تعلیم و تعلم
شیخ ولی محمد
اسلام اگرچہ کسی زبان کا مخالف نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زبانیں اﷲ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں تاہم مادری زبان کی اہمیت کے بارے میںقرآن مجید میں خود اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : وَمَا ارْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَانِ قَوْمِہ ( ابرہیم :۴ ) تر جمہ : ’’ ہم نے ہر قوم میں اس قوم کی زبان میں پیغمبر بھیجا ہے‘‘۔
اﷲ کی آخری کتاب قرآن پاک بھی آخری پیغمبر حضرت محمد ؐ اور ان کی عربی قوم کی مادری زبان میں ہی نازل کی گئی تاکہ قرآن کے مخاطبین اسے اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ فرمایا گیا : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ ناً عَرَبیاً لَّعَلَّکُمْ تعْقِلُوْنَ ۔ (یوسف : ۲ ) ’’ ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم ( اہل عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو ‘‘ ۔
اس فطری اصول کی بنیاد پرپیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جو علمی تحریک برپاء کی اور بعد میں عہد وسطیٰ میں جس نے وسعت پائی اس علمی تحریک کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ( عربی) ہی تھی ۔ مادری زبان ایسی زبان ہے جس کے ذریعے انسان اپنا مافی الضمیر کو بہت آسانی کے ساتھ دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ ایک بچہ جب بو لنا شروع کرتا ہے تو وہ مادری زبان میں ہی بولتا ہے۔ اس کے ذہن اور حافظے میں مادری زبان کے ذخیرہ الفاظ بغیر کسی ظاہری سہارا کے جمع ہوتے رہتے ہیں ۔ جب ایک بچہ اسکول میں قدم رکھتا ہے تو اسے وہاں ایک نیا ماحول ملتا ہے ۔ نئے نئے لوگ ملتے ہیں اور انہیں سکھانے والا استاد بھی بچوں کے لیے بھی اجنبی ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں تمام بچوں کو جو چیز ایک ڈور میں باندھتی ہے وہ صر ف مادری زبان ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک عطیہ الٰہی ہے جو بچوں کو اسکول میں اپنے پن کا احساس دلاتی ہے۔ مادری زبان کے ذریعہ بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان میں نئی نئی چیزوں کو سیکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے ۔ قانون فطرت کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی مادری زبان ان کی فطری زبان ہے جسے وہ اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں ۔ خوشی وغم کے اظہار میں مادری زبان استعمال ہوتی ہے ۔ مادری زبان انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ ہوتی ہے ۔ مادری زبان صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ پوری ایک شناخت ہوتی ہے ۔ ایک پوری تہذیب ، تمدن ، ثقافت ، جذبات ، احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے ۔ انسانی ذہن اور تخلیقی عمل میں رابطے کا کام بھی غیر اداری طور پر مادری زبان میں ہی انجام پایا ہے ۔انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کاسب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کے ذہن پر کم دباؤ پڑتا ہے اور بچوںکے سکول چھوڑ نے کی شرح میں حیرت انگیز کمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔اسے دوسری زبانوں کو سیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔الغرض سیکھنے اور سکھانے کے لئے آسان ترین زبان مادری زبان ہی ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری نہیں ۔UNSCOاور دیگر عالمی ادارے اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ مادری زبان میں حصول تعلیم خوداعتمادی اورخودشناسی کے ساتھ ساتھ بچے کی مجموعی نشو و نماء کیلئے ناگزیرہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر عالمی سطح پر اگر نظر ڈالی جائے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن میں چین ، جاپان ، روس ، کوریا ، فرانس ، جرمنی وغیرہ شامل ہیں میں بنیادی سطح سے لیکریونیورسٹی سطح تک تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے ۔
مادری زبان میں تعلیم اور خصوصاً چھوٹے بچوںکی ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں ہونی چاہیے ۔ تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں تمام مہارتوں کے ساتھ سیکھنے کے عمل کو با آسانی اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ ایک اجنبی زبان میں دی جانے والی تعلیم ان نو نہالوں کے لئے اتنی موثر ثابت نہیں ہوسکتی جتنی کہ ان کی اپنی مادری زبان ہوسکتی ہے ۔ اور یہی زبان ان کی تمام ذہنی ، سماجی ، جذباتی اور روحانی مہارتوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر بچے کو ریاضی Mathematics ) )کے بنیادی تصورات سیکھنے ہیں تو وہ اس کی اپنی مادری زبا ن میں اکثر و بیشتر ان اعداد کو نہ صرف سن چکا ہوگا کئی بار بلکہ اپنی گفت وشنید ( روزمرہ ) میں استعمال بھی کر رہا ہوگا ۔اس کے لئے ان اعداد کو سیکھنا اور اس سے متعلقہ الفاظ کی زبان کو سیکھنا آسان ترین عمل ہوگا۔ اس کے تمام محرکات کو سمجھنا نہایت آسان ہوگا۔ پھر ریاضی کے تمام تصورات کو سمجھنے کی باری آتی ہے ۔ تب بھی بچے کے لئے اعداد سے واقفیت اس کے تمام تصورات سے آگاہی اور اس پر کی گئی تمام سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے الفاظ اس کی اپنی زبان میںہوں تو سیکھنے کا عمل تیزی سے مستقل بنیادوں پر جاری رہ سکتا ہے ۔اسی طرح اگر کسی اور مضمون کی بات کی جائے تو اس مضمون سے متعلق بنیادی سوالات و تصورات اگر بچے کی مادری زبان میں ہوں تو وہ ایک مکمل اور جامع اور مسلسل سیکھنے کے عمل میں مو جزن ہوجاتاہے اور پھر اپنی زندگی میں شخصیت سازی کے عمل کو پوری آب و تاب کے ساتھ مکمل کرلیتا ہے اور یہی اس کی منزل اور کامیابی کی جانب اہم پیش رفت بھی ہوا کرتی ہے ۔
دنیا بھر میں لسانی تعلیم نظام مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور بہت سے بین الاقوامی ادارے اپنے وسائل کا بڑا حصہ مادری زبان کو مضبوط کرنے کے پروگراموں پر خرچ کر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔ ہر سال 21فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتاہے ۔ یہ دن تعلیمی ، ثقافتی ، علمی اور لسانی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020کی شق نمبر 4.11میں پنجم جماعت تک مادری زبان میں تعلیم دینے اور اس کے بعد ترجیحاً مادری زبان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔اسی طرح آئین ہند کے شیڈول 8میں مزکورہ 22زبانوں میں ہماری مادری زبان ’’ کشمیری ‘‘ بھی شامل ہے۔تعلیمی پالیسی کے شق نمبر 4.13میں کہا گیا ہے کہ ہر ریاست میں سہ لسانی (3 زبانیں ) فارمولا نافذ ہو ۔ اس کی تفصیل میں بتائی گئی ہے کہ سہ لسانی فارمولے میں کم ازکم دو زبانیں بھارتی ہونی چاہیے۔ اسے قبل National Circulum Frame Work for School Education (NCF) 2005میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہندوستان میں ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی ہونی چاہیے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو بچے گھر پر اپنی مادری زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ دیگر بچوں کی نسبت زیادہ ذہین پائے گئے ۔ برطانیہ کی یونیورسٹیUniversity of Reading UKمیں 7سال سے لیکر 11سال تک کی عمر کے 100ترکی بچوں پر تحقیق کی گئی ۔ اس اسٹیڈی سے یہ نتائج اخذ کیے گئے کہ ان بچوں میں جو اسکول میں انگریزی زبان بولتے تھے اور گھروں میں اپنی مادری زبان استعمال کرتے تھے کو ان بچوں سے زیادہ ذہین پایا گیا جو اسکول اور گھر دونوں جگہوں پر انگریزی زبان کا استعمال کرتے تھے ۔ میکل ڈیلرMichael Dallerجس کی سربراہی میں یہ تحقیق کی گئی کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں مختلف چیزوں کے تصورات پہلی زبان میں سمجھنا آسان ہے اور ان تصورات کے بارے میں نئے الفاظ سیکھے جاتے ہیں ۔ مذکورہ محقق نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی ذہانت بڑھانے کی خاطر گھر پر مادری زبان میں مختلف چیزوں کے بارے میں بچوں کو واقف کرائے تاکہ اسکول میں ان بچوں کو سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوسکے ۔
اساتذہ کرام اور والدین حضرات کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ مادری زبان پر زور دینے سے ہر گزہماری مراد یہ نہیں ہے کہ دوسری زبانوں کو کمتر سمجھا جائے یا نظر انداز کیا جائے ۔ موجودہ مسابقتی دور میںہمارے بچوں کو مقامی سطح سے لیکر قومی سطح اور بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں اپنا لوہا منوانا ہے۔ اس کے لئے بین الاقوامی زبان انگریزی Englishکی مہارت ناگزیرہے ۔ لہذا ہمارے بچوں کو انگریزی زبان پر دسترس ہونی چاہیے ۔ تاہم اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں وہ درس و تدریس کے دوران اردو ہندی یا انگریزی زبان کا استعمال کرتے ہیں وہاں اپنی مادری زبان کشمیری کا بھر پور استعمال کریں تاکہ کسی بھی چیز کے متعلق بچے کی غلط فہمی دور ہوسکے اور ساتھ ہی والدین کو چاہیے کہ وہ گھر پرا پنے نونہالوں کے ساتھ مادری زبان میںہی بات کرنے کو ترجیح دیں تاکہ اس کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت، اخلاق و اقدارنئی نسل میں منتقل ہوسکے ۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)