کرناٹک میں جو جو ہونا تھا سوسو ہوا۔ نیشنل میڈیا کے مطابق کمارا سوامی کی تقریب حلف برداری سے زیادہ یہ اپوزیشن اتحاد کا مظاہرہ تھا جس میں برسوں کے حریف ایک دوسرے سے گلے ملتے نظر آئے۔ بظاہر سیکولر عوام اور طاقتوں کے لئے بڑا روح پَرور مظاہرہ تھا۔ سونیا گاندھی، راہول گاندھی، مایاوتی، ممتابنرجی، شرد پوار، شرد یادو،سیتارام یچوری، لالوپرساد کے بیٹے تیجسوی، کجریوال، اکھیلیش یادو جانے کون کون وہاں موجود تھے۔ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے والے ایک دوسرے کے لئے مسکراہٹ اور خیر سگالی تعلقات و تبادلہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ یقینا بی جے پی اور اس کے حلیف جماعتوں کے لئے وقتی طور پر ہی سہی یہ مرحلہ آزمائشی اور ان کے زخموں پر نمک پاشی جیسا تھا۔ ہاتھ کو آیا ہوا اقتدار چھین لیا گیا اور پھر 2019ء نے اتحاد کی جھلکیاں جس طرح سے دکھائی گئیں‘ اس نے مودی شاہ اور ان کے بریگیڈ کو فکرمند ضرور کردیا ہوگا۔ لاکھ یہ کہا جائے کہ جنتادل ایس اور کانگریس کی مخلوط حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں رہے گی‘ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ جب تک بھی یہ حکومت برقرار ہے‘ اس وقت تک ہر لمحہ، ہر پل بی جے پی کے لئے آزمائشی ہے۔ 2019ء تک تو کرناٹک حکومت کی گیارنٹی دی جانی چاہئے ہاں اُس سے پہلے بھی بی جے پی اپنی کوششوں سے کمارا سوامی کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ جنتادل اور کانگریس کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے‘ اور دونوں ہی کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے صد فیصد دیانتدار نہیں ہیں۔ کمارا سوامی کا پچھلا ریکارڈ اگر دیکھا جائے تو 2006ء میں بی جے پی کے ساتھ ان کی مختلف حکومت تھی اور معاہدہ کے لحاظ سے جنتادل اور بی جے پی کو باری باری سے قیادت سنبھالنے کی کمارا سوامی نے اپنے 20ماہ کی تکمیل کے بعد بی جےپی کا ساتھ نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے ریاست میں صدر راج نافذ ہوا۔ بعد میں کمارا سوامی نے دست تعاون دراز کیا جس پر یدی یورپا کی حکومت تشکیل پائی۔ ابھی تو اقتدار کی ساجھیداری اس حد تک ہوئی ہے کہ حکومت کانگریس کے 22 ارکان ۷شامل ہوئے ہیں اور چوں کہ جنتادل ایس کے صرف 37ارکان ہیں‘ اس لئے فی الحال کمارا سوامی ایسا کوئی اقدام نہیں کرسکتے جس سے کانگریس کرسی چھیننے کے لئے مجبور ہوجائے۔ اپنی تمام تر مجبوریوں کے باوجود کانگریس 2019ء تک کمارا سوامی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیوں کہ اگر ایسا ہوتا ہے اور حکومت متاثر ہوتی ہے تو 2019ء کے الیکشن میں کانگریس کو ہر ریاست میں نقصان اٹھانا پڑسکتاہے۔ ہاں کانگریس کے کچھ ناراض ارکان جنہیں وزارت میں جگہ نہ ملی ہو‘ یا جو اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں وہ موقع دیکھ کر پارٹی سے انحراف کرسکتے ہیں اور بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے میڈیا کے سامنے انکشاف کیا کہ بی جے پی کی جانب سے تائید حاصل کرنے کے لئے دولت کی پیشکش سے متعلق جو آڈیو سی ڈی منظر عام پر لائی گئی وہ فرضی ہے۔ یہ لیڈر اگر چاہتے تو میڈیا کے سامنے اپنی ہی پارٹی کے خلاف بیان دینے سے گریز کرسکتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ جنتادل ایس کے ساتھ اتحاد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا یہ یہ اتحاد کڑوی گولی کی طرح نگلنا پڑرہا ہے۔ ایسے اور بھی قائدین ہوسکتے ہیں جو جنتادل ایس سے ناراض ہیں مگر وقت اور حالات کے لحاظ سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کمار سوامی کو یوں تو عوامی چیف منسٹر کہا جاتا ہے مگر مسلمانوں سے متعلق ان کی پالیسی ابھی تک واضح نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک نیشنل ٹی وی چیانل کو گذشتہ سال دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر وہ حکومت تشکیل دینے کے موقف میں ہوں تو دو ڈپٹی چیف منسٹرس کا انتخاب کریںگے ایک کا تعلق مسلمانوں سے اور دوسرے کا دلت طبقہ سے ہوگا۔ بعد میں اپنے بیان سے وہ مکر گئے اور کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا اعلان نہیں۔ تقریب حلف برداری سے پہلے تک کرناٹک کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین تھا کہ سینئر کانگریسی رہنما روشن بیگ کو بھی ڈپٹی چیف منسٹر بنایا جائے گا فی الحال تو ایسا نہیں ہوا جس سے مسلم طبقہ میں بڑی حد تک مایوسی کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی مسلمان کو ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو مسلم طبقہ میں بے چینی رہے گی اور 2019ء کے الیکشن میں ’’کیا ہوا تیرا وعدہ‘‘ جیسے سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ بہرکیف کرناٹک میں جو بھی ہوا وہ ہندوستانی جمہوری تاریخ کا ایک دلچسپ سنسنی خیز خوشگوار اور مثبت واقعہ ہے۔ سپریم کورٹ کی غیرجانبداری نے ایک بار پھر عدلیہ کے وقار کو اور عوامی اعتماد کو بحال کیا۔ ایک بار پھر عدالت عالیہ نے یہ ثابت کیا کہ اس کے فیصلے دستور اور قانون کی روشنی میں ہی ہوتے ہیں اقتدار کی راہ داریوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ ہندوستان کے مستقبل کے لئے فال نیک ہے اگر اور بھی معاملات میں عدالتوں کے فیصلے اسی طرح سے بے باکی، جرأت اور غیر جانبداری کے ساتھ کئے جاتے رہیں تو پھر آنے والے ہندوستان کی تاریخ ہی بدل کر رہ جائے گی۔ اور وہ عناصر جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی آرزو رکھتے ہیں اپنے خوابوں کے بکھرنے کا صرف ماتم کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ کرناٹک میں بی جے پی کے ہاتھ سے اقتدار چھین جانے کے بعد دیکھا گیا۔ کرناٹک میں جو کچھ بھی ہوا اس نے ہندوستان کے موجودہ سیاست نظام میں اُتھل پتھل کردی۔ دشمن گلے ملے۔ اور دوست تو بہرحال دوست ہی رہ گئے۔ کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ تیسرے نمبر پر رہنے والی سیاسی جماعت کا قائد چیف منسٹر بن جائے گا۔ کریڈٹ بہرحال کانگریس کو ملنا چاہئے جس نے بہت ہی شاطرانہ بازی کھیلتے ہوئے مودی اور بی جے پی کی بساط الٹ کر رکھ دی اور مودی جی کرناٹک میں بی جے پی حکومت کا شیرازہ بکھرتے دیکھتے رہے اور جموں و کشمیر کے خوشگوار موسم میں کشمیریوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کرتے رہے۔چیف منسٹر کمارا سوامی بن گئے۔ بی جے پی کا تختہ الٹ گیا۔ یہ سب اپنی جگہ مگر ان سب کے درمیان ایک ہستی کی اس کے چاہنے والوں نے فخریہ طور پر اور مخالفین نے نہ چاہتے ہوئے بھی دبے دبے لفظوں میں ستائش کی ۔ اس کی سیاسی بصیرت اور فراست کا اعتراف کیا۔ وہ ہستی کوئی اور نہیں‘ بیرسٹر اسدالدین اویسی کی ہے۔
کرناٹک کے الیکشن میں مجلس کے حصہ نہ لینے اور جنتادل ایس کی تائید کے اعلان پر بہت کچھ کہا گیا۔ چوں کہ ٹی آر ایس اور مجلس دونوں ہی نے جنتادل ایس کی نہ صرف تائید کا اعلان کیا بلکہ چند انتخابی جلسوں سے اسد اویسی نے بھی خطاب کیا تو دبے دبے لفظوں میں کہا گیا کہ دونوں ہی غیر محسوس طریقہ سے بی جے پی کی تائید کررہے ہیں۔ کیوں کہ یہ پروپگنڈہ عام ہوچکا تھا کہ جنتادل بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ مہاراشٹرا، اترپردیش کے الیکشن میں بھی مجلس پر ایسے الزامات عائد کئے گئے۔ تاہم کرناٹک کے سیاسی حالات نے ایسا موڑ اختیار کیا کہ یکلخت بیرسٹر اسد اویسی کا دامن بی جے پی کی تائید کے الزامات سے بے داغ ہوگیا اور پورے ملک میں ان کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ کیوں کہ بیرسٹر اویسی نے یہ کہا تھا کہ کمارا سوامی کنگ میکر نہیں کنگ بنیںگے۔ اور آج لگتا ہے کہ ان کی پیشن گوئی کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق یا ایک انوکھا تجربہ ہے کہ مجلس اور ٹی آر ایس نے کانگریس کی بھی شدت سے مخالفت کی مگر کرناٹک میں کانگریس ہی کی قربانی اور اس کے تعاون سے حکومت تشکیل دی جارہی ہے‘ اس سے مستقبل میں ٹی آر ایس، مجلس اور کانگریس کے اختلافات میں کمی یا مکمل خاتمہ کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ کانگریس کے بغیر تیسرا محاذ ادھورا لگتا ہے۔ اگر ہندوستان کو زعفرانی نحوست و نجاست سے پاک رکھنا ہے تو یہ ضروری ہے کہ تمام جماعتیں جو زعفرانی جماعتوں سے اختلاف رکھتی ہیں وہ متحد ہوجائیں۔ کبھی پوری شدت کے ساتھ یلغار کرکے ہندوستان کی سیکولر اقدار، روایات کو متاثر کرنے والی جماعتوں کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ بات ہورہی تھی مجلسی قیادت کی سیاسی بصیرت کی۔ سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم اکثر کہا کرتے تھے‘ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ مجلس کی خاصیت ہے۔ اور جب کبھی مجلس کسی بحران سے دوچار ہوتی تو وہ پُراعتماد لہجہ میں کہتے کہ فکر کی بات نہیں‘ مجلس پر 70اولیائے کرام کا سایہ ہے۔آج کے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سچ ہی لگتی ہے۔ویسے بھی اگر مجلس کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مجلس نے ہر دور میں جو حکمت عملی اختیار کی اس سے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ کرن کمار ریڈی کی تائید سے دستبرداری پر اس وقت تنقید کی گئی مگر کچھ ہی دنوں بعد مجلس کی سیاسی بصیرت کا احترام کرلیا گیا کہ کس طرح آندھراپردیش میں کانگریس کی آخری کرن بھی ڈوب گئی۔ اور کس طرح سے تلنگانہ تحریک کو تقویت ملی اور نئی ریاست وجود میں آئی اور ٹی آر ایس کی حکومت تشکیل دی گئی۔ ٹی آر ایس یا کے سی آر نے ہمیشہ مجلس کو اہمیت دی ہے اور مجلسی قائدین کا احترام کیا۔ دونوں جماعتوں کا تال میل خوب ہے۔ آج کی تاریخ میں دونوں کے کانگریس سے اختلافات ہیں تاہم کرناٹک کے حالیہ واقعات کے پیش منظر میں ممکن ہے کہ اختلافات کی شدت کم ہو۔
رابطہ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون9395381226