بشارت بشیر
رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکات کا نزول اپنے جوبن پر ہے ۔بندگان خدا پورے انہماک کے ساتھ اُس کی یاد میںمست ومحو ہیں۔ ہر گذرتے لمحہ کے ساتھ اُن کی عبادت وبندگی میںاضافہ در اضافہ ہے۔ اس لئے کہ وہ جو مہمانِ ذی وقار اُن کے ہاں قدم رنجہ تھا، بس اب چند ایام کے بعد ہی پورے ایک سال کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہے۔ رمضان کی عظمتوں اور رفعتوں کا اندازہ کیا ہی نہیں جاسکتا ،بے حدو حساب عاصیوں کو نوید بخشش سنائی جاتی ہے اور اَن گنت حاجت مندوں کی حاجت روائی کے سامان ہوتے ہیں۔اصل میںاس ماہ کی ساری شان وشوکت قرآن مقدس کے نزول بابرکت کاعیاںاظہار ہے۔جب حرا کے تاریک غار میںنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پر نسخہ کیمیا نازل ہو تو کراہتی اور تڑپتی انسانیت نے سکھ کا سانس لیا کہ اب اُن کے حقوق کی جہاں حفاظت کا انصرام ہوگا۔وہاں بندوں کی گردنیں اب بندوں کے دروازوں سے اُٹھا کر انہیں صرف اللہ کی دہلیز پر جھکانے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیا اور ایک کتاب مبین بھی جو شرکیات و بدعات کا استیصال کرے گی اور دھر میںپھیلے جو روجبر کے لامتناہی سلسلہ کا خاتمہ ہوگا۔
ہاں بات رمضان کی ہورہی تھی اور خشکی وتری میںاللہ کے بندے رمضانی ریفرشر کورس کے آخری پڑائو میں داخل ہورہے ہیں۔اور اس عرصہ ٔ تربیت کے آخر پر اب وہ روز سعید بھی آرہا ہے، جب اللہ کی مخلوق انعام الٰہی کی طلب میں اول شوال کو عید گاہوں اور مساجد کا رخ سویرے کرے گی اور راستے میںملکوتی قافلے اُن کے خیر مقدم اور استقبال کے لئے ایستادہ ہوں گے ۔ واہ کیا شان ہے ان ایک ماہ کے ہر دن کے فاقہ مستوں کی اب اُن کی اجرت کی ادائیگی ہوگی اور مزدوری بھی ایسی کہ فلک پیر عش عش کراُٹھے ۔ایسا انعام جو آج خود اپنے دست قدر ت سے معبود اپنے بندوں کو عطا فرمائے گا۔ اُس کا اپنا ارشاد ہے کہ ’’الصوم لی وانا اجزی بہ ‘‘یعنی’’ روزہ خاص میرے لئے اور میں خود ہی اس کی جزا بھی دوں گا ‘‘۔ کون نہیں جانتا کہ سبھی عبادات ،زکوٰۃ ، حج ، نماز بس اللہ کے لئے ہی خاص ہیں۔ اور ان سب کااجربھی تو وہی دے گا۔ لیکن روزہ کا تعلق چونکہ جسم سے زیادہ روح سے ہے اور یہ روزہ زیادہ اسی روح کے لئے قوت بخش اور غذا کا سامان ہے۔ روزہ روح کو اللہ سے قریب تر کرنے کا اہم ترین طریقہ عمل ہے۔ اس لئے اس کی مزدوری خود اس کے امتیاز کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ جل شانہ ٗ خود عطا فرمائیں گے ۔ دنیا کی ساری دولتیں ، بادشاہتیں ، عزتیں اور بلندیاں ایک طرف دوسری طرف ایک وہ ساعت حسین جب معبود خود عبد کو روزوں کی قبولیت کے خلعت فاخرہ سے نوازے گا۔ اس کی بخشش کی نوید جاں فزادے گا۔ اسی لئے اسلاف اس ماہ دنیوی امور سے تقریباً کنارہ کش ہوکر عبادات وبندگی کے لئے کمر بستہ ہوتے تھے ۔سخاوت وانفاق میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، قرآن سمجھنے کے لئے بار بار تلاوت کرتے تھے ۔حصول رضائے حق کے لئے راتوں کا قیام کرتے تھے۔ دن بھر کے بھوکے پیاسے ، رات کی تاریکیوں میں اللہ کی بارگاہ میںاُن کا سوز وگذار دیدنی ہوا کرتا تھا ۔ یہ سلسلہ گوجاری وساری ہے اوران شاء اللہ قیامت تک اس پر مداومت رہے گی ۔ظاہر ہے کہ اس پُر فریب دنیا کے گورکھ دھندوں میں پھنس کر ایسی عبادات توہو ہی نہیں سکتی لیکن کاوشیں ضروری ہیں۔ خامیاں اور کوتاہیاں ضرور ہیں ۔لیکن ان کا اعتراف بھی ہے اور ہر گوشہ ٔ زمین میںڈیڑھ ہزار برس گذارنے کے بعد بھی ماشاء اللہ گرمیوں کی شدتوں اور سردیوں کی کپکپاہٹ میںبھی اللہ کے بندے اس ماہ وقت مخصوصہ میںکھانے پینے اور دیگر متعینہ چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے تسابیح واذکار کے عمل میںبھی شریک ہیں اور بحمداللہ تلاوت کلام مجید کی روح پرور صدائیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔سخاوتوں کا سلسلہ بھی دراز ہے اور انفاق وایثار کی تاریخ بھی رقم کی جارہی ہے۔ دعائیں ہیں،استغفار ہے ، مناجات کا طویل سلسلہ ہے۔ مکر وب ومجبوروں کی فریادیں ہیں ، آہیں ہیں ، ہچکیوں کی صدائیں ہیں ۔ سب اللہ کے دربار میں اپنے نامہ ہائے عصیاں لے کر ندامتوں کا اظہار بہ چشم نم کررہے ہیں۔اللہ کرے کہ شرف قبولیت حاصل ہو۔تب جاکر عید بندگان خدا کے لئے عید کہلائے گی ۔
بہر حال اب جب کہ یہ ماہ مقدس ہم سے رخصت ہورہا ہے لازم ہے کہ اس نے بندگی کاجو لازوال پیغام دیا اُس پر سارے سال عامل رہا جائے اور رضائے حق کے حصول کے لئے ہم ہر آن بے قرارنظر آئیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ قلوب میں رمضان کی روانگی کے فوراً ہی پھر ماضی کی جانب واپسی ہوجاتی ہے۔ دنیوی زندگی کی پُر فریب لذتیں انہیں پھر دھوکہ میںڈال دیتی ہیں۔ اس کی زیب وزینت اور آرائش وزیبائش کے جھانسے میں آکر اُن کے قدم پھر کہیں ڈگمگاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں ٗ نماز سے پھر تساہل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، تلاوتیں اب دور کی باتیں لگتی ہیں، انفاق وایثار سے بھی بے رغبت ہوجاتے ہیں اور دوسرے امور خیر سے بھی آشنائی کچھ بے گانگی میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ رمضانی عزیمت وپختگی نحیف پڑ جاتی ہے۔ وہ ہمت جواب دیتی ہے۔مشقت ومحنت کے ارادے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ احوال کا تغیر اور یہ غفلتیں حد درجہ ہلاکت خیز بھی اور ضرررساں بھی ہیں ۔ یاد رہے کہ مؤمن کا عمل اس کے دار البقاء کی جانب روانگی تک ختم نہیں ہوتا۔ ساری عمر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کرتے رہے اور اللہ کا حکم بھی یہی تاکید کرتا ہے :’’ رب کی عبادت کیجئے یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین (انتقال پُر ملال کا وقت ) آئے۔ ‘‘دوسری بات یہ ہے کہ یہ ماہ وسال اور شب وروز جو ہیں :ابن رجب رحمہ اللہ کے بقول اوقات کی مقدار ہیں۔کاموں کے لئے مقررہ اوقات ہیں جو جلد ہی ختم ہوجائیں گے اور سب ہمارے ہاتھوں سے پھسل جائیں گے لیکن جس ذات نے انہیں پیدا کیا،ان کو فضائل سے خاص کیا ٗ ان میں خوبیاں اور بھلائیں رکھی ہیں وہ باقی رہے گی، فنا نہیں ہوگی ٗ ہمیشہ رہے گی ، اسے زوال نہیں ۔اور تمام اوقات میں وہ ایک ہی معبود برحق ہے جو اپنے بندوں کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کی نگرانی فرمارہا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ہم رمضان کے بعد بھی اعمال خیر پر مداومت قائم رکھیں اور ثابت کرکے دیں کہ رمضانی پیغام عمل ہمارے رنگ وپے میںسرایت کرچکا ہے۔ہمارے اسلاف اُس شخص کے حوالہ سے کبھی حسن ظن نہیں رکھتے تھے جس کی عبادات کا سلسلہ رمضان کے بعد یا تو بہت حد تک ٹوٹتا تھا یا کمزور پڑ جاتا تھا ۔ ہمارے لئے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ ٔ عمل ہیں یہی قرآن کا ارشاد ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے رہبر ورہنما ہیں۔ اس لئے ہر معاملہ کے بارے میں رہنمائی اُن سے ہی حاصل کرنے ہوگی۔
بخاری ومسلم میں حدیث موجود ہے۔سیدہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دن کو کسی عبادت کے لئے خاص کرتے تھے یعنی کوئی ایسی عبادت جسے آپ کسی خاص دن میںکرتے تھے اور باقی دنوں میں نہ کرتے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (دیمہ ) تھا۔ دیمہ ہلکی پھلکی مسلسل بارش کو کہتے ہیں ۔جس میںگرج اور چمک نہ ہو۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی عبادت کرتے مسلسل کرتے تھے ۔
اس بات میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جہاں اپنے اعمال پر مداومت یعنی وہ ہمیشہ کرتے تے وہاں ساتھ میں ان میں آسانی اور نرمی بھی برتتے تھے۔ عمل میں مداومت کا مطلب نہیں کہ اس میںغلو اور شدت کا اظہار ہو یہ رویہ انسان کو عاجز بناسکتا ہے اور اعمال سے دست بردار کراسکتا ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اکلفوا من الاعمل ماتطیقوناپنی طاقت کے بقدر ہی اپنے آپ کو کاموں کا مکلف بنائو ۔[بخاری وسلم] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’بلا شبہ دین آسان ہے ۔اور جو کوئی اس میںسختی برتے گا تو وہ اس کے اُوپر غلبہ پائے گا۔لہٰذااعتدال کو لازم پکڑئو ، میانہ روی اختیار کرو، خوش ہوجائو اور صبح وشام اور رات کے آخری حصہ میں سفر کرنے سے مدد طلب کرو ۔ [بخاری ونسائی]
اس حدیث کے بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں: اَلْقَصْد الْقَصْد تَبْلُغُوا’’’ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو تم اپنی ضرورت پائوگے‘‘۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک ایسے مسلمان کے پاس سے ہو اجو ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا ایک کنارے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے پھر اُس کے پاس گئے اسے اسی حالت میںپایا وہاں آپ کھڑے ہوئے اپنی دونوں مقدس ہتھیلیوں کو ملایا پھر فرمایا: الناس علیکم القصد ’’لوگو اعتدال کو لازم پکڑو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہلاکت تک لے جانے والی زیادتی سے روکنا تھا اور اپنی نفل نماز میںغلو کرنے سے بھی روکنا تھا۔جو اس سے افضل عمل کے چھوڑنے کا باعث بنے ۔یعنی مثال اُس شخص کی دی جاسکتی ہے جو رات بھر محو یاد مولیٰ رہا لیکن صبح نماز فجر کے موقع پر اونگھ آگئی اور سو گیا۔بہر حال اللہ اور اس کے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے عمل بہتر وہی اور محبوب ہے جس پر دوام ہو۔ خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میںہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : أَدْوَمُہَا وَإِنْ قَلَّمداومت یعنی ہمیشہ کیاجانے والا عمل خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو ۔[بخاری ومسلم]
قارئین کرام!رمضان رخصت ہورہا ہے۔ ہم بھی اب سارے سال بیچ بیچ میںتعلیم فرمودہ اور دیگر نفلی روزوں کے رکھنے کا اہتمام کریں، نمازیں اپنے وقت پر پڑھیں،زبان و دل پر قابو رکھیں ، قرآن سے تعلق کو مزید استوار کریں، حرام سے دور رہیں اور حلال سے تعلق رہے۔ بعض نے خوب کہا ہے کہ نیکی کا ثو اب اس کے بعد نیکی کرنا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی نیکی کے بعد برائی کرتا ہے تو علامت اس بات کی ہے کہ اللہ نے اس کی نیکی کو شرف قبولیت نہیں بخشا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے روزوں کی نعمت عظمیٰ پر بندوں سے کہا ہے کہ وہ شکر کریں ۔[ البقرۃ:185]یاد رہے روزہ نفوس کو سدھارنے کا ذریعہ تھا ٗ روحانی بلندی ،تطہیر قلب ، تہذیب، اخلاق اس کا مدعا تھا ۔ رمضان معاشرتی اصلاح اور اللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا ایک مدرسہ تھا۔ دیکھنا ہے کہ ہم کتنا اور کیا کچھ حاصل کر پائے۔ رمضان کے بعد ہی ماہ شوال کے چھ روزوں کی عظمتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ انہیں بھی رکھئے روح قرار پائے گی۔
الحمدللہ عید سعید آرہی ہے ۔ حسن بصریؒ نے کیا خوب فرمایا : ہر وہ دن تیری عید ہے جس دن تو اللہ کی نافرمانی نہ کرے ۔ دو مختصر جملے مگر ایک کتاب سے زیادہ بڑے اور سبق آموز۔ ہاں اللہ کی نافرمانیاں چھوڑ کر فرماں برداریاں وطیرہ بن جائے تو ہر روز روز ِ عیدہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کو شرف قبولیت سے نوازے اورعید کی سعادتوں سے ہم بھی دامن بھرنے کے اہل ہوں۔آمین
)رابطہ۔7006055300)