عصر حاضر میںاکثراسلامی اسکالراور مذہبی پیشوا ء قرانِ کریم کے آفاقی پیغام کو نہ صرف محدود کر دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ’’ ادخلو افی السلم کآفتہ ‘‘( دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں داخل کرو) کا صحیح مفہوم سمجھنے سے بھی معذور کر دیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں مکمل مسلمان وہی ہے جس نے عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردیا ہو۔ ان اعمال میں جہاں نماز کی پابندی اور اگر صاحبِ نصاب ہو تو زکوٰۃ اور حج کی صحیح ادائیگی لازم کردی گئی ہے، وہیں ہر مومن کے لئے تحفظ ماحولیات اور اسکے توازن کو برقرار رکھنے کا فرض بھی سونپا گیا ہے۔چناںچہ قران کریم میں کئی مقامات پر مسلمانوں کو زمین و آسمان، بیابان و سمندر کے تحفظ اور اس میں جینے والی مخلوقات کا خصوصی خیال رکھنے کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ قران قدرتی ماحول اور اس میں پنپ رہے والے نباتات و حیوانات کو کسی بھی قسم کا زک نہ پہنچانے کی بار بار تلقین کر تاہے۔ سورہ ٔ روم میںماحولیات کو بگاڑنے کا سبب انسان کو ہی بتایا گیا ہے۔ قران کہتا ہے ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے‘‘ اور لوگ وہی کچھ کاٹ ر ہے ہیں جو انہوں نے خود بویا ہے یعنی انسان زمین و سمندر میں ہورہی تباہی کا خود ذمہ دارہے۔ قران نے ’’فساد‘‘ یعنی کرپشن کا لفظ استعمال کرکے اس بات کی جانکاری دی ہے کہ فسادی صرف وہی نہیں جو سیاسی، معاشی یا جنسی استحصال کا مرتکب ہو بلکہ وہ سب لوگ ہیں جوناجائز طورپر تعمیرات کھڑا کرتے ہیں، ندی نالوں پر قبضہ جماتے ہیں، جنگلوں کا بے دریغ صفایا کرتے ہیں ، کوڑا کرکٹ ادھر ادھر پھینک کر ماحول کو گندہ کرتے ہیں۔صوتی پراگندگی بھی اسی زمرے کی ایک مثال ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ متوازن ماحول کو یقینی بنائے اور ماحولیات سے ہورہی زیادتیوںسے اجتناب کرے تاکہ یہ دنیا انسانوں کے ساتھ ساتھ خوش نوا پرندوں، چرندوں، نباتات وغیرہم کو ایک صاف و شفاف ماحول فراہم کر سکے۔ اس سلسلے میں سورہ القصص کی ۷۷؍ویں آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ’’مفسدوں‘‘ کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح سورہ بقر میں لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے : اللہ کادیا ہوا رزق کھائو، پیو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو‘‘(آیت نمبر ۶۰)۔ ’’فساد‘ ‘ سے مراد یہاں ماحولیاتی توازن کو بگاڑنا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے نے اپنے لامحدود کمالات سے اس کائنات میں قائم کیا ہے اور جس کاذکر اس نے سورئہ الملک میں اس طرح بیا ن کیا ہے: ’’تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤگے۔ انسانوں نے جب اللہ کے قائم کردہ ربط وضبط کو بگاڑنے کی کوشش کی تو دنیا میں سیلابوں، طوفانوں اور دوسری آفاتِ سماوی و بلائے ارضی کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس میں انسانی جانوں کا زیاں اور مال و جائداد کا نقصان ایک عام بات سی بن گئی ہے۔ خودغرض انسانوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے درخت لگانے کے بجائے جنگلوں کا صفایا اپنا مقصدِ زندگی بنا لیا۔ دریاؤں، ندی نالوں اور آبی پناگاہوں کا استحصال کرکے دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی بھی داؤ پر لگا دی ہے۔ بے جا اور بے ہنگم تعمیرات کھڑا کرکے پانی کے نکاس کے تمام راستے مسدود کر کے سیلابوں کو خود دعوت دی ہے ۔ اسی طرح کے کئی فسادات میں ملوث ہوکر حضرت انسان نے اللہ کی اس تخلیق یعنی دنیا کو مختلف ناگفتہ بہ نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔ حالانکہ انسان نے آسمانوں اور زمیں کو ایک امانت کے طور پر اسکی حفاظت کر نے کی ذمہ داری لی تھی لیکن پھر خود ہی خیانت کرکے اس کی ہیٔت اور حسن توازن کو بگاڑنے کی بھر پور کوشش میں’’کامیابی‘ ‘حاصل کرتے ہوئے اپنی ہی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب یا خلیفہ بنا کر بھیجا اور اس پر یہ فرض کر دیا تھا کہ وہ اللہ کی ہر مخلوق کو تحفظ فراہم کرے لیکن اس نے اس کے اُلٹ کر کے نوع انسانی کے بقاء کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔ لالچ میں مبتلا ہوکر انسان نے اللہ کی نعمتوں مثلاً پانی، اشجار، پہاڑ، آبی ذخائر، پہاڑوں، ندی نالوں، چشموں وغیرہ پراپنی خود غرضانہ اجارہ داری قائم کر کے ان کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
پانی اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس سے زندگی بنی بھی ہے اور جس پر تمام مخلوقات کی بقاء کا دارومدار بھی ہے۔قران(سورہ الانبیاء) میںکہتا ہے: ’ ’ ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا‘‘۔ ظاہر ہے کہ زندگی میں اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے تو وہ پانی ہی ہے۔قران میں پانی کے معنی میں اور کئی الفاظ کا استعمال ہوا ہے تاکہ لوگوں کو اس کی اہمیت اور افادیت کا احساس کرایا جائے۔ چنانچہ دریا، سمندر، بارش، اولے، بادل، ہوا ، چشمہ، نہراورآبیات جیسے الفاظوں کا ساٹھ سے زیادہ مقامات پر ذکر کرنا اس بات کا غماز ہے کہ پانی نہ صرف سب سے بڑی خدائی نعمت ہے بلکہ اسی پر زندگی کا وجود بھی قائم ہے۔ پانی ختم ہوگا تو دنیا ہی فنا ہوگی۔سورہ نور میں قران کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کوئی جاندار چیز پانی سے پیدا کیا ہے۔پانی کو ہی احیائے نو یعنی دوسری زندگی کے لئے علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ نحل میں جنت کو ایک ایسا مقام بتایا گیا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ کئی احادیث میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پانی، آگ اور چراگاہیں اللہ تعالیٰ کی ہیں اور ان پر کسی خاص انسان کا تصرف غلط ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وضو بناتے وقت بھی پانی کے غیر ضروری استعمال کو گناہ ٹھہرایا گیا ہے اور کہا گیا ہے اگر تمہارے پاس پورا دریا بھی ہو تب بھی پانی کا استعمال اتنا ہی کرو جتنی ضرورت ہولیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج کل لوگ اسی پانی کا نہ صرف بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں بلکہ ندی نالوں، دریاؤں، چشموں، تالابوں اور دیگر آب ذخائر پر بے جا اور غیر قانونی طور پرتعمیرات کھڑا کر رہے ہیں یا غاصب بن کر ان پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو چیزیں اللہ نے اپنے نام سے تمام مخلوقات کے لئے وقف کر دی ہیں ان میں بے جا مداخلت کرنا ، بے ہنگم تصرف کرنا اور ان پر قبضہ جمانا سخت ترین عذاب کا باعث ہوگا۔اس لئے پانی کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔
ٍمسلمانوں کے لئے جنگلوں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ ساتھ دیگر حیوانات کا تحفظ بھی لازم بنا دیا گیا ہے۔ چھٹے سورہ کی اڑتیسویں آیت میں جانوروں اور حیوانات کو ’’امم‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس طرح انسان مختلف قبیلوں سے جانے جاتے ہیں ،اسی طرح حیوانات کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے طریقے سے مختلف سماجی گروہ بندی عطا کی ہے۔ ان کا بے جا شکار کرنا اور ان کے مسکنو ں کو بر باد کر لینا ایک گناہ عظیم ہے اور دنیا اور عقبیٰ میںباعث عذاب بھی ہوگا۔ سبز سونے کی بربادی نہ صرف ہماری معیشت کے لئے خطرناک ہے بلکہ جنگلوں میں رہ رہے پرندوں اور چرندوں کے لئے بھی وبالِ جان ہے۔ اس طرح سے انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے اور اس میں کئی انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ بہت سارے جنگلی جانور بھی مفت میں مارے جاتے ہیں۔اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوںپر کئی جانوروں کا گوشت حلال کر دیا ہے، وہیں انسانی بقاء کے لئے انسانی آبادی اور حیوانات و نباتات کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیا ہے۔ قرانِ مجید کا ایک پورا سورہ (سورہ نحل) شہد کی مکھی کے متعلق ہے تاکہ لوگوں کو حیوانات کی اہمیت واضح ہو جائے۔ کرئہ ارض پر درجہ حرارت میں حد سے زیادہ شدت یا گلوبل وارمنگ اب انسانی دنیا کے لئے ایک مستقل پریشانی کا سبب بن گئی ہے۔ اس سے ہمارے اوپر بچھائے گئے چھت جس کو OZONE LAYERکہا جاتا ہے خطرے
میں پڑ گیا ہے۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اس سطح میں سوراخ ہونے سے کرئہ ارض پر زندگی کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس کی وجہ مختلف الاقسام گیسوں کا اخراج اور زمین پر انسانی آبادی کا دباؤ بتایا جاتا ہے۔ اگر اس پر جلد سے جلد قابو نہیں پایا گیا تو دنیا ہی ختم ہوسکتی ہے۔صوتی آلودگی (NOISE POLLUTION)بھی موجودہ دور میں بڑی پریشانی کی وجہ بن رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مسافر اور نجی گاڑیوں کا شور عوام الناس کے لئے اور ریل گاڑی اور ہوائی جہازوں کی گڑگڑاہٹ ریل پٹریوں کے اردگرد لوگوں کے لئے اور ہوائی اڈوںکے نزدیک رہنے والے باشندوں کے لئے سوہانِ روح بن گیا ہے۔ اسی طرح مساجد اور آستانوں کے میناروں پر لگے لاؤڈ اسپیکروں کا بے جا استعمال طلبہ اور مریضوں کے لئے بڑی کوفت کا باعث بن رہے ہیں۔ قرانِ کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہایت انکساری اور خاموشی کے ساتھ پکارو(سورہ اعراف ۵۵)۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تمہاری شہ رَگ سے بھی نزدیک ہے یعنی اس کو پکارنے کے لئے آواز اونچی کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہماراوطن کشمیر جس کو دنیا کرئہ ارض کی جنت مانتی ہے، فی ا لواقع لالچی لوگوں، ناعاقبت اندیش اور رشوت خور افسران اور کورپٹ سیاست دانوں کی وجہ سے مسلسل خطروں میں گھر ا ہوا ہے کیونکہ یہاں پر ہم نے جنگلوں کا بے دریغ صفایا اور ان پر غیر قانونی تجاوزات اپنا شیوہ بنا یاہوا ہے ۔ حالیہ دنوں میں انسان اور جانوروں کے درمیان تصادم میں کئی قیمتیں جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ بہت سارے جانور یا تو مارے گئے ہیں یا زندہ پکڑے گئے ہیں۔ جنگلوں میں پیڑ پودوں کی بے جا کٹائی سے جانوروں کے لئے مسکن اور کھانے پینے کی سہولیات مفقود ونایاب ہوں تو وہ انسانی آبادی کی طرف خوراک کی تلاش میں جانے پر مجبور ہیں ،اس سے جنگلوں کے نزدیک رہنے والی آبادیوں کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ندی نالوں اور دریاؤں پر ناجائز تجاوزات اور ان کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات سے معمولی بارش ہونے پر سیلاب کا خطرہ ہر لمحے ہمارے سر پرمنڈلاتا ہے۔ یہ ساری ناقابل بیان چیزیں ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کردی ہیں، اس لئے ہم ہی کو اس کے خمیازے بھگتنے ہوںگے۔ یہی مفہوم قران مجید کی اس آیت کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زمین اور سمندر میں انسان نے فساد برپا کیا ہے اور وہی کچھ حاصل کررہا ہے جو اس نے خود اپنے ہاتھوں کمایا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے قرآن مقدس کو ایک جامع اور منفرد رہنما کے طور پر تسلیم کر کے اس کے اصول عملی زندگی میں اپناکر مکمل مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگرچہ مسلمان بننا آسان نہیں ہے لیکن مشکل بھی نہیں ہے بشرطیکہ ایک مسلمان اسلام کو اپنے اقوال، اعمال ،افعال پر لازم کرے اور اس کی ہر ہر ہدایت کو خدائی فرض سمجھ کر عمل کرے۔ ورنہ نام کے مسلمان تو بہت ہیں لیکن اسلام کے دائرے میں مکمل طور داخل ہونے والے آٹے میں نمک کے برابر۔
نوٹ: مضمون نگار سنٹرل یونیورسٹی کشمیر کے شعبۂ انگریزی کے صد ر مدرس ، تجزیہ نگار اور معروف دانش ور ہیں۔
فون نمبر9419043802