ماسٹر عبدالعزیز ڈار صاحب مرحوم آف اونتہ بھون( صورہ) سرینگر ایک ایسی ہستی ٔ تاباں تھے جن کی ذات میں خدائے مہربان نے صلاحیت وصالحیت کا ایک اَتھاہ خزانہ بھرا تھا۔ آپ نے23اور24مئی2000 ء کی درمیانی شب کو صورہ میڈکل انسٹی چیوٹ سری نگر میں حیاتِ مستعار کی آخری ہچکی لی۔ یہ سانحہ ٔ ارتحال وادی بھر میں پھیلے مرحوم کے اَن گنت عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور فرزندانِ اسلام کے لئے صدمہ خیز تھا۔ کیوں نہ ہوتا، مرحوم بھلائیوں اور اچھائیوں کا چلتا پھرتا مکتب تھے جس کے فیضان سے آپ کے تلامذہ اور حلقہ ٔ اثر میں ہرشخص اپنے اپنے ظرف کے مطابق مستفید ہوا۔مرحوم ڈار صاحب ہردل عزیزی میںیکتا ئے روزگار تھے کیونکہ ان میں انسانیت کا بے لوث جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اسی مناسبت سے آپ نے اپنے نامہ ٔ اعمال میں بے پناہ انسانی خدمات کا ذخیرہ جمع کیا۔ ڈار صاحب کوئی درویش تھے اور نہ کوئی پیر فقیر، کوئی حاکم تھے اور نہ کوئی افسر بالا ، وہ بس توحید و سنت کے ایک ایسے مخلص داعی تھے جنہوں نے شب و روز خلق ِخدا کو ایک مولا ئے کریم کی چوکھٹ پر لانا اور انہیں حقوق اللہ وحقوق العباد اداد کروانے کی ترغیب دلانا اپنا مشغلہ بنایا تھا۔ پیشے سے وہ ایک استاد تھے ۔۔۔ ایک ایسا مشفق و مہربان استاد جو اپنے شاگردوں کو زندگی کے ہر میدان میں صف ِاول میں دیکھنے کے خواب کی تعبیر ڈھونڈ نے میں مشقتیں اٹھاتا رہتا ۔ وہ کوئی چالیس پینتا لیس برس تک میدان تدریس میں اپنی خدادادصلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے۔ اگرچہ اردو اور اسلامیات اُن کے خاص مضامین تھے لیکن حساب اورا نگریزی پڑھانے پر بھی انہیں کامل دستگاہ حاصل تھی۔ سچ یہ ہے کہ جو بھی مضمون وہ پڑھاتے سو پڑھاتے لیکن ساتھ میں بچوں کے دل میں قرآن و سنت کی کوئی تنبیہ، کوئی بات، کوئی حکم اُتارنے کی لازماً کوششیں کرتے ۔ ڈار صاحب خود اسلامیہ ہائی اسکول راجویری کدل شہر خاص میں پڑھے ہوئے تھے اور زمانے کے اسی عظیم مرکز علم و دانش اور اس کی شاخوں میں تعلیم و تدرریس کی ضیاء پاشیاں کرتے رہے ۔ وہ کچھ عرصہ ریڈیو کشمیر کے شعبہ ٔ خبر سے بھی وابستہ رہے۔ بتایا جاتاہے کہ جب انہیں وہاں سے مستقل نوکری کا پروانہ ملا تو ڈارصاحب نے تعلیم و تعلم کی خدمت کو ہی ترجیح دی اور ریڈیو کی ملازمت ٹھکرادی۔ڈار صاحب کی تدریسی زندگی کے حوالے سے چند واقعات حوالہ قلم کرنے بیٹھیںتو لامحالہ کالم کی تنگ دامنی آڑے آئے گی۔ مختصراً عرض ہے کہ ڈار صاحب کی دعوتی زندگی کا ورق ورق روشن ہے اور حرف حرف تاب ناک ۔ آج کل میدان ِدعوت و اصلاح میں سنجیدہ کام کرنے والے تمام چھوٹوں بڑوں کے لئے ماسٹر صاحب کی داعیانہ زندگی بہت ہی مثالی مکتب کا حکم رکھتی ہے۔ اُن کی ساری زندگی جہد مسلسل اور ایثار سے عبارت تھی، وہ نہ کبھی تھکے، نہ رُکے اورنہ جھکے ، حق بات کے حوالے سے کوئی مخالفت انہیں ڈگمگا سکی اور نہ کوئی تائیدحمایت من کو بہلا سکی۔ شاید ہی وادی کا کوئی گوشہ ہو، جہاں آپ مشعل حق و صداقت لے کر نہ گئے ہوں۔ انہیں بس یہی تڑپ لاحق تھی کہ ہر کس وناکس قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر آن کی آن میں بدل جائے۔ بار بار سمجھانے پر کوئی مخاطب سمجھ نہ پاتا تو شفقت ورافت کے باوجود ڈار صاحب کے لب و لہجہ میں کچھ کچھ تیزی وترشی بھی آجاتی مگر اگلے ہی روز اپنے مخاطب کے دروازے پر حاضر ہوجاتے یا راستے میں اس سے مڈ بھیڑ ہوتی تو سب کچھ بھول کر ازسر نو دعوتِ حق پہنچاننے میں لگ جاتے۔ اس میدان میں استقامت کے ساتھ ڈٹ کر انہوں نے اپنوں اور غیروں کا ہر وار خندہ پیشانی سے سہا اوراُف تک نہ کی۔ وجہ یہ کہ قرآن و سنت کی دعوت انہیں جی جان سے عزیز تھی او راس کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔ اسی جذبہ کے ساتھ عقیدہ اسلام کے فروغ میں اپنی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہے۔ کبھی تعلیم کااُجالا پھیلانا، کبھی وعظ خوانی کرنا ، کبھی پوست ہائے قربانی جمع کرنا، کبھی ہاتھ میں اسلامی لٹریچر لئے دردر اور گھر گھر جانا ، دینی مدارس کے کام میںہمہ تن جٹ جانا ، مساجد کی تعمیر میں انہماک و اخلاص کا پیکر بننا ، اپنی ساری نجی مصروفیات چھوڑ چھاڑ کر مساجد کے لئے چند ہ جمع کرنا ، غرض ڈار صاحب عملاًاسلامی سرگرمیوںمیں منہمک ہمہ وقتی رضاکار تھے۔ علمائے کرام سے انہیں بے پناہ عقیدت تھی۔ کشمیر کے معروف مبلغین وداعیان ِ دین کے علاوہ ماسٹر صاحب کودلی و بنگال کے علماء سے بھی ذاتی مراسم تھے۔ جامعہ سلفیہ بنارس بھی آنا جانا رہتا تھا۔ ڈار صاحب خوش خط تھے، اردو زبان و ادب پر خاصی دسترس حاصل تھی، دل کے سچے اور صاف تھے ،کھری کھری منہ پہ سنانے سے کبھی بھی نہ ہچکچاتے، کمال عجز وانکسار یہ کہ جب انہیں خود ان کی کسی کوتاہی کی جانب متوجہ کیا جاتا تو بغیر چوں چرا نہ صرف غلطی کااعتراف کرتے بلکہ اصلاحِ احوال بھی فوراً شروع کرلیتے تھے ۔
1917 ء پیدا ہونے والی یہ ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت بعدازعلالت ایسے خاموش ہوگئی کہ روز محشر ہی اب یہ ابدی نیند ٹوٹے گی۔ البتہ موصوف نے اپنے پیچھے اپنی دلآویز اور پُر کشش شخصیت کے ایسے قابل تقلید نقوش چھوڑے ہیں جو کبھی ماند نہیں پڑیں گے۔ چنانچہ اُن کے انتقال کی خبر سنتے ہی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں فرزندانِ توحید اُن کے جنازے میں شر یک ہوئے ، یوںاس شیدائی قرآن و سنت کا جنازہ بڑی دھوم سے اُٹھا کہ جنازہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ساڑھے دس بجے صبح بہ چشم نم ماسٹر صاحب کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور کوئی ۱۱ بجے دن اللہ تعالیٰ کی آغوشِ رحمت کے سپرد کیا گیا ۔ پھر اُن کے دولت کدہ پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ سہ روزہ تعزیتی مجالس میں مقررین نے مرحوم ڈار صاحب کی تدریسی ، دعوتی ، اصلاحی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کر کے ان کے ایمانی کیفیات ،استقامت ، سنجیدگی، علم پروری ، دینی خدمات ،جرأت و بے باکی ، ایثار اور عالی ہمتی کو سلام کہا اور مرحوم کے تئیں آب ِ زرسے لکھے جانے کے قابل لفظوں میں زبردست خراج عقیدت پیش کیا ۔ وہ کئی بارحج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے اور ایک موقع پر دوران ِ حج بیت اللہ ہی خوش قسمتی سے انہیں مدینہ یونیورسٹی کے موسس ، رئیس جامعہ اسلامیہ اور مفتی ٔ اعظم حجاز شیخ بن باز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ ڈار صاحب کی حیاتِ دنیوی کا ایک اہم پہلواُن کی سادگی بھی ہے جسے یاد کر کے واقف کار لوگ آج بھی عش عش کرتے ہیں۔ غرض مرحوم بیک وقت ایک بے لوث معلم ومدرس ، ایک روح پرور شخصیت، ایک منفرد سماجی اصلاحی کار اور مستجاب الدعوۃ انسان تھے ۔اس حوالے سے بھی کئی ایک ایمان افروز واقعات زبان زد ِ خاص و عام ہیں۔ قصہ کوتا ہ، ڈارصاحب آج ہم میں اب نہیںہے لیکن اُن کا یقین وایمان ، عزم وارادہ ، صبر وثبات اور راہِ حق میں اُن کا انفاق و ایثار دعوت دین کی تاریخ میں ہوتارہے گا۔ اللہ انہیں اپنے حسنات کی بھر پور جزا دے اور سیات سے درگز فرمائے ۔آمین ع
خدارحمت کند ایں محبانِ پاک طینت را
بحمدللہ مرحوم کے بیٹے بیٹیاں اسی راہ حق پر گامزن ہیں جس پر مرحوم تازیست محوسفر رہے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اوران کے اَخلاف کی زندگیاں ہمیشہ ہمیش نور ِتوحید اور عطر بیزی ٔسنت سے معمور رکھے ۔ آمین