بلال احمد پرے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تمام مخلوقات پر خاص شرف بخشا اور اس سے اشرف المخلوقات بنا دیا ۔ اس سے خاص الخاص ذہانت عطا فرما کر اپنا احسان فرما دیا ۔ سوچ و سمجھ، فہم ادراک، یاداشت اور منفرد قسم کی صلاحیتیں دی ہیں ۔ جس سے انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ اس نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خوب ترقی کی ہے ۔ مواصلاتی نظام کو تیز سے تیز کر دیا ہے ۔ نئے نئے علوم کو سیکھا، نئے نئے تجربات کیے ۔ اسی ترقی کی بنا پر انسان ماڈرن تو بن گیا، لیکن اخلاقی اقدار سے دور رہ کر درند صفت جانور سے بھی بد تر بن چکا ہے ۔آج کل انسان، انسان سے ڈرتا ہے ۔ رشتے میں پاسداری نہیں، دوستی میں وفاداری نہیں، کاروبار میں دیانت و امانت داری نہیں، اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں، ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ نہیں ، مصلح سے اصلاح کی امید نہیں، علم میں عمل نہیں ۔ غرض کسی کو بھی زندگی میں سکون ہی نہیں، ہر کسی کی آنکھ نم ہے اور ہر کسی کا دل غمگین ہے ۔
منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے بلا سوچے سمجھے خوبصورت انسانوں کی شکلیں بگاڑ دی جا رہی ہے ۔ ان سے ان کی خود کفیل زندگی چھین کر چور ڈکیتی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ غیر شرعی تعلقات سے عفت و عصمت لوٹی جاتی ہے اور قتل و غارتگری سے نسل در نسل دشمنی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔ جب بیٹا ہی ماں و باپ کا قتل کرنا شروع کر دیں، تو قوم کی حالت کس قدر ابتر ہوگی ۔ جب باپ ہی بیٹی کو بے حیائی کرنے پر رضامند ہو، تو حیا کی پاک دامنی کہاں دیکھنے کو ملی گی ۔ جب بچے والدین کی حیات میں ہی ان کی وراثت مع ان کو بھی تقسیم کرنے بیٹھیں، تو عدل و انصاف کے منصف کہاں ملیں گے ۔
اس سب سماجی مسائل نے ہماری زندگی کو مصیبت بنا دیا ہے ۔ ہر ذی حس انسان اس کے حل کا متلاشی ضرور ہے،۔ لیکن بے یارومددگار بیٹھا ہے ۔ اس سب کے کئی اہم وجوہات ہیں ۔ جن میں سے چند کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
اصل تعلیم و تربیت ۔ انسان چاہئے کتنے بھی علوم حاصل کر لے، وہ نامکمل ہی کہلائے گا ۔ جب تک اس سے اصل تعلیم و تربیت حاصل نہ ہو جائے ۔ اصل تعلیم تو اس سے اپنے تخلیق کردہ احکام الحاکمین نے دے رکھی ہے ۔ جس نے قرآن مقدس عطا کر کے اس کی صحیح رہ نمائی فرمائی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مبعوث فرما کر صحیح رہبری کی ہے ۔ اصل تعلیم تو انسان کو اخلاقی اقدار سے بالاتر کر دیتی ہے ۔ جس سے انسان دوسروں کا محافظ، ہمدرد، سخی، مددگار، مخلص، محب بن جاتا ہے ۔ لہٰذا انسان کو حقیقی اور ابدی کتاب قرآن کریم کی طرف اپنا توجہ مبذول کرنا چاہئے ۔
خدا سے تعلق ۔ انسان کا درند صفت جانور کی طرح حرکات کرنا خدا سے لاتعلقی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ جب وہ اپنے مالک حقیقی، خالق کُل سے دور چلا جاتا ہے تو وہ حلال و حرام کا تمیز کھو بیٹھتا ہے ۔ حتیٰ کہ مساجدوں کے چیزوں کو چوری کرنے سے بھی نہیں ڑرتا ۔ اس لاتعلقی کے سبب سے ہی دل میں خدا کا خوف ختم ہو جاتا ہے ۔ پھر انسان کسی بھی بڑے گناہ کو انجام دینے سے نہیںڈرتا ۔ خدا سے دوبارہ تعلق بنانے کے لئے گناہوں کی راہ چھوڑنی ضروری ہے ۔ توبہ و استغفار سے یہ رشتہ استوار ہو سکتا ہے اور تنہائیوں میں اللہ سے گڑ گڑا کر معافی مانگنے سے دل کو نرم بایا جا سکتا ہے ۔
خلق سے خلوت ۔ خلق سے خلوت نشینی قطعاً نہ کی جائے ۔ نہیں تو تنہا اور خلق سے دور رہنے پر ذہن کو شیطان اپنا شکار بنا دیتا ہے ۔ چونکہ یہ تنہائی تقویٰ و پرہیزگاری کے درجات میں ترقی کرنے، عبادات میں پختگی حاصل کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے مقصود ہو ، نہ کہ خلق سے دور رہ کر گناہوں میں لت پت ہونے کے لئے ہو ۔ عام طور پر ایمان کے اعتبار سے کمزور شخص تنہائیوں میں گناہوں کا منصوبہ بنا دیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس سے انجام بھی دے دیتا ہے ۔
لہٰذا ذہن کو قرآن کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ اس سے صحیح تعلیم و تربیت دیں، تاکہ یہ خالق ِکُل مالکِ دو جہاں سے اپنا تعلق ہمیشہ مضبوط بنائے رکھے اور اس سے اس طرح ذہن سازی کرے کہ یہ ہمیشہ انسانیت کی خدمت میں مشغول العمل رہے ۔
رابط۔9858109109
[email protected]