دور ِحاضر میں دنیابھر کے تقریباً سبھی ممالک میںماحولیات کا بگڑتا ہوا نظام ایک بڑامسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی، بلکہ کرۂ ارض میں موجود تمام حیوانات، نباتات و موجودات ِعالم کی بقا کے انحصارپر خطرات لاحق ہوئے ہیںاور آئے روز اس معاملے پر کانفرنسوں کا انعقاد میںماحولیات میں پیدا شدہ بگاڑ کے نظام کو درست بنانےکی ممکنہ تدابیر پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات کا حُسن وجمال اس کی قدرتی و فطری آب و ہوا میں ہے اور انسان کے فطرت سے انحراف کی صورت میں بھی زمین و آسمان میں فساد و بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ قدرت کی شانِ ربوبیت ہی کا ایک مظہر ہے کہ انسانوں اور دوسرے جان داروں کی بقاء کے لئےدوسری بے شمار نعمتوں کے ساتھ ساتھ سازگار ماحول بھی عطا کیا گیا ہے۔جبکہ انسان کو حکم دیا گیاہے کہ وہ دنیا کے نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے،تاکہ فطرتی نظام برقرار رہ سکے، لیکن انسان نے ترقی کی دوڑ میں اس اصول کو یاد ہی نہیں رکھا اور آج حال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سر جوڑ کر بیٹھنے کے باوجود بھی کوئی قابلِ عمل حل تلاش نہیں کر پا رہےہیں۔ مادیت اور بے لگام سرمایہ کاری کے نظام نے اس توازن کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ماہرین کی طرف سے تحفظِ ماحولیات کےتئیں جو تدابیر آج پیش کی جارہی ہیں، وہ اسلام نے چودہ صدیاں قبل واضح طورپربیان کردی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو محدود تصور دین پایا جاتا ہے، اس کی وجہ سے مسلمان بھی اس سلسلے میں خاطر خواہ کام نہ کر سکے۔بے شک کائنات میں کثافت پیدا کرنے والی چیزیں پائی جاتی ہیں، صنعتی ترقی نے کارخانوں سے نکلنے والے فضلات اور دیگر گیسزنے زمین پر موجود انسانوں کے لئے گوناگوں مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ موٹر گاڑیوں کی کثرت سے اگرچہ انسان کو راحت ملی ہے، لیکن ہمیں ماحولیاتی بحران میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ ہر علاقے کا اپنا ایک سسٹم ہوتا ہے، جس کے تحت نظام کائنات بمطابق فطرت رواں دواں ہے۔ سائنسی ترقی سے جہاں بہت سی سہولیات انسان کے تصرف میں آئیں ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی وجہ سے ہی سسٹم میں مہلک تبدیلیاں وقوع پزیر ہوئیں۔چنانچہ انسانی زندگی کا انحصار ہوا کے بغیر ممکن ہی نہیںبلکہ کوئی بھی جاندار ہوا کے بغیرزیادہ دیر زندہ نہیں سکتاہے،جبکہ اس کی تخلیق بھی انتہائی حیران کُن ہے۔ اس کی تخلیق کئی اقسام کے گیسوں کے مکسچر سے ہوتی ہے۔ ہوا میں موجود آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس زندگی کے وجود اور بقا کےلیے بے حد اہم ہیں۔ایک زبردست نظام اللہ تعالیٰ نے پودوں کے ذریعے قائم کررکھا ہے، پودے دن کے وقت زہریلی گیس کو جذب کرتے اور سورج کی توانائی کی مدد سے اس گیس کو پانی کے ساتھ ملا کو گلوکوز بناتے ہیں ۔اسی طرح عوامل حیات میں سے ایک اہم عامل پانی بھی ہے، پانی کی اہمیت اور نعمت کا تذکرہ بارہا قرآن وحدیث میں ملتا ہے۔ بارش کےپانیوں، سمندر، دریائوں،ندی نالوں،کنوئوں، تالابوں کے رواں پانی پر آج دنیا کی 99 فیصد آبادی کی بقاء کا انحصار ہے۔ظاہر ہے کہ پانی زندگی کی بنیاد ہے، اس کے بغیر نہ تو انسان کی زندگی کرہ ٔارض پر باقی رہ سکتی ہے اور نہ ہی جانور اور پیڑ پودے۔ اسی لیے پانی پر کسی ایک شخص کی اجارہ داری کوقبول نہیں کیا جاسکتا۔ پانی وہ نعمت ہے جس پر سب کا حق ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی پورے انسانی معاشرے کی ہے۔ اسی لئےاسلام نے پانی کوآلودہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔گھاٹ، نہر، نالہ اور ندی کے کنارے رفع حاجت کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ نجاست کے اثرات پانی میں پہنچ کر اسے آلودہ کرسکتے ہیں۔ غور کا مقام یہ ہے کہ جس اسلام نے پانی کے قریب نجاست سے منع کیاہے، کیا وہ اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ شہر بھر کی غلاظت صاف پانی کے ذخائر ،دریائوںاور ندیوں و نالوں میں بہادی جائے؟ دین اسلام میں قدرتی وسائل کے تحفظ کا سامان ہے،جنہیں بروئے کارلانے سے ماحولیات کا تحفظ بالکل یقینی ہے۔ اس لئے انسانی زندگی کی بقا کے لئے لازم قدرتی ماحولیات کو مُضر اور پراگندہ بنانےمیں جو بھی آلودگی کے اسباب ہیں، اُن کا سدباب کرنے میں ہی دنیا کی بھلائی ہے۔