ایک عرصہ سے وہ محکمہ تعلیم میں بحیثیت ایک مدرس تعینات ہوا تھا ۔ دوردور تک شجاعت اور جرأت گفتار کے علاوہ ایک فرض شناس اور وسیع المطالعہ وہمدرد مدرس کی حیثیت سے جانا ماناجاتا تھا۔ ماسٹر جی کے ہر دل عزیز نام سے پکارا جانے وال یہ فرشتہ خصلت انسان ساتھ ہی ساتھ خیرو بھلائی کے کاموں میں بھی پہل کرتا۔ زندگی کے شب و روز میں اسلامی عقائد و نظریات کو ترویج دینا اور ان کے لئے جینا مرنا اس کی تمنا تھی ۔ اپنی شستہ زبان اور دلنشین بیان سے وہ حریفوں کے دل بھی جیت لیتا تھا ۔ نہ جانے باطل کے پرستار ماسٹر جی کے خلاف آمادہ ٔ شر کیوں ہوگئے ۔ ایک دن گاؤں کے دوسرے شریف لوگوں کی طرح اُسے بھی نزدیکی فوجی کیمپ سے حاضری کا بلاواآیا۔ حکم کی تعمیل میں اس بے باک اور سچے محب وطن شخص نے فوجی چھاونی میںقدم رکھا ۔ بے شک اس کے ذہن میں طرح طرح کے خدشات اورو سوسے تھے۔چھاؤنی کے درو دیوار دیکھتے ہی انسان پر خوف و دہشت طاری ہو جاتا ، یہاںہر کوئی شریف انسان اندر بلائے جانے کو اپنی تذلیل و نحوست تصورکرتا تھا۔ اُ س روزجب ایک ایک کرکے گاؤں کے ڈھیرسارے لوگ چھاؤنی میں حاضری دے کر باہر آئے تو ہرا یک کا چہرہ اُترا ہوا تھا ، لب خشک لگتے تھے ۔ اب ماسٹر جی کو ایک دراز قامت فوجی نے آواز لگا کر اندر آنے کا آدیش دیا ۔و ہ اندرچلا آیا تو اُسے دیکھتے ہی آفیسر کی حفاظت پر مامور سپاہی نے طنزاًکہا : ’’سر! مرغا آگیا ، آجادی آجادی بکنے واالا مرغا ‘‘ کرسی پر بیٹھے آفیسر نے استاد کی طرف ترچھی نظر ڈال کر پوچھا : سنا ہے سرکاری ٹیچر ہو کے بھی تم اَنٹی نیشنل دنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہو، امن شانتی کا واتاورن بگاڑتے ہو ، نیتاگری سے ملک کی ایکتا اور اکھنڈتا کو کمزور کرتے ہو ۔ تم ہی جیسے کٹر پنتھی شکشکھ نونہال ذہنوں کو بگاڑ کر رکھتے ہو۔ کیاتم لوگوں نے یہی شکھشا لی ہے ؟ کھاتے ہو ہندوستان کا، گیت گاتے ہو پاکستان کے ۔ کیا رکھا ہے پاکستان اور آزادی میں ؟تمہیں نہیں لگتا کہ یہاں کی جنتا کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے؟‘‘
فوجی آفیسر کے سپاہیانہ کر وفر کے ساتھ ساری باتیں اطمینان سے سننے کے بعدماسٹرجی نے اپنے حوصلوں کو یکجا کیا اور بغیر کسی لاگ لپٹی کے کہا: ’’جناب! میں ایک حساس اور ذمہ دار شہری ہوں ، آپ کی نظرمیں ایک بنیاد پرست یا کٹر پنتھی کہلاؤں مرضی آپ کی ، لیکن سچ میں مسلمان ہونے کے ناطے مجھے اسلام کی بنیاد ی تعلیمات پر کاربند ہونا چاہیے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ نہیں قطعی نہیں، یہاں افسپا کی حکمرانی ہے ،یہاں کسی بھی گھر اور بستی کی توڑ پھوڑ کی جاسکتی ہے ، یہاںکریک ڈاؤن کر کے انسانوں کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتاہے ، یہاں لا ء اینڈ آرڈر کے نام پر عبادت گاہیں تک کو مقفل کی جاتی ہیں۔ یہاں کے مولویوں مقررین پر گہری نظر رکھی جاتی ہے کہیں یہ غفلت میں پڑے بے آسرا ہم وطنوں کو بیدار ہونے کی تدبیریں نہ بتلائیں ۔رہی بات آزادی کی تو یہ جناب! فریڈم مانگنا آگر پاپ ہوتا تو گاندھی جی پر بھی یہ الزام آتا ہے ۔ ‘‘ یہ باتیں سن کر فوجی آفیسر کو غصہ ضرور آیا مگر اس نے ضبط سے کام لیا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ ا س نے ماسٹر جی کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ دے کر کہا : ٹیجر جی !کان کھول کر سن لو، یہاں کی اکثریت الیکشن میں ووٹ کے ذریعے جمہوریت پر اپنا وشواس جتاتی ہے ،و ہ امن ،ترقی، خوش حالی چاہتے ہیں اور سارا ہندوستان ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ ‘‘
ماسٹر جی نے اپنے ضمیر کی بات زبان پر لائی : جناب ! یہاں کی حکومت لوگوںکی نہیں سنتی بلکہ صرف آپ کی سنتی ہے ۔ یہاں ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف آواز اُٹھانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ۔ کوئی سر اٹھا کر با ت کرے تو اس کو بے موت ماراجاتا ہے ، یہاں کے نونہالوں کی اُٹھتی جوانیاں بدنام زمانہ جیلوں میں سڑ رہی ہیں ، ان کا مستقبل جان بوجھ کر مسمار کیا جارہا ہے، ریاست کے قیمتی وسائل ریاستی باشندوں کے کام نہیں آرہے ، یہاں معصوموں کو قبروں میں اُتارا جارہاہے ۔جمہوری عمل عوام کی تعمیر و ترقی کاہی نام ہے مگر یہاں کہیں تعمیر وترقی نظر آتی ہے ؟ مجھے معاف فرمائیںجہاں عصمتیں تار تار کی گئیں ہوں، بیوائوں اور نیم بیواؤں کی فوج کھڑی ہو، ہزاروںیتیم بچے اور بچیاں ہوں، بے نام قبریں ہوں ، شہیدوں کے قبرستان ہوں، ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مقدمات ہوں، جہاں گھٹن ہو، انسانی حقو ق کی خلاف ورزیاں ہوں، وہاں جمہوریت کاکیاکام ؟؟؟ فوجی آفیسر اُستاد کی جرأت گفتار سے بہت متاثر ہو ا۔کچھ دیر تک خلاف ِ معمول یہ گفت وشنید یونہی چلتی رہی ۔پھر اآفیسر نے ماسٹر جی سے کہا: ’’ میرتے پتاجی بھی شکھشک ہیں، اس لئے میں آپ کی قدر کرتاہوں ۔ آپ جایئے ‘‘۔ کیمپ سے صحیح سلامت نکل کر وہ اپنی ڈیوٹی کچھ ہی دن تک انجام دے سکا کیوںکہ ایک دن اندھیرے میں اُسے بندوق کی نوک پر اغواء کیا گیا اور نزدیک ہی کھیتوں میں دو گولی مارکر شہادت کا جام پلایا گیا۔ اس شہادت پر سب لوگ سکتے میں آگئے، وہ کف ِافسوس ملتے رہے، عورتیں سینہ کوبی کرتی رہیں ، ہر دل رنجیدہ تھا، ہر دل دکھی تھا، آہ و فغاں کے انہی ناقابل بیان مناظر کے درمیان ہزاروںلوگوں نے اُسے آہوں اور سسکیوں کے بیچ ابدی آرام کی جگہ منوں مٹی کے سپرد کیا ۔ آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی ماسٹر جی کی شہادت گاؤں میں ایک معمہ بنی ہوئی ہے ، کوئی اس موت کو سرکاری بندوق کے نام لکھتا ہے ،کوئی اسے غیرسرکاری بندوق کے کھاتے میں ڈالتا ہے۔ ماسٹر جی کو جس کسی کی گولی نے ہم سے ہمیشہ ہمیش کے لئے چھینا،اس نے ظلم کی وہ کہانی لکھی جس پر نہ زمین نہ آسمان اُسے کبھی نہ بخشے گا۔
فون نمبر9858529817