Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

لے پالک افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: January 7, 2024 12:49 am
Mir Ajaz
Share
9 Min Read
SHARE

شبنم بنت رشید

بلندیوں سے میری سمت دیکھنے والے
میرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں

میرے جاننے والے اور مجھے سمجھنے والے اکثر کہتے ہیں کہ میں بڑی جذباتی ہوں۔ وہ بھی تو بڑا خوبصورت تھا۔ اسکا بھرا بھرا بدن اور گول مٹول چہرہ اور نیلی نیلی آنکھیں، جن کی گہرائی میں بے پناہ پیار کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی کشش تھی۔ وہ مجھے بہت پیارا بھی لگتا تھا اور اچھا بھی۔ جب سے وہ میری زندگی میں آیا اپنے ساتھ بے شمار خوشیاں بھی لایا۔ ایک روز اس نے مجھے اپنے ایک دوست سے ملوایا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ہر ڈھلتی شام کو وہ اسے اپنے ساتھ گھر لانے لگا۔ مگر اس کے دوست کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ تھا۔ اکثر اسکی سانسیں پھولتی تھیں۔ سانس پھولنے کی وجہ شاید اس کے چہرے پر اسکی آدھی ناک تھی۔ آدھی ناک تو شاید وہ کسی حادثے یا بیماری میں کھو چکا تھا۔ مگر ایسا لگتا تھا جیسے کسی ماہر سرجن نے اسکی آدھی ناک بڑی مہارت اور خوبصورتی سے کاٹی ہو۔ کچھ ہی دنوں میں میں بھی اس سے مانوس ہوگئی۔ ان دونوں کی شکل و صورت بھی آپس میں بہت ملتی جلتی تھی۔ اسلئے کبھی کبھار تو مجھے اس بات کا شک ہوتا تھا کہ انکے درمیان دوستی کے علاوہ خون کا رشتہ بھی ہوسکتا ہے۔ خیر جو بھی تھا انکی دوستی مجھے بہت عزیز ہوگئی۔ انہوں نے میری زندگی ہی بدل دی۔ میں کافی خوش رہنے لگی۔
وقت گزرتا گیا۔ مجھے انکی عادت سی ہوگئی اور ہر شام انکا انتظار بڑی بے صبری سے رہتا تھا۔ میں ان دونوں کی الگ الگ پسند کا کھانا تیار کرکے رکھتی تھی۔ کیونکہ کچھ کچھ چیزیں انہیں ہضم ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ دونوں بڑے خوش مزاج تھے۔ پیٹ کے علاوہ بھی کچھ چھوٹی موٹی اہم ضروریات تھیں جن کا میں بڑی ذمہ داری سے خیال رکھتی تھی۔
حسب معمول وہ دونوں آج صبح تڑکے خوشگوار موڈ کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رخصت ہوئے۔ دن بھر سب کچھ نارمل ہی رہا مگر وہ شام بڑی سرد اور اداس تھی جب وہ اپنے جگری دوست کو کہیں اکیلا چھوڑ کر خود گھر لوٹ آیا۔ نجانے کونسی آفت آن پڑی ہوگی اس معصوم پر۔ وہ اپنے دوست کو کہاں چھوڑ آیا؟ میں نے کئی بار اس سے پوچھا مگر ہر بار ناکام ہی رہی۔ وہ نم آنکھوں اور خاموشی سے دیکھ کر اپنی گردن جھکا دیتا تھا۔ دنیا بڑی بے مروت ہے۔ اس کے علاوہ انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ انسان ہر بات وقت کی ساتھ بھول جاتا ہے۔ مگر میرے اندر اسکے دوست کو کھونے کی پریشانی دن بہ دن بڑھتی ہی گئی۔ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ میں اسکے دوست کو کیسے کھوجوں۔ کہیں خدانخواستہ اسکے ساتھ کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا؟ یہ سوال ذہن میں آتے ہی ڈر لگنے لگتا تھا۔ مجھے اس کے چہرے کا سکون دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ بھی بڑا بے مروت ہے۔ اسلئے اس نے اپنے دوست کے کھونے کا غم اور ملال بھول کر ہار مان لی ہے۔ مگر کبھی کبھی اسکی مایوسی دیکھ کر اس کی تنہائی کا بھی احساس ہوتا تھا۔ اسی طرح کتنے دن گزر گئے پتہ ہی نہ چلا۔
ابھی بہت عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ موسم میں بدلائو آگیا۔ ایک سہانی سی صبح میرا دل چہل قدمی کرنے کو چاہ رہا تھا۔ میں سب کا ناشتہ کروا چکی تھی۔ وہ بھی کھا پی کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے والا تھا۔ میں بھی موقع غنیمت جان کر چہل قدمی کا اچھا بہانہ بنا کر ارد گرد کے ماحول کی پروا کئے بغیر اسکے پیچھے پیچھے چل نکلی۔ ہلکے قدموں سے اسکا پیچھا کرنا بڑا مشکل تھا اسلئے کچھ قدموں کی دوری پر میں اسکے پیچھے پیچھے تیز رفتاری سے چلنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بستی سے کافی دور نکل گیا مگر اس نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ لیکن ایک جگہ بیچ سڑک کچھ دیر رک کر پھر ایک سنسان سے راستے کی طرف مڑ کر چلنے لگا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ آج مجھے اسکے دوست کا کچھ نہ کچھ پتہ ضرور معلوم ہوگا۔ اسلئے میں نے بھی اپنے دل کو مضبوط کرکے آنکھیں بند کر کے اللہ سے دعا مانگی اور کچھ آگے چلتے ہی وہ اچانک خطرناک گھنی جھاڑیوں کی طرف مڑ کر آگے بڑھنے لگا۔ میں نے غور سے دیکھا کہ جھاڑیوں کے اس طرف بڑے بڑے پتھروں اور اینٹوں کے بڑے ڈھیر موجود تھے۔ میں عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوگئی۔ میں اندر ہی اندر کافی ڈر گئ تو دل حلق کو آگیا۔ اپنی مٹھیاں بند کرکے تیز قدم آٹھاتی ہوئی واپسی کی راہ لی۔ مجھے آج یہ بات سمجھ آئی کہ جذبات بھی نا انسان کو کیا کیا نہیں کرواتے ہیں۔ گھر آکر میں نے آئیندہ ایسی بے وقوفی نہ کرنے کی قسم کھائی، شام کو میں نے ان دونوں کا کھانا پینا پھر اس امید پر تیار رکھا کہ اللہ سب کا مددگار ہے۔ پھر اپنی منتظر آنکھیں بچھا کر انتظار کرنے لگی مگر پچھلی شام کی طرح یہ شام بھی اداس ثابت ہوئی کیونکہ آج دونوں میں سے کوئی بھی لوٹ کے نہ آیا۔ میری روح کانپ اٹھی کافی دیر انتظار کرتے کرتے میں بہت روئی۔ تھک ہار کر دکھی موڑ لے کر اندر داخل ہوئی۔ دروازہ بند کرکے اندھیرے کمرے میں آنکھیں موند کر بستر پر لیٹی۔ آرام وقرار کے ساتھ ساتھ نیند بھی آنکھوں سے غائب ہوچکی تھی۔ بھوک بھی مٹ چکی تھی۔ کروٹیں بدل بدل کر رات کا بہت سارا حصہ گزرگیا۔ میں ان دونوں کو یاد کرتی رہی تو انکے معصوم چہرے اور انکے ان گنت قصے یاد آرہے تھے۔ رات کا شاید آخری پہر چل رہا تھا کہ ہولے سے باہر اسکی مخصوص آہٹ سنائی دی۔ اس وقت کون آیا؟ میں پھرتی سے اٹھی، دروازہ کھولا تو میں دھک رہ گئی۔ ہرسو رات کی تنہائی اور سناٹے اور چاند کی بھر پور چاندنی میں وہ اپنا جگمگاتا چہرہ لیے خوشگوار مُوڈ میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ اسکے پیچھے کچھ ہی فاصلے پر سبز گھاس کے فرش پر اسکا دوست آنکھوں میں خوشی لے کر ندامت سے میرے گلے، شکوے، شکایتیں سننے کے لیے لنگڑا تے ہوئے میرے قریب آیا۔ یہ خواب تھا یا حقیقت کیونکہ اسکے دوست کی واقعی ایسی حالت ہوچکی تھی کہ اگر وہ کچھ دن اور نہ آتا تو نہ جانے اسکا کیا ہوتا۔ اسکی ایک ٹانگ بری طرح زخمی ہو چکی تھی۔ شاید زیادہ خون بہنے کی وجہ سے اسکا نرم ملائم ریشم سا بدن لاغر ہوچکا تھا۔ میری آنکھوں میں رکے آنسوں ایک ایک کر کے گرتے گرتے ان دونوں لے پالک بے زبان معصوم بلیوں کی پشتوں کو تر کرتے گئے۔ اور وہ دونوں میرے پیروں کو چاٹتی گئیں۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے روٹھی ہوئی بہار کی خوشی ایک بار پھر اچانک لوٹ آئی۔
مانا کہ بے زبان ہوں، پر دل تو میرے پاس ہے
تیری طرح اے بندے، جینے کی مجھ کو آس ہے۔
جو ہے تیرا خدا، وہ ہے میرا خدا،
پھر کیسے کہوں وہ ہے مجھ سے جدا، اور تیرے لیے ہی خاص ہے۔
مانا کہ بے زبان ہوں، پر دل تو میرے پاس ہے۔

���
پہل گام اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419038028

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
وندے بھارت ٹرین سے نہ صرف سیاحت بلکہ رابطے بھی بڑھیں گے:ناصر اسلم
تازہ ترین
ملک میں کورونا انفیکشن کے فعال کیسز کی تعداد تقریباً سات ہزار، مرنے والوں کی مجموعی تعداد 68پہنچ گئی
تازہ ترین
اودھم پور میں منشیات فروش گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد:پولیس
تازہ ترین
ایس آیی اے کے ساوجیاں میں چھاپہ مار کارروائیاں
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?