سرینگر //ریاستی حکومت نے آئین ہند کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی درجے کے سبب ماتحت عدلیہ کی تقرریوں کیلئے سپریم کورٹ کی سنٹرلائیزڈ سلیکشن میکا نزم کی تجویز پر اعتراض کیا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے ملک کی تمام ریاستوں کے ماتحت عدلیہ میں جوڈیشل افسران کی تقرری کیلئے ایک سنٹرلائیزڈ سلیکشن میکانزم منصوبہ بھیج کر اُن سے آراء طلب کی ہے ۔ چونکہ معاملہ آئین کی توضیح کا ہے ، لہٰذا ریاستی حکومت نے ریاست کے کیس کا دفاع کرنے کیلئے ایڈوکیٹ راکیش دیویدی اور ایڈوکیٹ شعیب عالم کی خدمات حاصل کیں۔ریاستی سرکار نے آئینی نزاکتوں کو عدالت عظمیٰ کے سامنے اجاگر کرنے کیلئے ایک مفصل بیان حلفی دائر کیا۔بیان حلفی میںکونسل نے آئین ہند میں ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ جموں کشمیر ریاست کو حاصل خصوصی آئینی درجے کے سبب ڈسٹرکٹ ججوں کی تقرری کیلئے سنٹرلائیزڈ سلیکشن پروسیس قابلِ عمل نہیں ہے کیونکہ ڈسٹرکٹ ججوں کی تقرری کے اختیارات ریاست کے گورنر کے پاس ہیں جو جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 109 کے تحت ریاستی ہائی کورٹ کی مشاورت سے ضلع ججوں کو مقرر کرتے ہیں جبکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں آئین ہند کی دفعہ 233 کے تحت یہ تقرریاں عمل میں لائی جاتی ہیں ۔ جموں کشمیر حکومت نے کہا ہے کہ ریاست کے ہائی کورٹ کے پاس ملک کی دیگر ریاستوں سے زیادہ اختیارات ہیں کیونکہ ریاست کی عدلیہ بشمول ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتیں ریاستی آئین نہ کہ آئین ہند کے تحت تشکیل دئیے جاتے ہیں اور جموں کشمیر ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ ججوں کی تقرری جموں کشمیر کے آئین کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے ۔ کونسل نے کہا کہ مجوزہ سنٹرلائیزڈ سلیکشن میکانزم کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو مرکزی پول میں سے کامیاب امیدواروں کو ہی بھرتی کرنا ہو گا تاہم جموں کشمیر کے جوڈیشل سروسز رول 9 کے تحت امیدوار کا ریاست کا مستقل باشندہ اور بھارت کا شہری ہونا لازمی ہے ۔ ریاست کے کونسل نے مزید کہا کہ آل انڈیا سروسز سے متعلق آئین ہند کی دفعہ 312 کے دائرے میں آل انڈیا جوڈیشل سروسز کا قیام 42 ویں ترمیمی ایکٹ 1976 کے تحت لایا گیا۔ تا ہم اس ترمیمی ایکٹ کا اطلاق ریاست جموں کشمیر پر نہیں ہوا ہے ۔ کونسل نے ریاست جموں و کشمیر کی جانب سے کہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر آئین ہند کی دفعہ 370 کے تحت ایک خصوصی درجہ رکھتی ہے اور آئین ہند کا اطلاق جموں و کشمیر پر اسی حد تک ہو سکتا ہے جس حد تک آئین ہند کی دفعہ 370 کے تحت صدارتی اختیارات اجازت دیتے ہوں ۔ جموں و کشمیر ریاست کے ردِ عمل کی شنوائی کے بعد چیف جسٹس جے ایس کھیہر ، جسٹس آدرش کمار گوئیل اور اے ایم خان ولکا پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے بنچ نے کہا کہ اس ضمن میں نظر ثانی شدہ تجویز تیار کی جائے گی جو اعتراض کرنے والی ریاستوں کے ہائی کورٹوں کو بھیجی جائے گی تا کہ انہیں سنٹرلائیزڈ سلیکشن میکانزم کو نہ اپنانے کا اختیار دیا جا سکے ۔