبلیغی چلہ کا ٹنے بھوپال گئے، واپسی پر لمبی نورانی داڑھی رکھ کر تبلیغی جماعت کا تعارف اپنے آس پاس کے علاقوں میں کرانے لگے۔اسی دوران ہی ایک دن ناربل میں موصوف کی ملاقات مرحوم ریاض رسول(غلام رسول ڈار صاحب) کے ساتھ ہوئی جنہوں نے پرے صاحب کو تحریک اسلامی کا تعارف پیش کیا۔دوسری ہی ملاقات میں موخر الذکرنے دعوت حق کو قبول کیا اور آپ کے تحریکی سفرکی شروعات ہوئی ۔ انہیں اپنی تحریکی ذمہ داریوں کا زبر دست احساس تھا اسی لئے اپنی ارد گرد کی بستیوں پالہ پورہ نور باغ، گوری پورہ، بخشی پورہ، کرشہ بل، ناربل ، سوزیٹ، لاوے پورہ اور ملورہ میں تحریک اسلامی کو گھر گھر پہنچانے میں محترم پرے صاحب نے بے مثال کردار ادا کیا ۔ درس وتدریس سے فطری لگاؤ کے باعث انہوں نے اپنے علاقے میں چھ عدد اسکولوں کی بنیاد رکھی اور کئی دارالمطالعے بھی قائم کئے جہاں صبح و شام بچوں کو قرآن و حدیث پڑھایا جاتا۔نوے کی دہائی میں جب عسکریت کا دور دورہ ہوا تو جماعت اسلامی کے کارکنان کو وقت کے حکمرانوں نے انتقاماً اتنی اذیتیں پہنچایںکہ اس کی داستان رقم کر نا میرے لئے ممکن نہیں ۔ دشمن کو محترم عبدالرشیدکی داعیانہ سرگرمیاں کہاں راس آتیں ۔ ایک دن حسب معمول آپ بٹہ مالو سرینگرکی طرف رخت سفر باندھ کر ڈیوٹی پر جارہے تھے کہ شالہ ٹینگ کے قریب پہنچتے ہی بندوق برداروں نے انہیں گاڑی سے نیچے اتارکر اغواء کر لیا۔ ان درندوں نے مرحوم پر ے صاحب کا مسلسل چھ دنوں تک انتہائی اذیت ناک ٹارچر کیا گیا ۔ ان کی رہائی ممکن بنانے کے لئے موصوف کی اہلیہ نے مقامی اثر و رسوخ کی وساطت سے مسلح اغوا ء کاروں سے رابطہ کیا اورپرے صاحب کی رہائی کے لئے منت سماجت کر تی رہیں۔ اغوا ء کاربندوق برداروں نے موصوف کے اہل خانہ سے ہزاروں روپے تاوان کے طور لوٹ کر وعدہ کیا کہ محترم پرے صاحب کو بس ابھی چھوڑ دیا جائے گا۔ ان کی شریک حیات کو واپس اپنے گھر یہ کہہ کر لوٹنے کو کہا گیا کہ گھر پہنچ کرماسٹر صاحب کی رہائی کی خوشی میں ایک بھیڑذبح کیا جائے۔ چنانچہ ایک بھیڑ کو ذبح کیا گیا اور اسے تقسیم کیا گیا۔ چاروں طرف یہ خوشی کن خبر پھیلی کہ عبدالرشید پرے صاحب کو اغوا ء کار چھوڑ رہے ہیں۔سارے لوگ ان کی واپسی کے انتظار میں ہی تھے کہ ۶ ؍نومبر ۱۹۹۵بروز پونے تین بجے دن پرے صاحب کو اپنے گاؤں کے نزدیک گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ جب ان کی لاش ان کے آبائ گاؤں پہنچا دی گئی تو جو لوگ ان کی آمد کے منتظر تھے ،ان پر قیامت ٹوٹ پڑی، پورے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی، ہر سو آہ و فغان برپا ہوگیا۔اندازہ کیجئے کہ اپنے اس کنبے کے دل وجگر پر کتنای چھریاں چلی ہوں گی جس نے خانہ دار کی جان اغواء کاروں کے چنگل سے چھڑانے کے لئے زمین جائیداد بیچ کر تاوان کی خطیر رقم اداکی ،اوپر سے ایک جانور بھی حکماًذبح کیا مگر انہیں ملا کیا۔۔۔ ایک خون آلودہ میت ! مرحوم کی صرف ایک خطا تھی کہ وہ تحریک اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے۔کہا جاتا ہے کہ مر حوم کی جان لینے سے پہلے نشے میں چُور بندوق برداروں نے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر ماسٹر جی تحریک اسلامی کے خلاف اور سرکاری بندوق برداروںکے حق میںایک عدد بیان دیں گے تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ اخوان کا پریس چیف بنا دیا جائے گالیکن محترم پرے صاحب نے عزم و استقلال اور صداقت شعاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے جان بخشی کی اس پیش کش کو یکسر ٹھکرا دیااور اپنی زندگی اسلام کی سر بلندی کے لئے فہم وشعور کی گہرائی کے ساتھ قربان کر دی اور جام شہادت نوش کیا ؎
زمانہ متعارف ہے ہماری استقامت کا
نہ ہم نے شاخ ِگل چھوڑی نہ ہم نے قافلہ بدلا
ماسٹر جی شریں بیان خطیب ومبلغ بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم و فراست اور حکمت و بصیرت سے نوازا تھا۔وہ جس کسی گوشے میں جاتے تھے وہاں دل کی گہرائیوں سے تحریک اسلامی کا پیغام عوام الناس تک پہنچاتے تھے۔آپ کی شخصیت نہ صرف دانائی و دور اندیشی سے عبارت تھی بلکہ حق پرستی و جرأت کا اعلیٰ مظہر بھی تھی ۔خاموش طبع، خدا ترس اور مثالی کارکن پرے صاحب نے تحریک اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ یہ مرد درویش نظام ِالہٰیہ کے قیام کے لئے تادم واپسیں کوشاں رہا،اورا سی راہِ عزیمت میں اپنی زندگی وقف کر کے رکھ دی۔ حق تعالیٰ تحریک کے مرحوم تئیں بیش قیمت خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اوراُن کی شہادت قبول فرماکر انہیںجنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین
رابطہ:خطیب مرکزی جامع مسجد شاہمدان، کنزر ٹنگمرگ
ای میل[email protected]