’’مابعدنوآبادیاتی مطالعات اوردوسرے مضامین‘‘ بارہمولہ کشمیرکے ایک نوجوان اہل قلم محترم امتیازعبدالقادر کی تصنیف ہے ،جن کی نگارشات رسالوںاوراخباروںمیں پڑھنے کوملتی ہیں۔ موصوف بارہمولہ کی اصلاحی اورعلمی تنظیم فلاح الدارین سے وابستہ ہیں اورفی الوقت کشمیریونیورسٹی میں ارود میں ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔
فاضل مصنف کی کتاب کے تین حصّے ہیں۔ پہلے حصّے میںمابعدنوآبادیاتی دور(Post-Colonialism) میںاردوادب میں مغرب کے نظریات کی درآمد اورمشرقی اقداروافکارکے احیاء کی طرف اجمالی اشارے کئے گئے ہیں۔ اس کے بعدنو(۹) عنوانات کے ذیل میںعلامہ شبلی کی شخصیت ، ان کی سیرت نگاری ، تنقیدی بصیرت اوران کے فکری اجتہادات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میںفاضل مصنف نے ایک عنوان کے تحت مقالات شبلی کے چیدہ چیدہ مضامین کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ شبلی کی علمی عبقریت اوراسلام کے علمی اورثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے ان کی مساعی جمیلہ کے نمونے دئے ہیں۔ فاضل مصنف نے علامہ کی دوکتابوں ’’موازنۂ انیس ودبیر‘‘ اور’’شعرالعجم‘‘ کے مابعدنوآ بادیاتی مطالعات بھی پیش کئے ہیں۔ انہوںنے’’ شعرالعجم‘‘ کے بارے میںعلامہ اقبال کی رائے نقل کی ہے کہ وہ’’ شعرالعجم‘‘ کو ان تصانیف میںسے سمجھتے تھے جو بین الاقوامی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب میں فاضل مصنف نے علامہ شبلی کے نظریۂ تاریخ کابھی جائزہ لیاہے اورشبلی کی تحریروںمیں پس نوآبادیات کے عناصر پربھی بحث کی ہے۔ انہوںنے علی گڑھ تحریک کے تئیں علامہ شبلی کے روئے پر سیرحاصل بحث کرکے علامہ کاصحیح مقام متعین کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میںسرسیدکے مکتبِ فکر اورسرسیدؔ کے نقطۂ نظر کے مثبت اورمنفی پہلوؤں کو بیان کرکے فاضل مصنف نے بڑی جانداراورمتوازن بحث کی ہے۔ نوآبادیات اورپس نوآبادیات (Colonialism and Post-Colonialism) کے حوالے سے علی گڑھ تحریک کے کردار اورسائنٹفک سوسائٹی وتہذیب الاخلاق کے اغراض ومقاصد اوران کے اثرات بھی کتاب کے اسی حصے میںزیربحث آئے ہیں۔ فاضل مصنف نے ’’سرسیدؔ اورحالیؔ کی فکرپرمغرب کااثر ‘‘ایک علیحدہ عنوان کے تحت موضوع بحث بنایاہے۔ زیرتبصرہ کتاب کے پہلے حصے کے آخرمیں ’’جدیدیت اورمابعدجدیدیت کاچلینج ‘‘(Modernism and Post-Modernism) کاعنوان ہے،جس کے ذیل میںجدیدیت پرگفتگوکی گئی ہے اورمابعدجدیدیت کے چلینجوں اوراس کے اثرات سے خبردارکیاگیاہے۔ کتاب کاپہلاحصہ ۳۰۴صفحات پرمحیط ہیںاوریہ پوری کتاب کا بڑااوراہم حصہ ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میںالگ الگ موضوعات پر نومضامین ہیں ،جوہندوپاک کے رسالوں سمیت کشمیر کے مؤقر روزنامہ ’’کشمیرعظمیٰ‘‘ میںشائع ہوچکے ہیںاورجنہیںحذف واضافے کے بعد کتاب میںشامل کیاگیاہے۔ کتاب کایہ حصہ ۶۴صفحات پرمحیط ہے۔ کتاب کاتیسراحصہ ان تبصروں پرمشتمل ہے ،جوفاضل مصنف نے مختلف کتابوں پرکئے ہیں۔ ان کتابوںکی تعدادپانچ ہیں۔فاضل مصنف نے ان کتابوںپر جوتبصرے کئے ہیں،وہ مختلف رسالوں اوراخباروںمیںشائع ہوچکے ہیں۔تبصروںکایہ حصہ ۳۲صفحات پرمحیط ہے۔
زیرتبصرہ کتاب’’مابعدنوآبادیاتی مطالعات اوردوسرے مضامین‘‘قابل قدراورلائق مطالعہ تصنیف ہے۔سرسیدؔاحمدخان ،علامہ شبلی ؔ اورمولاناحالیؔ کی اصلاحی اورعلمی خدمات پر بہت کچھ لکھاگیاہے مگرزیرتبصرہ کتاب میںفاضل مصنف نےنوآبادیاتی اور مابعدنوآبادیاتی دور کی علمی سرگرمیوں اور اصلاحی کوششوں پر قدرے مختلف زاوئے سے روشنی ڈالی ہے ۔انہوںنے سرسیدکے مکتب فکر کی علمی ، ادبی ، فکری اوراصلاحی خدمات پر اچھی بحث کی ہے۔ مولوی نذیراحمد ، مولاناحالی،نواب محسن الملک اورنواب وقارالملک کی خدمات کاتذکرہ خاص طورسے کیاگیاہے۔مولوی نذیراحمد اورمولاناالطاف حسین حالیؔ کے ان خیالات کوزیربحث لایاگیا ہے،جووہ انگریزوں اورانگریزی حکومت کے متعلق رکھتے تھے۔ ان دونوں نے اردوزبان واد ب کوجس طرح نئے نئے خیالات اورنئے نئے مضامین سے روشناس کیا ،اس نے نہ صرف اردوکو جدیدزبانوں کی صف میں لاکھڑاکرنے میں مدد کی بلکہ یہ دونوں بھی اردوکے عناصرخمسہ میں جگہ پاگئے۔ کتاب میںان دونوں پرمفید اورکارآمد بحث کی گئی ہے۔سرسیدکے رفقاء میںنواب محسن الملک اورنواب وقارالملک کی قومی اوراصلاحی کوششوں پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کے ۱۴۴ صفحات پرمولاناشبلیؔ کی کثیرجہتی شخصیت کے گوناگوںپہلوؤں کونمایاںکرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ،جس سے اردو کے نابغۂ روزگارپر کام کرنے والوںکو حوصلہ ملے گا ۔بلاشبہ مولاناشبلیؔ اپنی مثال آپ تھے۔ اردوکے ایک دیدہ ورنقادنے اس خوش ذوق مولاناکے بارے میںکہاتھا کہ وہ مسلمانوںمیں پہلے یونانی تھے۔ فاضل مصنف نے بجاطورلکھاہے :’’علامہ کی شخصیت اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ پرکشش اوردلآویزہے۔ اس کاسبب یہ ہے کہ وہ یک رخے نہیں بلکہ پہلودار اورہمہ جہت ہیں‘‘۔ زیرتبصرہ کتاب میں سرسید ؔ ،ان کے رفقاء ،علی گڑھ تحریک اورجدیدیت ومابعدجدیدیت کے بارے میں مستند اورمعتبرمعلومات دی گئی ہیں۔فاضل مصنف نے حواشی اورحوالوں کاالتزام کیاہے اوراپنے نقطۂ نظرکوجاندار بناکر علمی روایت کی پاسداری کی ہے۔
کتاب اپنے اسلوب اورطرزِ نگارش سے بھی قابل ِقدرہے۔فاضل مصنف نے علمی اندازمیں اپنانقطۂ نظر پیش کیاہے۔ دوسری کتابوںکے اقتباسات و اشعاروامثال سے کتاب کی افادیت دوچندہوگئی ہے۔ کتاب میںاعتدال اورتوازن کوشروع سے آخرتک برقرار رکھاگیاہے۔ کتاب میںزبان وبیان کی غلطیاں بھی کہیں کہیں نظرآتی ہیں۔ صفحہ ۷۶پر لکھاگیاہے کہ علامہ شبلی نے پہلی دفعہ یہ بتلایا کہ وہ (عمرخیام) ریاضی داں بھی تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خیام کی الجبراء کاترجمہ فرانسیسی میں ۱۸۵۷ء میںہواتھا۔ مولاناشبلی اسی سال میںپیداہوئے تھے ۔ صفحہ ۹۳کے عنوان میں ’’مکتبۂ فکر ‘‘ دیاگیاہے،’’ مکتب ِفکر ‘‘ہوناچاہیے۔کتاب میںاملے ، کمپوزنگ اورپروف کی غلطیاںہیں۔امیدہے آئندہ کے ایڈیشن میں ان کی اصلاح کی جائے گی ۔ مجموعی حیثیت سے زیرتبصرہ کتاب اساتذہ ،طلباء اورپڑھے لکھے افرادکے لئے قابل مطالعہ اورمفید ہے۔امیدہے کہ علمی حلقوںمیں کتاب قدرکی نگاہوں سے دیکھی جائے گئی۔ کتاب مجلّد مع ڈسٹ کور،کاغذاعلیٰ ،گٹ اَپ شاندار اورجاذبِ نظر ،القلم پبلی کیشنز بارہمولہ سے شائع ہوئی ہے۔کتاب کے لئے مصنف اورخوبصورت چھپائی کے لئے القلم پبلی کیشنز بارہمولہ کشمیر مبارک بادکے مستحق ہیں۔