اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کا وہ کوئی شعبہ نہیں جس میںرہنما اصول ہمیں نہ دئے گئے ہوں۔ ان آفاقی اصولوں میں جملہ شعبہ ہائے زندگی کی بھلائی اور رہنمائی کا سامان موجود ہے اور یہ ہمیںبشمول انسان تمام مخلوقات مثلاً حیوانات،نباتات،جمادات وغیرہ کے ساتھ نیک برتا ؤ کا پابند بناتے ہیں۔عصرحاضر میں ماحولیات کثافت کے تعلق سے بہت سارے گھمبیر مسائل دنیا کو درپیش ہیں جیسے ماحولیاتی غلاظت،ہوائی آلودگی،سمندری آلودگی،آبی آلودگی اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کھیتی کسانی سے اعراض کے سبب غذا ئی اجناس کی کمی ۔ ہماری مذہبی تعلیمات ایسے عالمگیر اصول و ضوابط پر مبنی ہیں جو ان تمام مسائل کا حل دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اللہ تعالی قران مجید کے سورۃالاعراف میں فرماتا ہے:"دنیا میں فساد نہ پھیلاوجب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے " سورۃالبقرہ آیت نمبر ۶۰ ؍میں فرماتا ہے: "اللہ تعالی کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھر و"۔سورۃالانعام کی آیت نمبر ۱۲۵؍ میں فرماتا ہے : "اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کو دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میںجو تم کو دی ہیں"۔ سورۃالنحل کی آیت نمبر ۲۵؍ میں فرمایا:"اور اللہ آسمان سے پانی برسا کر اس سے زمین کواس کی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سنے‘‘ ۔ سورۃ ق میں فرمان الہیٰ ہے:"اور ہم نے آسمان سے با برکت پانی برسایا اور ان سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے‘‘۔اسی طرح خدا کے آخری نبیؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
"وہ لوگ جو ایک پودا زمین میں لگاتے ہیں اور اس کو پھل دینے تک بڑھاتے ہیں،اس سے نکلا ہوا ہر کوئی پھل اس انسان کے صدقے میں لکھا جاتا ہے "۔ یہ وہ رہنما اصول ہیں جو اسلام کی انسان دوستی کی بنیادیں ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کی حیثیت سے دیگر مخلوقات کے تئیں جو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں،ان سے باخبر رکھ کر اپنے ماحولیاتی حسن وخوبی کا درس بھی دیتے ہیں۔اسلام نے انسانوں کو خدا کا نائب قرار دیا ہے۔نائب کہلوانے کا مد عا و مقصد یہ ہے کہ ہم ایک تو نسل انسانی کا خیر خواہانہ خیال رکھیں ، اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی دوسری تمام مخلوقات کے لئے جینے کی تمام آسائشیں اور سہولیات فراہم کریں تاکہ دنیا میں ایک میزان ہمیشہ قایم و دائم رہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خالقِ کائنات نے دنیا کی تمام چیزیں ہماے فائدے کے لئے مسخر کی ہوئی ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم قدرتی وسائل کو نتائج وعواقب سے آنکھیں بند کر کے بے تحاشہ دودو ہاتھوں سے لوٹیں کہ دنیا جینے کے لئے نا سازگار بن جائے، ماحولیاتی توازن بگڑ جائے اور ساری زمین کثافتوں کی آماج گاہ بن جائے ، نہیں قطعی نہیں ۔ہمیں خدا تعالیٰ کی تخلیقات سے استفادہ کر تے ہوئے ان کی منصوبہ بند حفاظت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں مسلمانوں کو تحفظ ِماحولیات کے علاوہ ، قدرتی وسائل کی قدردانی اور جانوروں اور پرندوں تک سے مہربان سلوک کرنے کا پابند بنادیا گیا ہے ۔ہم پر قدرتی وسائل کے استعمال میں بھی احتیاط اور عقل مندی برتنے کا فرض عائد ہے ۔ جانور ،حیوان ، پیڑ پودے ، چشمے اور ندی نالے ، کوہسار اور دشت وبیابان کو اشرف المخلوقات کی ملکیت میں دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ کی اس کاریگری کو صفحہ ٔ ہستی سے ہی مٹا دیں۔اگرانسان دنیا میں اپنے نائب یا خلیفہ ہونے کے نظریہ پر غور کرے تو اس پرواضح ہو جائے گاکہ یہ دنیاصرف ہماری ملکیت نہیں بلکہ تمام مخلوقات کا مسکنِ ازل ہے، اس لئے باایمان انسان ماحولیاتی توزان کے قیام کے اعتبارسے مخلوقاتِ عالم کے خادم بھی ہیں اورنگہبان بھی ۔اسلام چاہتا ہے کہ ہم ایسے ہی انسان بن کر دنیا کی زندگی پاکیزہ ماحولیات کی آغوش میں گزاریں ۔
رابطہ نمبر: ۹۵۹۶۰۵۰۳۰۷