ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اقوام عالم

رضوان احمد طارق

آج دنیا بھرکو مختلف اقسام کے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔ سردی اور گرمی کے موسم سخت ترین ہوتے جارہے ہیں۔کئی ممالک میں سمندری طوفانوں، معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلاب کا آنا معمول بنتا جارہا ہے۔ سرد علاقوں میں گرمی اور گرم علاقوں میں سردی کی شدت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ماحول اور ماحولیاتی مسائل کے انسان کے مزاج اور صحت پر بہ راہ راست اثرات کو اب ساری دنیا میں تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ہمارے ہاں کئی برس سے موسمِ سرما کے آغازسے لوگ دھند اور اسموگ سے پریشان رہتےہیں۔
ماہرین ِ ماحولیات گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ آتش فشانی ، خام تیل جلانے ، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور منفی انسانی سرگرمیوں،مثلاجنگلات کاٹنے، فصلوں میں نائٹروجن کھاد کے استعمال وغیرہ کو قرار دیتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات میں جنگلات میں آگ، گلیشیرز کا پگھلنا، ماحولیاتی تبدیلی، سطح سمندر میں اضافہ، زراعت میں کمی، خشک سالی اور سیلاب کا خطرہ شامل ہیں۔ صنعتوں کا فضلہ، دھواں چھوڑتی گاڑیاں، نائٹریٹ، دھاتیں، پلاسٹک اور انتہائی زہریلے فاسد مادے و کیمیائی اجزاء ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
ماہرین ِ ماحولیات کہتے ہیں کہ تیل کا اخراج، مختلف اقسام کے تیزاب ، بارش اور شہری علاقوں میں بہنے والا فضلہ پانی کی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں تقریباً 80فی صد آلودہ پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندروں اور دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مچھلیوں سمیت بہت سی آبی مخلوق کی نسل کو خطرات سے لاحق ہیں۔علاوہ ازیں پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا ہے۔
دوسری جانب صنعتوں اور کارخانوں سے نکلنے والی مختلف گیسز، زہریلامواد اورجلتا ہوا رکازی ایندھن فضائی آلودگی بڑھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی حد تک صنعتی فضلے سے آلودہ ہونے والی مٹی ضروری نباتات سے محروم ہورہی ہے۔ قدرتی وسائل کی شرح میں کمی بھی ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ کوئلے اور تیل کا استعمال گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا باعث بن رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک اب توانائی کے قابل تجدید ذرائع، مثلا شمسی توانائی، وِنڈ انرجی، جیو تھرمل انرجی اور بایو گیس کی جانب تیزی سے پیش قدمی کررہے ہیں۔ ایسے میں کوئلے اور تیل کے بہتر استعمال پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔آج ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ تمام قدرتی وسائل کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا جائے تاکہ انہیں مستقبل کے لیے بھی محفوظ رکھا جا سکے۔
دودہائیوں سے دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کاسامناکر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب سمندری پانی ساحلوں اور ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ معمول سے زیادہ اور کم بارشیں اور برف باری، سیلاب ، موسموں کی شدت اور اسموگ بھی ماحولیاتی مسائل میں سر ِفہرست ہیں۔
ان حالات میں دنیا بھر میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ تباہ کن اثرات کی حامل عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قرض کے باعث ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔ پائے دار ترقی کے اہداف کے حصول کی راہ میں نصف وقت گزارنے کے بعد آدھی سے زیادہ دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ اندازاً 670 ملین افراد تاحال انتہائی درجے کی غربت کا شکار ہیں اور ایک ارب سے زیادہ لوگ خدمات کے فقدان کے باعث کچی بستیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ماحول کی آلودگی دنیا بھر کا کس قدر شدید مسئلہ ہے،اسے سمجھنے کے لیے محض یہ نکتہ جان لینا ہی کافی ہوسکتا ہے کہ اگر دنیا میں روزبہ روز بڑھتی ہوئی آلودگی کو اس وقت صفر کردیا جائے تو بھی پانی، مٹی اور فضا میں پائی جانے والی آلودگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے انسانوں کو کئی برس درکار ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے ہم جلد،جلد قحط سالی اور سیلابوں کے چکر سے گزرسکتے ہیں۔ اس موسمی تغیر کی وجہ سے ایک تحقیق کے مطابق 2100 تک درجہ حرارت میں تقریباً 7.2 ڈگری درجے تک اضافہ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زرخیز زمینوں کے بنجر ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ کچھ علاقوں میں تو شاید رہنا بھی ممکن نہ رہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب مختلف اقسام کا کوڑا کرکٹ بھی ہے،جسے ٹھکانے لگانا ہمارے لیے روز بہ روز مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔اس کوڑے میں موجود پلاسٹک ہمارے ماحول کو سب سے زیادہ نقصان پہنچارہا ہے۔ تاہم یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ پلاسٹک، مصنوعی لکڑی، کاغذ، دھاتیں اور دیگر اقسام کا کچرا دنیا بھر میں ساحلوں اور سمندروں کی گہرائی میں عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ رکازی ایندھن سے بنتا ہے اور ہم جتنا زیادہ پلاسٹک پیدا کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ رکازی ایندھن جلاتے ہیں اور موسمیاتی بحران کو بھی اتنا ہی شدید بنا دیتے ہیں۔
ایک اندازےکے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک پیدا ہوتا ہے جس کا ایک تہائی صرف ایک ہی مرتبہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔ انسان روزانہ کوڑے سے بھرے 2,000 سے زیادہ ٹرکس کے برابر پلاسٹک اپنے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں پھینکتے ہیں۔ پلاسٹک کے باریک ذرات ہماری خوراک، پینےکے پانی اور اس فضامیں شامل ہو جاتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ یوں یہ ہمارے جسم کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔ اندازاً ہر سال 19 تا 23 ملین ٹن پلاسٹک دنیا بھر کی جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی اس مقدار کا وزن 2,200 ایفل میناروں (ایفل ٹاور) کے برابر ہے۔
مائیکرو پلاسٹک یا پلاسٹک کے 5 ملی میٹر تک موٹے ذرات خوراک، پانی اور ہوا کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اندازے کے مطابق دنیا میں ہر فرد سالانہ ایسے50000 سے زیادہ ذرات نگلتا ہے۔ سانس لینے کے دوران جسم میں شامل ہونے والے پلاسٹک کی مقدار اس کے علاوہ ہے۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد متروک یا جلایا جانے والا پلاسٹک انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچاتا ہے اور پہاڑوں کی بلندیوں سےلے کر سمندر کی تہہ تک ہر ماحولیاتی نظام کو آلودہ کر دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایک نئی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر انسان فوری طورپر پلاسٹک کو دوبارہ استعمال میں لانے، تلف شدہ پلاسٹک کو مختلف مقاصد کے لیے دوبارہ قابل استعمال بنانے اور پلاسٹک کے استعمال کا سرے سے خاتمہ کرنے کےلیے اقدامات اٹھائیں تو 2040 تک پلاسٹک کی آلودگی میں 80 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پلاسٹک اپنے وجود کے تمام عرصے میں صحت مند ماحول، زندگی، صحت، خوراک، پانی اور اچھے معیار زندگی کے حقوق کو بری طرح نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کی پیداوار کے نتیجے میں خطرناک مادے خارج ہوتے ہیں اور اس کی تقریباً تمام تر پیداوار رکازی ایندھن کے ذریعے ہوتی ہے۔ پلاسٹک میں بہ ذات خود ایسے زہریلی کیمیائے مادے پائے جاتے ہیں جو انسانوں اور فطری ماحول کےلیے خطرہ بنتے ہیں۔
مزید برآں ایک مرتبہ استعمال کے بعد پھینک دیا جانے والا 85 فی صد پلاسٹک زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا اسے ماحول میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، پلاسٹک کو جلانے، اسے ری سائیکل کرنے اور دیگرغلط اور گم راہ کن طریقے اس خطرے کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور پلاسٹک، اس کے باریک ذرات اور اس میں موجود خطرناک مادے ہماری خوراک، پینےکے پانی اور فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔
فضائی آلودگی نے بڑے شہروں میں صحت کے خطرناک مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضر صحت دھند اب بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن گئی ہے۔بڑھتی ہوئی آلودگی اور دھند نے صحت کے مسائل کے علاوہ کاروبار زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈیزل والی گاڑیاں، دو اسٹروک انجن والی موٹر سائیکلز اور رکشوں کے استعمال سے بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ صحت کے لیےسنگین خطرہ بن چکی ہے اور وہ ہروقت فضا میں موجود رہتی ہے۔
دوسری جانب ماہرین تسلسل سے ہمیں بتارہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا، بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب ، وبائی امراض اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔
وادیٔ کشمیر وہ خوش قسمت خطہ ہے جسے قدرت نے حسین وادیوں، کُہساروں اور وسیع وعریض میدانی خطّوں سے نوازا ہے لیکن اس وقت دنیا بھر کے ممالک کو قدرتی وسائل کی بے پناہ کمی کاسامنا ہے ۔جس کے باعث ہمارا خوب صورت خطہ بدترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے جس سے نہ صرف معیشت بلکہ شہریوں کی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر عمل درآمد کررہے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمن دانہ پالیسیز نے ملک میں اس مسئلے کو مزیدپے چیدہ بنا دیا ہے۔ اگر ہم مرحلہ وار چند اہم ترین نکات کا جائزہ لیں تو صورت حال کا حقیقی منظر نامہ ہمارے سامنے آسکتا ہے جیسا کہ عالمی حدت کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشیئر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ہمیں ان مسائل پر فوری توجہ دینا ہوگی۔