ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی
بلاشبہ اس دنیا میں ایک پرسکون زندگی جینے کے لئے ایک معتدل اور صحت مند ماحول ہوناضروری ہے، لہٰذا ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہر ممکن طریقے سے ماحول کو تباہ ہونے سے بچائیں،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےماحولیات کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لئے کم توجہ دی جاتی ہے۔یہ بات ذہن میںرکھنی چاہئے کہ ماحول صرف جنگلات، حیوانات، سمندر، پہاڑ، زمین اور پودوں کی طبعی دنیا نہیں ہے جو ہمارے آس پاس ہے بلکہ اس کا تعلق ان تمام اشیاء سے ہے جو ہماری زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ چنانچہ ایک اچھا ماحول پیداکرنے کے لئے، ہمیں ان تمام افعال اور غیر پاکیزہ اعمال کو نظرانداز کرنا ہوگا جو اسے برباد کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ کسی نے درست کہاہے:’’جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ماحول ہمارے اوپر اثر انداز ہوتاہے، تو کیا ہم صرف اپنے گرد وپیش کے اپنے مادی جسم پر اثر کی بات کرتے ہیں یا اپنے شخصیت کے تمام پہلوؤں جیسے جذبات، افکار ، اخلاقی اقدار اور مذہبی تصورات کی بات کرتے ہیں؟ایک محبت سے بھرپور، خوش باش اور پرسکون گھر ہماری چہار طرفہ افزائش اور ترقی کا وسیلہ ہوتاہے۔ ہرے بھرے مرغزاروں، رنگ برنگے پھولوں، خوبصورت حیوانات اور اچھے مزاج کے لوگوں کی مصاحبت ہماری روحوں کو فرحت بخشتی ہے اور ہمیں ناقابلِ بیاں مسرت سے معمور کردیتی ہے۔دوسری طرف، غیر صحت بخش ٹی وی کے پروگرام، جنس وتشدد والی فلمیں، تمام قصبات اور شہروںمیں اشتہاری تختوں پر چسپاں غیر اخلاقی پوسٹر، گندی زبانیں، عدم احترام، بدعنوان اور جرائم ہمیں نکبت کی گہرائیوں میں کھینچتی ہیں اور ماحولیات کے اس بڑے حصے کو آلودہ کرتی ہیں جو ہمیں اپنے آغوش میں رکھتے ہیں‘‘۔
اسلام ماحولیات کے تحفظ پر بڑازور دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی ہیں۔ لہٰذا یہ لازمی ہے کہ ان کا مناسب استعمال ہو اور انہیں بربادی سے بچایاجائے۔ اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسلام ہمیشہ اعتدال والی زندگی پسند کرتاہے۔ یہ کسی کو بھی عیش وعشرت سے پُر زندگی سے لطف اندوز ہونے کی فطری وسائل کے بربادی کی قیمت پر اجازت نہیں دیتاہے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:’’اور ہم نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘ (الانبیاء: ۳۰)۔ ’’بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو خود اپنے رب کا ہی ناشکرا ہے۔‘‘ (الاسراء: ۲۷) ’’جو (مال) اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکرکرو اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو، احسان کرو جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیاہے اور زمین میں فساد ربرپاکرنے کی کوشش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ مفسدوں کو پسند نہیںکرتا۔‘‘ (القصص: ۷۷)۔ ’’زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوامیں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کے انواع ہیں۔ ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں‘‘۔ (الأنعام: ۳۸)۔ ’’آسمانوں اور زمیںکا پیداکرنا انسانون کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (الغافر: ۵۷) ۔ ’’ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اگائی اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کئے، تمہارے لئے بھی اور ان بہت سی مخلوقات کے لئے جن کے رزاق تم نہیں ہو‘‘۔ (الحجر: ۲۰ ۔ ۱۹)۔ پیغمبر محمد مصطفیٰؐ کا ارشاد ہے:’’ اگر وقت موعود قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ ہو اور وقت موعود آنے سے پہلے پہلے وہ یہ پودا لگاسکتاہو تو اسے لگادینا چاہئے اوراسے اس عمل کا اجر ملے گا۔‘‘ (بیہقی)۔’’جوکوئی ایک درخت لگائے تو جب تک وہ درخت پھل دیتارہے گا اللہ کی طرف سے اسے اجر ملتارہے گا۔‘‘ (مسند احمد)
ہمیں جانوروں پر بھی رحم کھانا چاہئے۔ ہم اکثر ان کا استعمال اپنی روزانہ کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ جانوروں کے ساتھ بہت نرم دل اور رحمدل تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے ایک گدھے کو دیکھا ،جس کے چہرے کو داغا گیاتھا، آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’اس پر اللہ کی لعنت جس نے اس کے چہرے کو داغاہے‘‘۔
ایک روز ایک صحابی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ اپنے ہاتھ میں کسی چڑیا کے بچے لئے ہوئے تھے جو انہوںنے ڈھک رکھے تھے۔ نبی کریمؐ نے ان کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوں نے کہا: ’’میں نے جھاڑی میں آواز سنی۔ جب میں وہاں پہنچاتو میں نے ان بچوں کو دیکھا اور انہیں باہر نکال لیا۔ جب ماں نے یہ دیکھا ، اس نے میرے سر پر منڈلانا شروع کردیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جاؤ اور ان چڑیوں کو دوبارہ اسی جگہ رکھ دو، جہاں سے تم نے انہیں اٹھایاتھا‘‘۔
معروف اسلامی عالم دین سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:’’اسلام سے قبل کے عرب نیم وحشی تھے۔ وہ زندہ اونٹوں کے پشت سے گوشت کا ٹکڑااور موٹی بھیڑ کی دم کاٹ لیتے تھے جسے وہ بھونتے تھے اور کھانے کا لطف اٹھاتے تھے۔ عربوں کا یہ بھی عمل تھا کہ وہ ایک موٹی حاملہ اونٹنی کو ذبح کرتے تھے بچے کو ماں کی چربی زدہ کوہان کے ساتھ بھوننے کے لئے۔پیغمبر محمد ؐنے زمانہ جاہلیت کے ان اعمال کا خاتمہ کیا‘‘۔ اس طرح اسلام نے ان تمام اعمال اور اشغال کو ممنوع قرار دیاہے جو جانوروں اور پرندوں کو تکلیف پہنچانے اور انہیں ایذا دینے کا سبب بنتے ہوں کیونکہ ان اعمال سے آدمی جاندار مخلوقات کی تکالیف اور ایذا رسانیوں کو لے کر سنگدل اور بے حس ہوجاتاہے۔ سنگدلی، سفاکی اور سختی اسلام کے نزدیک انسان کے بُرے اوصاف ہوتے ہیں‘‘۔ (سیرت النبی، جلد ۵، ص: ۲۷۴ – ۲۷۳)
خلاصہ یہ کہ ماحولیات بنی نوع انسانی کے لئے اللہ کی امانت ہیں۔ چنانچہ اس کا غلط استعمال اس کے بھروسے کا بڑا تمسخر ہے۔ ماحولیاتی بحران ہمارے وقت کے عظیم ترین چیلنج میں سے ہے۔ ہمارے سیارے کے تینوں کرّے (یعنی خلائے بسیط کرۂ آب اور کرۂ حجری) بشری سرگرمیوں سے آلودہ ہوگئے ہیں اور اس طرح فطری توازن کو متأثر کررہے ہیں۔اسلامی تعلیمات اور ہدایات ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ کرۂ ارضی کی حفاظت کے لئے ہم اپنے گرد وپیش کو صاف ستھرا رکھیں اور اپنے آس پاس زیادہ سے زیادہ پودے لگائیںاور اس روئے زمین کے فطری وسائل کوبرباد ہونے سے بچائیں کیونکہ تحفظ ماحولیات اسلام کا اہم ترین پہلوہے۔
[email protected]