یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قدرت نے ہم کشمیریوں کو جو نرم و نازک اور انمول ماحولیاتی نظام دیا تھا، وہ خود ہماری سماجی، اقتصادی اور سیاسی و جو ہات کی بناء پر تیزی سے تباہی کی طرف بڑھتاجا رہا ہے۔ منجمد پانی کے زخائر یعنی گلیشر رفتہ رفتہ پگھل رہے ہیں، جنگلات کا رقبہ گھٹ رہا ہے، نایاب پانی کے وسائل نا پید ہوتے جا رہے ہیں ، شہروں کی توسیع کے نام پر سونا اُگلنے و الی زرعی اراضی رہائشی بستیوں اور کنکریٹ جنگلوں میں بدل رہی ہے ، جابجا بے تحاشہ تجارتی تعمیرات دھڑا دھڑ کھڑی ہوری ہیں۔ ہماری یہ اپنی ساری کارستانیاں ہمارے پھول جیسے نازک ما حولیاتی نظام کیلئے سم قاتل ثابت ہورہی ہیں۔ آج کی تاریخ میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کے قدرتی مسکن یعنی جنگل اور کوہ وبیابان میں انسان کے نقصان دہ قدم فوجی چھاؤنیوں ، جنگی کا روائیوں اور جنگلات کے صفایا کی شکل میں تواتر کے ساتھ پڑرہے ہیں ۔ انسان کی اس مداخلت ِبے جا سے ماحولیاتی توازن بگڑ نالازمی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلی حیات اپنے قدرتی جائے قیام یا فطرت کی گود سے بھدک بھاگ کر انسانی بستیوں کا رُخ کر رہی ہے جس سے آئے روز انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان مڈ بھیڑ کے خون خوارانہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ چیزیں نحوست آمیز علامات اور خطرناک رحجانات کی مظہر ہیں ۔ یہ عالمی سطح پر بھی پائی جاتی ہے مگر شورش زدہ کشمیر ان سے خاص طور جو جھ رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عالمی سطح پر جہاں کہیں طویل جنگ چلی، وہاں نہ صرف بے شمار انسانی زندگیوں کا اتلاف ہوا بلکہ اس سے ماحولیاتی سرمائے کو بھی نا قابل تلافی نقصانات پہنچ کر رہے۔ گرشتہ لگ بھگ تین ہائیوں سے کشمیر میں بحرانی صورت حال کے تسلسل سے ایک طرف سیاسی کھلبلی مچی ہوئی ہے ،دوسری طرف سے ما حولیاتی تباہیاں عروج پر ہیں۔ اس بد ترین بحران سے یہاں کی مقامی آبا دی کا جینا دشوار ہورہاہے کیونکہ اسے قدرت کے عطایا سے دن رات ہاتھ دھونا پڑرہاہے ، دوسرے لفظوں میںجنت ِارضی کا مستقبل خراب سے خراب تر ہو رہاہے ۔اس گھمبیر صورت حال پر دنیا انگشت بدنداں ہے اور باشعور لوگ بھارت اور پاکستان سے کبھی کھل کر اورکبھی دبی زبان میں کہہ ر ہے ہیں کہ تم لوگوں کے درمیان دشمنی کاخمیازہ جنت کشمیر اُٹھارہاہے ا ور کشمیری عوام ایک ہاتھ نفسیاتی اور جسمانی اذتیوں کا تختہ ٔمشق بن رہے ہیں اور ودسرے ہاتھ آر پار کی رقابت سے یہاں قدرت کے تمام عطیات کی بربادی سے ما حولیاتی نظام تباہ کن اور نا قابل تلافی نقصانات سے دوچار ہے ۔ دنیا کے ماہرماحولیات چیخ وپکار کر رہے ہیں کہ بہشت کا سب کچھ لٹ رہا ہے ، خاص کر سیاچن گلیشیر پر ہند پاک فوجی جمائو کے باعث خطے پر نہ صرف خطر ناک اقتصادی اثرات پڑ رہے ہیں بلکہ اس اہم کے نازک ماحولیاتی نظام میں سرعت کے ساتھ بگاڑ آرہاہے ۔ ماہرین واویلاکر رہے ہیں کہ یہ لامثال سرمایہ تیزی کے ساتھ پگھلتا جا رہا ہے جو خطے کے علاوہ پوری دنیا کیلئے ایک تشویش ناک امر ہے۔
جیسا کہ اوپر اشارہ دیا گیا کہ ماحولیات کی تباہی کی کہانی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیرکے جنگلات میں فوجی کیمپ اور اسلحہ کے ذخائر سے جنگلی جانور راہ فرار اختیار کر نے پر مجبور ہیں ،یہ گائوں اور قصبہ جات کا رُخ کر رہے ہیں اور انسانوں کو نگل رہے ہیں ۔ شہروں میں پالی تھین الگ سے ماحولیاتی توازن کو لتاڑ رہاہے ۔بلاشبہ ملک کی سا لمیت اور وحدت کا تحفظ ضروری ہے لیکن کیا ما حولیاتی توازن کا تحفظ کوئی تو جہ طلب معاملہ نہیں ہے؟ اگر کشمیر کے ماحولیات کو بچانا مقصود ہے تواعلیٰ سیاسی سطح پر دلی اور اسلام آباد کے درمیان جنگ کے بجائے بات چیت ہی بہتر ین آپشن ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ جنگ وجدل سے کبھی کسی مسئلہ کا حل نکل نہیں آتا ،حل کے لئے چار و ناچار بات چیت کی میز پر آنے میں ہی دانائی ہے۔لہٰذا ہندو پاک کی قیادتیں اگر کشمیر کو مزیدماحولیاتی ڈزاسٹر ، انسانی جانوں کے زیاں اور جنگلی حیات کے اتلاف کو روکنا چاہتی ہیں تو انہیں جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔ توپیں داغنے اور بم چلانے سے ملک عظیم نہیں بنتے بلکہ ا ن سے غریب اور غریب بنتے ہی ہیں کیونکہ جب اسلحہ سازی میں قوم کا سارا مال واسباب پھونک دیا جائے اور جینے کی ساری پونجی ضائع ہوجائے تو لوگ کنگال ہوکر بھوک ، بیماری ، لاعلمی اورطرح طرح کی مشکلات کے بھنور میں کیوں نہ ڈوب جائیں ۔اس لئے دورِ جدید میں کسی کی جنگی جیت بھی ہارہی شما رہوتی ہے ۔
اسلام ہمیں اپنے ذہن، جسم، گھر اور ماحول کو پاکیزہ رکھنے کا حکم دیتا ہے۔یہ ہمیں سکھا تا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ،ا س لئے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں ا پنی ذات، گھر، گلی،محلہ ،شہر اور ملک کو صاف رکھنے میں ایک ودسرے کو دست ِتعاون دینا چاہئے۔ یاد رکھئے دنیا میں 90 فیصد بیماریوں کاآغاز آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتاہے۔ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ ماحولیاتی مسائل پر پہلی فرصت میں قابو پایا جائے۔ ماحولیات کو بلاناغہ پہنچائے جارہے نقصانات سے زلزلے اور طوفان آتے ہیں ،ان سے آنے والی نسلوں کو خطر ات لاحق ہوتے ہیں ۔ کرۂ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لئے فطرت کے وضع کر دہ لاتعد اد قوانین میں پاکی ،طہارت اور نظافت کو فوقیت حاصل ہے ۔ چناںچہ قرآن کا فرمان ہے : خدان لوگوں کو اپنا محبوب بناتا ہے جو بہت زیادہ پاک و صاف رہتے ہیں۔( التوبہ ، ۱۰۸)
رابطہ 9469679449
E-mail: [email protected]